آج کے دور میں سب اہم بات یہ ہے کہ کافر اور ان کے ایجنٹ
میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور امریکہ دجّال کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو بندہ
ان کافروں اورایجنٹوں کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی تعریفیں نا کرو
اللہ پاک کی تعریفیں کرو اللہ کا شکر ادا کرو اللہ کو رب مانو تو یہ کہا
جاتا ہے کہ تمھارے اللہ نے اور اس کے رسول نے جو جنّت کی نشانیاں بیان کیں
ہیں وہ سب آج کے سائنس دانوں نے مہیّا کر لی ہیں ہر طرف صفائی بڑی بڑی
بلڈگیں ہوٹل پارکیں سومنگ پول پام ہاوس سڑکیں نہریں باغات نرسریاں بنائی
ہیں کہ آج تک نا کسی آنکھ نے دیکھیں ہیں نا کسی بھی مذہب میں بیان ہوئی ہیں
اور ہر طرح کی امراض کی ادویات تیار کر لی گئی ہیں اور خوراک کو کئی سال تک
محفوظ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہے اور اب یہ کافر اور ان کے ایجنٹ
کہتے ہیں برملا کہتے ہیں کہ آخرت یہی ہے جنّت یہی ہے اب جو بندہ خوا وہ کسی
بھی مذہب کا ہے وہ اپنا مذہب چھوڑ کر امریکہ دجّال کا وفادار اور شکرگزار
اور عبادت گزار کیوں نہیں بن رہا اگر امریکہ کو ربّ الاعلٰی نہیں مانا
جارہا یہ محسن اعظم امریکہ کے منکر ہیں اور ان کو کوئی بھی جدید سہولت
استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو بندہ اللہ کے دین پر ثابت قدمی کی دعوت
دیتا ہے اور خود بھی کوشش کرتا ہے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا جاتا ہے
کہ ایمان داری سے تو کوئی دو وقت کی روٹی بھی نہیں کما سکتا لہٰذا امریکہ
کی مکمل وفاداری کا انعام ملتا ہی تب ہے جب 90 پرسنٹ کرپشن کرے تمام کبیرہ
گناہوں کا ارتقاب کرے اور امریکہ کو اس کے سمیت جس جس کو وہ کہے اس کو اس
کا شریک کیوں نہیں بنایا جارہا ہم نے موجودہ مقام حاصل کیا ہے تو سارے
بندھن توڑ کر اپنے دین اور مذہب اور ملک پاکستان کے مفادات کو بیچ کر
امریکہ کا مومن بنا کر یہ مقام حاصل کیا ہے تو یہ مسلمان ہماری اتنی
قربانیوں کو نظر انداز کرکے ہماری برابری کی جرآت کریں تو کیوں کرے پہلے وہ
ہماری طرح شکست تسلیم کریں کہ جو دین اسلام میں جنّت کی نشانیاں بیان ہوئی
ہیں وہ امریکہ نے مہیّا کر دی ہیں اور جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ فرعون کی
جنّت اور شدّاد کی جنّت تو تباہ ہو گئی تھی اب امریکہ اور اس کے سرداروں کی
بنائی ہوئی جنّت تو پوری دنیا پر پھیلی ہوئی ہے اور کئی صدیوں سے قائم و
دائم ہے لہٰذا اسلام کی بتائی ہوئی تمام پیش گوئیاں غلظ ثابت ہوگئی ہیں اب
کیوں اسلام اسلام کرتے پھر رہے ہو بلکل فرعون کی طرح امریکہ کو ربّ مانو
اور صبح شام دوپہر رات امریکہ کا شکریہ اداکرتے رہیں اور ساری زندگی کرتے
رہیں اور بچّوں کو بھی اس کام میں لگائیں تو بھی امریکہ کا شکریہ ادا نہیں
ہو سکتا جتنی جدید سہولیات امریکہ نے دی ہیں تو کیا امریکہ دجّال ثابت ہوا
