تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : سرسید احمد خاں( ایک عبقری شخصیت اور بے مثال عملی انسان)
انتحاب و ترتیب : اشتیاق احمد مشتاق
قیمت : 300/- روپئے ،صفحات : 237
ملنے کے پتے : ث مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ،یونیورسٹی مارکیٹ ،علی گڑھ ،موبائل
:9259136713
ث دانش محل ،امین الدولہ پارک ،لکھنؤ
ایک متحرک اور فعال انسان کی نہ تو محنت ضائع ہوتی ہے نہ ہی اس کے قدم نشان
منزل تک پہنچنے سے رکتے ہیں ،یہاں تک کہ حوصلہ شکن حالات بھی اس کی فکری
سربلندی اور پیش قدمی کو متزلزل نہیں کرپاتے ۔اس کی جیتی جاگتی مثال میدان
تعلیم کے شہسوار سرسید احمد خاںکی ہے ۔ انہوں نے ایسے نازک دور میں جب
مسلمانوں کے ہاتھوں سے اقتدار نکل کر برطانوی سامراج کے قبضے میں جاچکا تھا
اور مسلمان شدید مایوسی کے عالم میں تھے اس وقت انہوں نے حالات کا بغور
تجزیہ کرتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کی ترقی اور
عظمت رفتہ کی بازیابی اشد ضروری ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ عصری علوم کے
حصول کی کوشش کریں کیونکہ ان کی پسماندگی کا یہی موثر ترین علاج ہے اور اس
نشانےکو چھونے کیلئے انہوں نے زبردست تحریک شروع کی ،اپنے عیش و آرام کو
تج دیا اور اس تعلق سے معاشرے کے سنجیدہ ،فکر مند اور صاحب ثروت افراد سے
تعاون کی اپیل کی ۔میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ، اور پھر رفتہ رفتہ
اس تحریک نے ایک کارواں کی شکل اختیار کرلی ،ان کا منشا یہ تھا کہ مسلمان
اس مایوسی اور پریشانی کے عالم میں نہ تو تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ
جائیں نہ ہی مذہبی اعتبار سے ان کے اندر کوئی کمزوری اور اجنبیت باقی رہے
،وہ کہتے تھے کہ میں چاہتا ہوں ،مسلمان کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے
ہاتھ میں سائنس اور اگر اس عمل کی تکمیل ہوگئی تو وہ اپنی عظمت رفتہ کی
بازیافت کرسکتا ہے ،بس یہی دھن ان پر سوار تھی اور بالآخر انہیں زبردست
کامیابی حاصل ہوئی اور آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں مسلمانوں کے
پاس ایک ایسا عظیم ایمپائر کھڑا ہوگیا ہے جس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں
،حالانکہ اس راہ میں ان کے سامنے بڑے بڑے شہتیراور سنگ گراں رکھےگئے قوم
کےسرکردہ افرادیہاں تک کہ علماءبھی ان کے سامنے سینہ سپر ہوگئے لیکن ان کے
پائے استقامت میں لرزش نہ آئی ۔ مشہور شاعر اور دانشور اکبر الہ آبادی جو
ان کے شدید مخالفین میں تھے انہیں بھی یہ کہنا پڑا، ہماری تو باتیں ہی
باتیں ہیں سید کام کرتا تھا ۔ گذشتہ سال ۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۷کو اس مرد آہن کے
یوم پیدائش کے حوالے سے ایک جشن کا انعقاد کیا گیا اور اس بات کا اعتراف
کیا گیا کہ سرسید مرحوم نے جو شمع روشن کی تھی اسے کبھی بجھنے نہیں دیا
جائے گا اسی موقع کی مناسبت سے سرسید کے ایک جاں نثار اور اسی مادر علمی کے
تلمیذاشتیاق احمد مشتاق کی ایک کتاب ’’ سرسید احمد خاں ایک عبقری شخصیت اور
بے مثال عملی انسان‘‘ کے عنوان سے ہمیں موصول ہوئی جس کی ترتیب و انتخاب
میں معیار کا کافی خیال رکھا گیا ہے ا،جو اٹھارہ وقیع ترین مضامین سے
آراستہ ہے جن کے ذریعے سرسید مرحو م کی عبقری شخصیت کے ہمہ جہت پہلوؤں کو
انتہائی موثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے ۔ابتدا علامہ اقبال کی مشہور نظم
