گوروں کے دیس میں - پانچویں قسط

گوروں کے دیس میں (قسط وار)

لندن وآپسی:
ایک خوبصورت دن برائٹن کے ساحل سمندر پر گزارنے کے بعد وآپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ ٹرین میں سوار ہونے کے بعد اب مجھے اگلے دن کا پلان کرناتھا۔
وینڈر مرے: برطانیہ کے شمال میں واقع ایک سیاحتی مقام ہے اور لیک ڈسٹرکٹ ریجن میں واقع ہے۔آن لائن ٹکٹ چیک کی اس وقت اس کی قیمت 99پاونڈ ا ٓرہی تھی جو کہ مناسب تھی۔ کریڈٹ کارڈ سے پےمنٹ کر دی۔ چیک آوٹ سے پہلے ایک آپشن آیا کہ آپ ٹکٹ کہاں سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔ میں چونکہ لندن برج ٹرین اسٹیشن جا رہا تھا اس لئے وہ اسٹیشن ہی سلیکٹ کر لیا۔لیکن مجھے لگتا تھا ایک اور ٹریجڈی ہونے جا رہی تھی۔ ایک مختصر پیغام سکرین پر ڈسپلے ہوا کہ آپ اپنی ٹکٹ 3گھنٹے بعد وصول کر سکتے ہیں۔اب کیا کروں میں نے کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچ جانا تھا اور یہ اسٹیشن میری آخری منزل بھی نہ تھا کہ وآپس آکر لے جاوں۔ میں نے اپنے آپ کو ایک مشکل میں پھنسا لیا تھا۔ تھوڑی پریشانی تو ہوئی لیکن میں سنمبھل گیا کہ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ کچھ دیر میں ہماری ٹرین لندن برج اسٹیشن پہنچ چکی تھی۔ میں اسٹیشن پر موجود آٹو میٹڈ مشین کے پاس گیا اور ٹکٹ پرنٹ کرنے کی کوشش کی۔مخصوص کوڈ ڈالتے ہی فورا سے مشین نے خوشخبری سنائی کہ لیں جناب پریشان نہ ہو ں آپکی ٹکٹ تیار ہے۔اور میری جان میں جان آئی۔
Buckingham Palaceبکنگم پیلس:
دن کے 2بج رہے تھے ابھی کافی وقت باقی تھا شام ہونے میں۔ اس لئے بجائے وآپس ہوٹل جانےکے، یہ پلان بنا کہ سنٹرل لندن میں موجود کچھ مقامات کو وزٹ کر لیا جائے۔زیر زمین میٹرو میں سواری کی غرض سے اسٹیشن میں داخل ہوگیا۔ زیرزمین میٹرو میں میں بھی ایک الگ ہی دنیا بس رہی ہے۔ ہر کوئی آپ کو جلدی میں ہی ملے گا۔سب لوگ اپنی اگلی ٹرین چھوٹنے کے ڈر سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ یہاں کا ایک اصول مجھے بہت اچھا لگا اور وہ یہ کہ بجلی سے چلنے والی سیٹرھیوں پر آپ نے ایک سائیڈ چھوڑ کے کھڑا ہونا ہوتا ہے تاکہ جو لوگ جلدی میں ہیں اُن کا راستہ نہ رُکے۔اس مشینی زندگی میں بھی اس معاشرے کی کامیابی کی یہی وجہ نظر آتی ہے کہ یہ لوگ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے ہیں ورنہ ہمارے ملکوں میں توایمبولینس کو بھی راستہ دینا توعین سمجھی جاتی ہے۔ٹرین میں چڑھتے اور اترتے وقت بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ دھکم پیل نہ ہو۔ہم لو گ بھی جب ان ملکوں میں جاتے ہیں تو کس قدر معذب ہو جاتے ہیں اس کا اندازہ مجھے جا بجا ہوا۔میرا اسٹیشن آچکا تھا اورمیں گرین پارک اسٹیشن پر اُتر گیا۔اور پیلس کی جانب پیدل چلنا شروع کر دیا۔ یہ ایک خوبصورت پارک تھا جس کے دوسرے کونے تک چل کے جانا تھا۔ پارک میں لوگ بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھے۔ اور کچھ میری طرح پیلس کی جانب رواں دواں تھے میں بھی اس خوبصورت اور سرسبز پارک میں چلتے ہوئے اُن کے ہمراہ ہو لیا۔
کچھ ہی دوری پر ایک شاندار عمارت اپنی پوری شان و شوکت سے کھڑی تھی۔ عمارت کو دیکھنے والوں کا ایک جمع غفیر تھا۔ شاہی محل سلطنت برطانیہ کا ایڈمنسٹریٹر حب ہے۔اور اس کی تعمیر1703سنہ میں ہوئی۔موجودہ شاھی محل دوسری جنگ عظیم میں بری طرح متاشر ہوا ۔بعد میں اسے دوبارہ اپنی اصلی شکل میں تعمیر کیا گیا اور لوگوں کے لئے کھول دیا گیا تا کہ سیر کے لئے آنے والے لوگ اس دیو قامت عمارت کی شان وشوکت اور فن تعمیر کو نہ صرف دیکھ سکھیں بلکہ برطانیہ کی ثقافت،رہین سہن اور اقدار سے بھی روشنا س ہوسکیں۔یہاں روزانہ گارڈز کی تبدیلی کے لئے ایک وقت مخصوص ہے لیکن اُسے دیکھنے کے لئے آپ کو پہلے سے ٹکٹ خریدنی پڑتی ہے۔