کہ نہیں ہوا
اگر امریکہ دجّال نہیں ہے تو اس کو ان اپنے خود ساختہ خوشامدیوں کو روکنا
ہوگا اگر تو امریکہ دجّال نہیں ہے تو پھر وہ اللہ کے دین کا پرچار کرنے
والوں کو دہشت گرد قرار دینے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے اللہ کے دین
کے پاسداروں کو جو لوگ امریکہ کا وفادار اور عبادت گزار بناتے بناتے مارے
جا رہے ہیں ان کے عقائد کا خون کرتے چلے جارہے ہیں اللہ کے دین کی توہین
اللہ کی کتاب کی توہین پیغمبروں کی توہین مساجد کی توہین اور ان لوگوں کی
سرعام بے عزّتی جو صرف یہ کہتے ہیں کہ ظلم ہے یہ شرک ہے جس پر خود بھی چل
رہے ہو جس پر ہمارے سمیت قوم کو چلا رہے ہو یہ کفر اور شرک ہے ان کو دہشت
گرد قرار دے کر ان کو عملی طور پر مجرم بنایا جاتا ہے کہ ہم نے امریکہ اور
اپنے آقاوں کو یہ رپورٹ دی ہے کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں یہ جاہل ہیں امریکہ
کے ناشکرے ہیں تو ان کو ہر کام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے ان کو پراکسیز میں
بھی مبتلا کر دیتے ہیں اور پھر ان کی طرف سے اداکارت نمائندے بنا کر دپلی
کیٹ بنا کر ثابت کر دیا جاتا ہے کہ جو ہم نے رپورٹ دی تھی وہ درست تھی
لہٰذا اے امریکہ آقا ان کو سزا دو تاکہ دوسرے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور
ہمارے تلوے چاٹتے پھریں اس میں حسن نثار کی باتیں سنیں تو یہ محسوس ہوتا ہے
کہ یہ ہندوستان کا کوئی اعلٰی عہدے دار بات کر رہا ہے اور یہ اعلان کر رہا
ہے کہ 30 سال پہلے ہی پاکستان ہندوستان کے قبضے میں جا چکا ہے اور ہمارا
میڈیا اس سے سوال ہی ایسے کرتا ہے کہ وہ ایسی باتیں کرے کہ پاکستان
مسلمانوں کا ملک نہیں ہے کیا یہ دجّال کا ایجنٹ نہیں ہے اور میں اگر اس کو
معبود نہیں مانتا اس کو اپنا آقا نہیں مانتا تو مجھے یہ اپنے آقا امریکہ کے
بنائِ ہوئی جنّت سے محروم کر دے گا اور امریکہ نے جو جہنّم بنائی ہے اس میں
پھینک دے گا کہ وہ لوہا ڈھالنے والی بٹھّی بھی ہو سکتی ہے گہرا اندھا کنواں
بھی ہوسکتا ہے اور جیل میں ڈال کر زندگی بھی جہنّم بنائی جاسکتی ہے اور اہل
و عیال کو عذاب میں ڈال کر بلیک میل کر کے امریکہ دجّال کا کلمہ بھی پڑھایا
جاسکتا ہے اپاہج بنا کر بازاروں میں بھکاریوں کے حوالے بھی کیا جاسکتا ہے
اب یہ باتیں سننے والے موسیٰ علیہ السلام کو تلاش کرتے پھریں گے کہ امریکہ
کے عذابوں سے بچیں کیسے اور کوئی مہدی بڑی کوشش کرے گا تو یہ مشورہ دے گا
کہ سعودیہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں آج سے جالیس سال پہلے مجھے اسی قسم کے
دانشور کہتے تھے کہ او مسلمانوں کے مہدی اب موقع ہے اپنی قوم کو لے کر کہیں
چلے جاو ورنہ ہم تمھیں بھاگنے بھی نہیں دیں گے تو میں نے کہا کیا مطلب آپ
کیا کہہ رہے ہیں تو ان دانشوروں نے کہا ہم تو دشمن ہیں ہم سے حل پوچھ رہے
ہو کہ ہم اپنے مال جان عزّت کو کیسے بچائیں ہم نے تو تم سے بات کرنے کی
