گزشتہ چند روز کی چیدہ چیدہ خبریں دیکھیں
تو اپنے راہنماﺅں کی سادگی پر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ یہ سادگی کی انتہاء
نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستان کے کم و بیش (اکا دکا چھوڑ کر) سارے ہی اور
مسلم امہ کے کچھ لیڈر اور کرتا دھرتا امریکی سفیروں کو اپنا سگا سمجھ کر ان
سے دل کی باتیں کہتے رہے، اللہ بھلا کرے وکی لیکس کا کہ انہوں نے وہ ہنڈیا
بیچ چوراہے میں پھوڑ دی، ایسی ایسی باتیں منظر عام پر آرہی ہیں کہ بس ”سنتا
جا شرماتا جا“ لیکن شرمانا بھی شرم والوں کے لئے رہ گیا ہے، جنہوں نے اپنی
اندرونی باتیں غیروں کے سامنے کیں اور ان سے مدد چاہی وہ اب بھی شرمانے سے
پرہیز ہی کررہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے“۔ اگر
وکی لیکس کے انکشافات سچ ہیں تو بڑا گھناﺅنا سچ ہیں اور اگر جھوٹ ہیں تو
کوئی ان کی تردید کیوں نہیں کرتا؟ محترم سپہ سالار اعظم سمیت سبھی اس حمام
میں ننگے ہیں، جب سبھی ننگے ہیں تو شرم کاہے کی؟
یہ تو جملہ معترضہ تھا، ہمارے لیڈروں کی سادگی کی کچھ اور بھی خبریں ہیں،
مثال کے طور پر ایک خبر آئی ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ(المشہور مشرفی مسلم
لیگ جس میں اب ماشاءاللہ پاکستان بھر سے تانگے کی سواریوں سے زیادہ ممبران
بن چکے ہیں اور تانگے کے ساتھ ایک گدھا گاڑی کا انتظام و انصرام بھی ضروری
ہوچکا ہے، صرف گدھا گاڑی کا، گدھے کا نہیں) نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف
، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری برائے وزیراعلیٰ کو لیگل نوٹسز بھجوا دئے ہیں کہ
”نواز شریف سے سات دن میں پنجاب ہاؤس خالی کرایا جائے اور اسے اب تک
استعمال کرنے پر اخراجات بھی وصول کئے جائیں۔ ترجمان آل پاکستان مسلم لیگ
کا کہنا ہے کہ پنجاب ہاؤس ٹیکس کے پیسوں سے تعمیر کیا گیا لیکن نواز شریف
نے اسے پارٹی کا سینٹرل سیکرٹریٹ بنا دیا، وہ سرکاری حیثیت رکھے بغیر
سرکاری مراعات لے رہے ہیں، جو قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے“۔ سچ بتائیں کہ
آل پاکستان مسلم لیگ کے نوٹس جاری کرنے پر آپ کا دل نہیں کرتا کہ ان کی
سادگی پر اپنی جان قربان کردی جائے، سچی بات ہے، میں ذاتی طور پر ایسا ہی
سمجھتا ہوں۔ میں پنجاب حکومت کی وکالت نہیں کر رہا، حقیقی بات یہی ہے کہ
ایسا نہیں ہونا چاہئے لیکن مشرفی لیگ کے ترجمان کے نوٹسوں پر کیا کہیں کہ
کہتے ہوئے زبان لرز جاتی ہے، کیا لکھیں کہ ہاتھ اور قلم اجازت نہیں دیتے،
کتنی جلدی ان لوگوں کو قانون یاد آگیا، نوٹس دینے شروع کردئے، اور خود جناب
پرویز مشرف کا حال کیا تھا کہ ایوان صدر کو سازشوں کی آماجگاہ اور مسلم لیگ
(ق) کا ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا تھا، جہاں نیب یافتہ وزراء کی بھرتی کا
بازار گرم کیا جاتا تھا، دن کو بندے خریدے جاتے تھے اور راتوں کو امریکہ کو
بیچے جاتے تھے، دن کی روشنی میں کوئی اور گل کھلتے تھے اور راتوں کے
اندھیرے میں ”کلیوں“ کو مسلا جاتا تھا، کیا کچھ نہیں ہوتا تھا ایوان صدر
میں اور تو اور اس وقت قانون کہاں تھا، کیوں یاد نہ تھا جب افتخار حسین
چودھری لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا اور برسر عام دکانداری ہوا کرتی
تھی، وکلاء تحریک کے دوران سرگرم وکلاء کی گرفتاریوں کی لسٹیں کس کے دفتر
میں تیار ہوتی تھیں، وہ دفتر ہائی کورٹ سے زیادہ فاصلے پر تو نہیں تھا، یہ
وہی جگہ تھی جہاں سے جب ریلی گزرتی تھی تو ہر وکیل اس طرف منہ کر کے کوئی
نہ کوئی نعرہ ضرور بلند کرتا تھا، وکلاء کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ
خصوصاً میڈیا والے سب جانتے ہیں، انہیں ”یاد ہے وہ ذرا ذرا“ گناہ گار کو
پتھر وہ مارے جس کا اپنا دامن اسی بلکہ اس سے زیادہ بڑے گناہ سے داغدار نہ
ہو! کیا فرماتے ہیں ”مولانا“ فواد چودھری بیچ اس مسئلے کے؟
ایک اور سادہ خبر یہ ہے کہ کھٹے میٹھے وزیراعلیٰ پنجاب نے سرکاری اور نیم
سرکاری دفاتر میں چینی اور میٹھی اشیاء کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے،
