سچی بات ہے اور میں کیوں یقین کر لوں کہ احتجاج ایسے ہی
ہوتا ہے ۔ میں نے تو زندگی میں اپنے ملک میں ایسی کوئی روایت نہ دیکھی اور
نہ ہی اپنے بڑوں سے سنی۔ ہمارے ہاں تو جب تک گالی گلوچ، توڑ پھوڑ نہ ہو، جب
تک پولیس ڈنڈوں سے کچھ لوگوں کی پھینٹی نہ لگائے۔ میڈیا تھوڑے کو زیادہ
ہنگامہ نہ دکھائے تو لگتا ہی نہیں کہ کوئی احتجاج کر رہا ہے۔ بس شاید یہ ہی
فرق ان لوگوں کو مہذب اور ہمیں غیر مہذب بناتا ہے۔قومیں کردار سے بنتی ہیں
اور جو قومیں اپنی تاریخ اور ماضی کو سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کا لائحہ
عمل تیار کرتی ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتیں۔
مادام تصاوو میوذیم بھی اپنی طرز کی حسین جگہ ہے۔اسکی تاریخ ۲۰۰ سال سے
زیادہ پرانی ہے۔ دنیا کی تمام مشہور شخصیات کے مجسمے یہاں آویزں کئے گئے
ہیں۔ادھر آکر اس بات کا احساس ہوتا ہے جو قومیں دوسروں کو اپنے اندر زندہ
رکھتی ہیں وہ کبھی ناپید نہیں ہوتیں۔لندن کے اردگرد موجود تفریحی مقامات
گھومنے کا پروگرام ہو تو ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کا داخلہ مفت
نہیں ہے اس لئے بہتر ہے کہ آپ اپنے ٹکٹس آن لائن ہی خرید لیں۔ اس کے دو
فائدے ہوں گے ایک آپ کو اکثر مختلف آفرز مل جاتی ہیں جس سے آپکی بچت ہو
جا تی ہے اور دوسرا تفریحی مقام پر لگی لمبی قطار میں لگنے سے بچ جاتے ہیں۔
ہوٹل وآپسی:
شام ہوچکی تھی اور اگلے دن صبح سویرے سفر کرنا تھا اس لئے ہوٹل کی جانب
وآپسی کا سفر شروع کر دیا۔ جیسا کہ آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ میں نے
ہوٹل دانستہ لندن کے مضافاتی علاقے الفورڈ میں لیا۔ اس کی کئی وجوہات تھی۔
ایک تو اکانومی تھا اور دوسرا کھانے پینے کا کوئی مسلئہ نہ تھا اور تیسرا
سنٹرل لندن سے صرف ۱۵منٹ کی مسافت پر تھا۔ہوٹل پہنچا تو عامر بھائی کی کال
آگئی ۔کہ میں آرہا ہوں اور کھانا اکٹھے ہی کھائیں گے۔
دن کو موسم اچھاتھا لیکن رات میں خنکی میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے سویٹر
یا جیکٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ دیر بعد عامر بھائی پہنچ گئے اور میں نے
فرمائش کر دی کہ آج کچھ دیسی کھانا کھاتے ہیں ۔وہ بولے ٹھیک ہے آج آپ کو
ایک ڈھابے پر لے کر جاتا ہوں۔ تڑکے والی دال ایسی کہ آپ اپنی انگلیاں
چاٹتے رہ جائیں گے۔ایک چھوٹے سے ہوٹل نما ڈھابے پر پہنچے تو ایک خوش مزاج
اور خوش شکل سے ادھیڑ عمر بندےنے پنجابی تڑکے والی انگریزی سے ہمارا
استقبال کیا۔ لہجے اور شکل سے کوئی ہندوستانی پنجابی لگ رہا تھا۔ عامر
بھائی نے تعارف کروایا کہ یہ سردار جی ہیں اور ہندوستا ن سے تعلق
رکھتےہیں۔ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان جیسی دال پورے الفورڈ میں اور کوئی نہیں
بنا سکتا۔کھانے کےدوران احساس ہوا کہ واقع اس جیسا ٹیسٹ شائد ہی کہیں اور
مل سکے۔
کھانے کے بعد ہم چہل قدمی کی نیت سے تھوڑا آگے نکل گئے۔ کچھ دور جانے کے
بعد اچانک عامر بھائی بولے چلو آپ کو ایک ایسی جگہ دکھاتا ہوں جس نےلوگوں
کی قسمت بدل دی۔ کچھ دیر میں ہم ایک کھلی گلی میں پہنچ چکے تھے۔ بظاہر
ٹریفک رواں دواں تھی اور یہ عام سی اسٹریٹ کا تاثر ہی دے رہی تھی۔ تھوڑا
غور کیا تو ایک خاص فاصلے پر اسٹیل باکس بنے تھےاور بڑی نفاست سے سڑیٹ میں
ہموار تھے جیسے کوئی عام سی چیز ہو۔ عامر بھائی متجسس پا کر مجھ سے مخاطب
ہوئے جیسے انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔یہ الفورڈ ہائی
اسٹریٹ ہے۔اور دن کے وقت یہ اسٹریٹ عام ٹریفک کے لئے بند ہوتی ہے اور مختلف
چیزوں( جن میں کھانے پینے سے لے کرضروریا ت زندگی کی تمام اشیاہ سستے داموں
دستیاب ہوتی ہیں) کے اسٹال لگے ہوتے ہیں۔ یہ بلکل ویسی ہی مارکیٹ ہے جیسے
پاکستان میں مختلف جگہوں پر سستے بازار لگتے ہیں۔ لیکن یہاں کی بلدیہ تمام
ضروری سہولتیں مہیا کرتی ہے اور اس کے بدلے مناسب اور بہت کم کرایہ وصول
کرتی ہے۔ یہ جو باکس آپ دیکھ رہے ہیں یہ بجلی اور پانی کے ہیں۔لوگ اپنا
سامان یہاں لاتے ہیں بازار لگتا ہے اور چند گھنٹوں میں خریدار اور دوکاندار
دونوں کا کام ہو جاتا ہے۔میرے لئے یہ بہت ہی نئی بات تھی لیکن بہت دلچسپ
بھی۔کہ جو لوگ اپنے ملکوں میں آن بان شان کے چکر میں کچھ نہیں کرتے وہ
باہر کے ملکوں میں جا کر سب کچھ کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔شائد
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُنھیں اس بات کا یقین ہو تا ہے کہ
جتنی محنت وہ باہر کے ملک میں کریں گے اسکا انھیں معاوضہ ان کی توقعات سے
بھڑ کر اور پوری ایمانداری سے ملے گا۔ عامر بھائی بھی کیا دلچسپ بندے ہیں
ان کے ساتھ وقت کے گزرنے کا احسا س ہی نہیں ہوتا۔رات کافی ہو چکی تھی اور
صبح سویرے میں نے اپنی اگلی منزل کی جانب اور انھوں نے اپنے آفس جانا تھا
اس لئے وآپس ہوٹل کی جانب چل پڑے۔ |