کوشش کی ہے یہ سمجھ کر کہ جو نبی یا ولی جو بھی ہوتا ہے وہ پیدائشی ہوتا ہے
تم کو تو کسی بات کا پتّہ ہی نہیں ہے تب تو ہمارا کام اور بھی آسان ہو گیا
ہے اب ہم تمھیں پتا لگنے بھی نہیں دیں گے اور جن لوگوں نے تجھے تعلیم دینی
ہے ان کو بھی ہم اپنا غلام بنا لیں گے اب جو ٹیں ٹیں کرتے ہیں کہ ہمارے آخر
الزّماں تو پیدائشی سراپا معجزہ نبی ہیں صلی اللہ علیہ وسلم تو تیرے اگلے
پچھلوں باتیں تو ساری کی ساری فیل ہو گئی ہیں
سراپا معجزہ نبی ہیں صلی اللہ علیہ وسلم تو تیرے اگلے پچھلوں کی باتیں تو
ساری کی ساری فیل ہو گئی ہیں یہ کام ہم نے کیا ہے اب بتاو تم کیا کر سکتے
ہو ہماری سلوموشن کی اس یلغار کو کیسے روک سکتے ہو یہ باتیں ہیں وہ جس سے
پتا چلتا ہے کہ ہمارے مکر کا کوئی علاج نہیں ہے جیسے یوسف علیہ السلّام کو
عزیز مصر کی بیوی نے کئی سال تک جیل کی سزا کرائی تھی اور آخر کار جیت حاصل
کی اور پیغمبر سے ہی علاج کرایا اور دوبارہ جوانی حاصل کی اور ملکہ بنی اور
پیغمبر کی بیوی بنی اس بات کو بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ دوبارہ جوانی
نہیں پا سکی تھی تو اس بات کو کہنے والے کہتے ہیں کہ آج کے دور میں ہم ثابت
کر سکتے ہیں کہ90 سال کی بوڑھی عورت کو دوبارہ جوان بنا سکتے ہیں اتنی
ترقّی کر چکے ہیں تو آخر کار یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دجّال
کے شر سے پناہ مانگنی چاہیے اور جب تک جان میں جان ہے یہ کہنا چاہیے کہ تم
دجّال ہو یا اس کے کارندے ہو ہم تیرا انکار کرتے ہیں ہم اللہ پر ایمان
رکھتے ہیں ہمیں برائی کے راستے پر تم چلانا چاہتے ہو ہمارے دل سے ایمان ختم
کرنا چاہتے ہو تو وہ دجّال یا اس کے جادوگر انسان کو دوذخ میں پھینک دیں گے
جو حقیقت میں اللہ کی جنّت ہوگی اس کے فتنے کا کوئی حل نہیں سوائے اللہ کی
پناہ طلب کرنے سےاور اسلام پر استقامت اختیار کرنے کے اور جہاد کو جاری
رکھنے کے اور جہاد یہی ہوگا کہ اپنی طاقت کے مطابق اللہ کے دین کو غالب
کرنے کے لئے شدید جدّوجہد کرتے رہنا لیکن ان کے شر سے بچنا ناممکن کے قریب
محسوس ہوتا ہے
مگر جسے اللہ بچائے وہ یہ سمجھے کہ میں اسے بہت عذاب دے رہا ہوں مگر اللہ
پاک انسان کو تکلیف محسوس ہی نا ہونے دے جب اس دجّال کی اور اس کے ماننے
والوں کی بہت زیادہ کثرت ہو گی تو یہ ہی آپشن بچتی ہے کہ اس کی غلامی میں
رہ کر اللہ کے دین کو اختیار کیے رہنا اور استقامت اختیار کیے رہنا باقی
حسن نثار جیسے لوگوں کے بارے میں حسن ظن ہی رکھا جا سکتا ہے کہ یہ ایمان
اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہو جیسے فرعون کی حکمرانی کے دور میں ایک ایسے شخص
کا تذکرہ ہے جس نے آکر خبر دی کہ اے موسیٰ آپ کی جان کو خطرہ ہے یہاں سے
ہجرت کر جائیں تو یہ ساری باتیں مدنظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اشرافیہ
اور افسر شاہی ہی بے ایمان ہیں حقیقت میں ایمان والوں کی کثرت ہے یہ ایک