یار لوگ سوچیں گے کہ اس میں ”سادگی“والی کیا بات ہے ، دیکھیں جی! اپنے وزیر
خوراک اور وزیر اطلاعات پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ چینی کا استعمال عیاشی کے
زمرہ میں آتا ہے اور عوام کو چینی ترک کر کے عیاشی سے توبہ کرلینی چاہئے،
اب اگر عوام اپنے گھروں میں چینی استعمال نہ کریں، سرکاری و نیم سرکاری
دفاتر میں چینی پر پابندی ہے تو اتنی شوگر ملوں کا کرنا کیا ہے؟ بے شمار
رقبے پر جو گنا کاشت کر رکھا ہے اس کا کیا کریں؟ ویسے بھی ڈاکٹر کہتے ہیں
کہ چینی بالکل نہ استعمال کرنے سے دماغ ٹھیک کام نہیں کرتا کیونکہ دماغ کے
لئے ”شوگر“ انتہائی ضروری ہے، تو کیا مرکزی و صوبائی حکومتوں نے یہ تہیہ کر
رکھا ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران و ملازمین کے دماغوں کو بھی
ناکارہ کرنا ہے، اگر سکیم یہی ہے کہ گنے کی کاشت بھی بند، شوگر ملیں بھی
بند اور اہلیان وطن کے دماغ بھی تو پھر ٹھیک ہے اور اگر سکیم یہ نہیں تو یہ
سادگی نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک طرف ”وکی لیکس“ کا شور و غوغہ ہے اور دوسری
طرف ”پھکی ٹی“ کے منصوبے! سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے افسران و ملازمین
آپس میں کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے سابقہ احکامات پر کتنا عملدرآمد ہوا ہے
جو اس طرح کے احکامات کی پرواہ کریں، آجکل تو موسم ٹھنڈا ہے لیکن کیا پوری
قوم نہیں جانتی کہ بجلی کی بچت کے پروگرام کا سب سے زیادہ حشر نشر کہاں کیا
جاتا ہے؟ کیا ”صاحب“ کے آنے سے کئی گھنٹے پہلے دفاتر کے اور ”صاحب“ کی
روانگی سے بہت دیر پہلے گاڑیوں کے اے سی نہیں چلائے جاتے تھے، کیا سرکاری
گاڑیوں اور دیگر چیزوں کا استعمال باپ کا مال سمجھ کر نہیں کیا جاتا؟ کیا
سرکاری افسران و عمال شادیوں پر ون ڈش کے قانون کی سرعام دھجیاں نہیں
اڑاتے؟آج تک ایسے کس قانون اور حکم پر عمل ہوا ہے؟ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کی
انتہا درجے کی سادگی نہیں تو اور کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کو پکڑنے اور
پینتیس چالیس روپے لاگت والی چینی کی سو روپے سے زیادہ قیمت پر فروخت کو
روکنے کی بجائے اس طرح کے عجیب و غریب احکامات صادر فرما رہے ہیں، اب چینی
کے استعمال کو چیک کرنے کے لئے چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی جو
سرکاری دفاتر میں چھاپے مارا کریں گی کہ چائے میں چینی تو نہیں ڈالی جاتی،
شائد ایسے احکامات آجائیں کہ ہر دفتر میں بلکہ ہر کمرے میں چھاپہ مار ٹیم
کا ایک بندہ ہر وقت موجود رہے گا جو چائے کو چیک کر کے پینے کی اجازت دیا
کرے گا!
ایک اور خبر ملاحظہ فرمالیں کہ بھارتی ہیکرز کے سائبر حملوں کے خلاف
پاکستان نے انٹرپول سے رابطہ کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے، واہ واہ! ایسے
فیصلوں اور ان فیصلوں کو صادر کرنے والوں اور ان کے پیچھے مشیروں کے صدقے
واری جانے پر دل کرتا ہے، ارے بھائی آپ نے تو اپنے سارے آئی ٹی ایکسپرٹ غیر
ممالک میں ”ایکسپورٹ“ کردئے ہوئے ہیں، اگر انہیں مراعات دی جائیں، مراعات
نہ سہی ان کا جائز حق ہی دے دیا جائے تو وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر کیوں
جائیں، اور اگر آئی ٹی کا پاکستانی ٹیلنٹ پاکستان میں ہی موجود ہو تو وہ
اپنی سرکاری ویب سائٹس کا دفاع کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں، اب حالت یہ ہے
کہ بجائے پالیسی میں مثبت تبدیلی کے انٹرپول جانے کا فیصلہ، بین الاقوامی
وکلاء فرموں کے خرچے، آنیاں جانیاں، اور نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی دھات کے دو
پات! چند دن بعد پوری قوم بھول جائے گی اور اللہ اللہ خیر صلا! مستقبل میں
جواب ہوا کرے گا کہ اگر امریکہ بہادر کی سرکاری سائٹس ہیک ہوسکتی ہیں،
سرکاری کیبلز ”لیک“ ہوسکتی ہیں تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں....!
سچ بتائیں اتنی زیادہ سادہ حکومت، اتنے زیادہ سادے حکمران اور اتنے زیادہ
سادہ عوام کسی اور ملک میں پائے جاتے ہیں....؟ |