’سید کی لوح تربت سے کی گئی ہے اس کے بعد کچھ تصاویر ہیں جو اس جیتے جاگتے
عظیم ادارے کی شان و شوکت کی غمازی کرتی ہیں ۔مضمون نگاروں میں پروفیسر
حامد حسن قادری ، پروفیسر دستگیر عالم ، مولانا عبدالحلیم شرر، ڈاکٹر احسان
اللہ فہد ، ڈاکٹر اسماءمسعود ،ڈاکٹر تنویر حسن ، ڈاکٹر حدیث انصاری ، ڈاکٹر
محبوب الرحمان ، ڈاکٹر فرحت جہاں ، ڈاکٹر محمدفرقان سنبھلی ، ڈاکٹر مشتاق
،ڈاکٹر سلطنت وغیرہم شامل ہیں ۔مرتب نے اپنے دیباچے میں مسلمانوں کی زبوں
حالی ،مایوسی اور پسماندگی کا دلدوز نقشہ کھینچتے ہوئے سرسید مرحوم کی ان
کاوشوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نےناگفتہ بہ حالات میں تعلیمی میدان میں
سرانجام دیں۔سرسید مرحوم نے چہار جانب سے کی جانے والی حوصلہ شکن مخالفتوں
کے باوجود مایوسی کو اپنے پاس پھٹکنےنہ دیا اور انتہائی صبرو تحمل کے ساتھ
اپنی تحریک کو آگےبڑھاتے رہے۔ اس دوران وہ اپنے مخالفین سے تکراو بحث کے
بجائے حلیم الطبعی کا مظاہرہ کرتے رہے جو بالآخر ان کی کامیابی پر منتج
ہوا ۔تاریخ بھی اسی کی شہادت دیتی ہے کہ عزم مستحکم اور صبر و رضا کا دامن
تھامے بغیر کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہم کنارنہیں ہوسکتی ،سرسید نے بھی
وہی کیا اور کامیاب ہوئے ۔مرتب کے قلم میں کہیں کہیں بے حد تلخی پیدا ہوگئی
ہے جس کی فی زمانہ ضرورت نہیں تھی اور ایک ایسے وقت میں جب اختلاف و انتشار
کی آندھیاں چل رہی ہوں اور سیاسی طور پر مسلمان بے وزن اور بے دست و پا بن
کررہ گئے ہیں، علماءاور سرسید تحریک کے درمیان اب کوئی مجادلہ بھی باقی
نہیں رہ گیا ہے ،ایسے میں پرانے زخموں کو کریدنا مناسب نہیں ۔حامد حسن
قادری اپنے مضمون میں سرسید کی ملکی و قومی خدمات کے حوالے سے تحریر کرتے
ہیں ’’سرسید نے ہنگامہ ٔ غدر کے سلسلے میں اپنے ملک و قوم کی جوخدمات کیں
ان کے علاوہ ہندوستان کیلئے اور اسلام اور مسلمانوں کیلئے خصوصا فلاح و
صلاح کی جدوجہد شروع کردی ۔تعلیمی میدان میں پہلا قدم یہ تھا کہ ۱۸۵۹میں
ایک فارسی مدرسہ مرادآباد میں قائم کیا ،اسی سال رسالہ ’ اسباب بغاوت ہند،
لکھ کر مسلمانوں کی طرف سے گورنمنٹ کی بدگمانی رفع کرنے کی کوشش کی
،۱۸۶۳میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اور تعلیمی کتابیں انگریزی
سے اردو میں ترجمہ کرائیں ۔۱۸۶۷میں انہوں نے اردو یونیورسٹی قائم کرنے کی
تجویز گورنمنٹ کے سامنے پیش کی وغیرہ ،اسی طرح سے پورا مضمون تاریخی اعداد
و شمار، حقائق اور سرسید کی کوششوں کی تفصیل سے بھرا ہوا ہے جو ایک طرح سے
دستاویزی ثبوت بن گیا ہے کہ مرحوم کو مسلمانوں کی پسماندگی کا کس قدر احساس
تھا اور انہوں نے مسلمانوں کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں آخری سانس تک
کوشش کی ۔کتاب کے دیگر مضامین بھی معلومات سے پر اور حوصلہ افزا ہیں جن کا
مطالعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں میں فعالیت اور تحرک کی برقی لہر پیدا
کرسکتا ہے ۔مجموعی طور پر یہ کتاب نہ صرف سرسید کے کارناموں کا اعتراف ہے
بلکہ وہ یہ پیغام بھی پہنچاتی ہے کہ ہم جشن کے انعقاد ا ورخوشیاں منانے تک
خود کو محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے اندر بھی وہی حوصلہ اور امنگ پیدا کریں
تاکہ موجودہ حالات کی تاریکی کو دور کیا جاسکے جس نے آج مسلمانوں کو
اندھیرے میں ڈھانپ لیا ہے ۔ہم مرتب کی اس کاوش کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس
کتاب کے مطالعے کی سفار ش کرتے ہیں ۔
|