بلیک میلنگ کی سیاست ہے فرعونیت کی طرح دجّالیت اس میں اس بات کا بھی لحاظ
رکھنا چاہیے کہ حضرت امام مہدی کے لشکر میں شامل ہونے کے ق ابل ہو جائیں
اور دجّال کے خلاف جنگ لڑ سکیں یہ کوئی چھوٹی موٹی جنگ نہیں ہو گی بلکہ بہت
بڑی جنگ ہوگی جیسے فرعون کے جادو گروں کو موسیٰ علیہ السلام نے شکست دی اور
جادوگروں نے ایمان قبول کیا اور فرعون کی سخت سزائیں بھی ان کو ایمان سے
نہیں ہٹا سکیں اللہ نے سمندر میں ڈبو دیا فرعون اور اس کی افواج کو یا لشکر
کوایسا ہی حال دجّال کا ہوگا مگر مسلمانوں کو غلامی میں طویل عرصہ گزارنا
پڑے گا جیسا کہ صدیوں تک بنی اسرائیل نے فرعون کی غلامی کی اور اللہ نے
موسیٰ علیہ السلام کو نجات دہندہ بنا کر بھیجا معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ
السلام کے بعثت سے پہلے بھی اور اعلان نبوّت سے پہلے بھی ایمان والے موجود
تھے
اور جب موسیٰ علیہ السلام نے مدین میں بکریاں چارتے ہوئے وقت گزارا اور اس
وقت میں چند ایمان والے ہی تھے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ نے ان کو
نبوّت عطا فرما دی اور انہوں نے فرعون کے دربار میں جاکر دعوت کا سلسلہ
شروع کیا اور اس وقت یہی ان کا جہاد تھا کہ ہر وقت جان جانے کا خطرہ اور
پھر آخر کار اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے قوم سے نجات
دے دی اورفرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا اس طرح سے اللہ پاک ایمان
والوں کو کامیابیاں عطا فرماتا ہے ہمارے ملک میں انصاف کا معیار کیا یہ ہی
رہ گیا ہے کہ خود تو کرپشن کرتے ُحریں اور ظلم کرتے پھریں جب مسلمانوں کو
اللہ پاک ترقّی عطا کرے تو یہ کہنا شروع ہو جائیں کہ دہشت گردوں نے جہاد
فنڈ کے پیسے سے اپنی جائدادیں بنائی ہیں اور ان کی جائیدادوں کو چھننے کے
لئے ان کی طرف سے سیاست کی مہم چلا کر فورن ہی احتساب شروع کر دیا جائے اور
یہ من گھڑت روایات بیان کرنا شروع ہو جائیں کہ حضرت عمر نے مال غنیمت کی
جائدادیں اپس میں تقسیم کرنے کی بجائے مالکوں کو دے دیں ایسے ہی تاریخوں
میں بتایا جاتا ہے کہ نوح علیہ السلام کی کشتی بناتے ہوئے بھی غدّاروں اور
منافقوں نے یہی الزام لگایا تھا کہ تم تو کہتے تھے کہ ہمیں اجر نہیں چاہیے
اب یہ اتنا بڑا جہاز کہاں سے بنا لیا اس مین غریبوں کا حق ہے اور ایسی
باتیں کہتے کہتے پانی میں غرق ہو گئے آج کے دجّال کے وفادار بھی ایسے ہی
ہلاکتوں کا شکار ہیں سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی بیماریوں کی بھر مار اور بے
برکتی اور قرضہ جات اللہ کی حکمت سب پر بھاری ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب
اپنے گر کو بات آتی ہے تو سب جائز ہو جاتا ہے یہ نہیں دیکھتے کہ یہ زمین
اللہ کی ہے اور اللہ کے نیک بندے اس کی عبادت کرتے رہے ہیں اس کے دین کا
کام کرتے رہے ہیں اور خود وہ شیطان کے پیروکار رہے ہیں -
|