LONDON ATTRACTIONSلندن کی تفریح گاہیں:
کچھ دیر شاھی محل میں گزارنے کے بعد میں اپنی اگلی منزل لندن آئی کی جانب نکل پڑا۔ لندن آئی، بگ بن، ٹرافلگراسکوائر سب قرب و جوار میں واقع ہیں اور باآسانی ایک ہی وقت میں گھوما جا سکتا ہے۔
لندن آئی ایک دیو قامت جھولا ہے۔اسکا ڈھانچہ 443 فٹ(135میٹر)اُونچا ہے۔ میری ہمت تو نہ ہوئی کہ جھولے میں بیٹھ کر ایڈوینچر کر سکوں لیکن آپ ضرور لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ میں نے تو بس کچھ تصاویر یادگار کے لئے بنائی اور آگے چل دیا۔
ٹرافلگر اسکوائر، وسطی لندن، ویسٹ منسٹر کے علاقے میں موجودچیئرنگ کراس کے ایریا میں تعمیر کیا گیا ایک چوک ہے۔ اسکا نام فرانس اور سپین کے ساتھ نیپولک جنگ میں برطانوی بحریہ کی فتح ٹرافلگر جنگ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ۱۳ویں صدی سے ہی ٹریفلگر ایک لینڈمارک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سیاسی جلوس، احتجاج اور دیگر تقریبات کے لئے بھی یہ اسکوائر اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔
پہنچنے پر احساس ہو ا کہ یہ قومیں تہذیت و تمدن کا گہوارہ ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے اپنی تاریخ اور اپنے ہیروز کو فراموش نہیں کیا۔ جا بجا مجھے ان کے ہیروز کے دیو قامت مجسمے نظر آئے اور ہر ایک کے دامن میں ان کی بہادری کی داستانیں کندا تھیں۔ابھی میں وہاں بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ یہ لوگ اتنے مہذب اور قانون پر عمل کرنے والے کیوں ہیں تومجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا۔ سڑک کےدوسرے کنارے کچھ لوگ ہجوم کی صورت میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ کچھ پولیس وین بھی موجود تھیں۔لوگوں نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے اور ان پر کچھ نعرے درج تھے۔ وہ خاموشی سے احتجاج کر رہے تھے۔ یہ کیا میرا ذہن اسے قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ یہ پولیس والے اتنے مطمئن اور سکون سے کیوں کھڑے ہیں ۔ یہ لاٹھیاں کیوں نہیں برسا رہے۔ واٹر کینن گنز کدھر ہیں ۔اور اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ یہ سب لوگ اتنےمہذب کیوں ہیں نہ کوئی توڑ پھوڑ ، نہ ہی کوئی ٹائر جلا ئے جا رہے تھے اور نہ ہی گاڑیوں کے شیشے توڑ رہے تھے۔ توپھر یہ کیسا احتجاج ۔
سچی بات ہے اور میں کیوں یقین کر لوں کہ احتجاج ایسے ہی ہوتا ہے ۔ میں نے تو زندگی میں اپنے ملک میں ایسی کوئی روایت نہ دیکھی اور نہ ہی اپنے بڑوں سے سنی۔ ہمارے ہاں تو جب تک گالی گلوچ، توڑ پھوڑ نہ ہو، جب تک پولیس ڈنڈوں سے کچھ لوگوں کی پھینٹی نہ لگائے۔ میڈیا تھوڑے کو زیادہ ہنگامہ نہ دکھائے تو لگتا ہی نہیں کہ کوئی احتجاج کر رہا ہے۔ بس شاید یہ ہی فرق ان لوگوں کو مہذب اور ہمیں غیر مہذب بناتا ہے۔قومیں کردار سے بنتی ہیں اور جو قومیں اپنی تاریخ اور ماضی کو سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتیں۔

(جاری ہے)

Shakeel Ahmed
About the Author: Shakeel Ahmed Read More Articles by Shakeel Ahmed: 11 Articles with 16116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.