شاعر مشرق علا مہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ شاعری، فکر و فلسفہ ،
تاریخ ، فلسفہ خودی، تصور پاکستان اور مسلمانوں میں جذبہ ملی بیدار کرنے
میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ویسے تو ہر ایک کا اپنا پنا مقام و مرتبہ ہے
لیکن اقبالؔ کا جو رتبہ اور مقام ہے وہ سب سے جدا واعلیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے
کہ جو بات اقبالؔ کی ہے ، جو مقام اقبال ؔ کو حاصل ہے آج تک اس تک کوئی نہ
پہنچ سکا، گویا کوئی اور اقبالؔ جیسا تاحال پیدا نہیں ہوا۔مستقبل کا حال
انسان کو نہیں معلوم وہ اللہ ہی بہترجانتا ہے۔ اقبال ؔ نے زندگی کے ہر شعبے
کو اپنا موضوع بنایا ۔ اقبال ؔ نے از خود کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو
شاعرنہیں سمجھا البتہ اپنے نقطہ نظر کے اظہار کے لیے نظم کا طریقہ اختیار
کر لیا۔ اقبالؔ کی انکساری اور عاجزی ہے ورنہ تواقبالؔ شاعر ہے عظیم۔ جس
طرح غالبؔ اپنی شاعری میں یکتا ہے تو اقبالؔ کی شاعری میں بھی نُدرَت ہے ،
کمال ہے ،سوز ہے ، عمدگی ہے، انوکھا پن ہے۔ اقبالؔ نے اپنی شاعری کے توسط
سے اپنے خیالات و افکار کا اظہار جس خوبصورتی اور اچھوتے انداز سے کیا ہے
اس کی مثال نہیں ملتی۔ بلا شبہ غالبؔ اور اقبال ؔ اپنے عہد کے عظیم شاعر
ہیں ، انہیں جو عزت و عظمت علم و ادب میں حاصل ہوئی وہ مثالی ہے۔ دونوں
شاعروں پر بہت کچھ لکھا گیا ، لکھا جارہا ہے،ان پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے
اور ہمیشہ جاری رہے گا ۔ یہاں بات اقبالؔ کی کرنا مقصود ہے اور وہ بھی ایک
منفرد کتاب کے حوالے سے جو دسمبر 2016ء میں شائع ہوئی پر اس کا اجراء
یاتعارف حال ہی میں کراچی میں ہوا ۔ کتاب کا عنوان ہے ’’ دَر برگِ لالہ و
گل(کلام اقبال میں مطالعۂ نبات)‘‘ ، یہ پہلی جلد ہے ، کتاب کے مصنف افضل
رضویؔ ہیں، جو ہیں تو لاہوری پر مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے آسٹریلیا میں
جابسے ہیں۔گویا اب آسٹریلیا ان کا وطن ثانی ہے لیکن انہیں اپنے وطن اول
یعنی پاکستان سے بھی اتنی ہی محبت ہے ، ساتھ ہی وہ اقبالؔ سے بھی عَقیِدَت
و ارادت رکھتے ہیں، اقبالؔ کی شاعری کے عاشق ہیں، عقیدت مند ہیں، اقبال
شناسی ان کا خاص شعبہ تحقیق ہے۔ کتاب کی اشاعت کے محرک بقائی میڈیکل
یونیورسٹی کے ڈائریکٹر مطبوعات ، پریس اور تعلقاتِ عامہ سید محمد ناصر علی
ہیں۔بقائی یونیورسٹی نے میڈیکل کے علاوہ بھی دیگر موضوعات جس میں اردو ادب
بھی شامل ہے پر کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے جو ایک قابل تحسین امر
ہے۔ اس کتاب سے قبل بھی میں بقائی یونیورسٹی کے شعبہ مطبوعات کی شائع کردہ
محمود عزیز کی تصنیف ’ذکر کچھ دِلی والوں کا‘پر اظہار خیال کرچکا ہوں۔
ڈائریکٹر مطبوعات قبلہ سید محمد ناصر علی اور قبلہ محمود عزیز صاحب کی
فرمائش کہ میں افضل رضوی صاحب کی اس تصنیف پر کچھ لکھوں، حالانکہ میرا نہ
تو یہ مقام ہے، نہ مرتبہ ، نہ ہی اقبالؔ پر اتنا مطالعہ اور وژن بھی نہیں
کہ میں اس کتاب پر اظہار خیال کرسکوں لیکن میرے دونوں محترم میرے لیے قابل
احترام ہیں۔ ڈرتے ڈرتے ہاں کردی۔ تقریب اجراء میں بھی شریک ہوا۔ اس طرح اس
کتاب کے بارے میں کئی اہل علم کے خیالات و نظریات جاننے کا موقع ملا اس سے
بڑھ کر یہ کہ میں نے اقبال ؔ کے ایک عقیدت مند او ر اس کتاب کے خالق افضل
رضوی ؔ کو قریب سے دیکھا اور انہیں سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔اقبالؔ کے
حوالے سے کتاب کا عنوان انفرادیت لیے ہوئے ہے۔ یعنی اقبالؔ کی شاعری میں
نباتات کا مطالعہ۔ بقول مصنف ’’ علامہ اقبال کی شخصیت نے کئی حوالوں سے
اپنے آپ کو منوایا اور ان کے فن کو مانا گیا۔ اس کی کئی جہتیں، کئی تہیں،
کئی رنگ، کئی سا ز اور کئی آوازیں ہیں ۔ یہ قدرت کی کرشمہ سازی ہے ، نعمت
خدا وندی ، جو اقبالؔ کو اقبال کر گئی ورنہ بقول اقبالؔ
اقبالؔ بھی ا قبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے
کلامِ اقبالؔ میں نباتات، جمادات، موسیقی و صورت گری اور علم نباتات کے
بیان کی خوبصورتی اقبالؔ کے ان اشعار سے صاف عیاں ہے
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقد احکامِ الٰہی کا ہے پابند
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علمِ بناتات
آگے بڑھنے سے پہلے کتاب کے مصنف کا کچھ تعارف ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ افضل
رضوی ماہر تعلیم اور فدائے اقبال ہیں۔ لاہور شہر کے باسی ہیں ، سڈنی چلے
گئے اور میکائری یونیورسٹی اور پھر ایڈیلیڈ یونیورسٹی آسٹریلیا سے ایجوکیشن
میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ سائنس میں نباتات ان کا موضوع ہے لیکن علامہ
اقبالؔ کی سوچ و فکر اور فلسفہ ان کا خاص میدانِ تحقیق ہے۔ انہوں نے اقبال
کے علاوہ بھی کئی شاعروں اور ادیبوں پر مقالات تحریر کیے۔ افضل رضوی نے ’
دَر برگِ لالہ و گل‘میں کلام اقبالؔ میں شامل تذکرہ نباتات کو موضوع تحریر
بنایا ہے۔ بلا شبہ یہ ایک منفرد تحقیق ہے، ذکر نبایات اور ان کے ماخذ کے
ساتھ افادیت اور استعمال پر روشنی ڈالی ہے۔ افضل رضوی صاحب کی جنم بھومی
پاکستان کا شہر لاہور ہے اور اقبال ؔ بھی اسی شہر میں آرام فرما ہیں۔
گورنمنٹ کالج لاہور ، پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، کہتے ہیں کہ
انہیں بچپن ہی سے لکھنے لکھانے اور تحقیق کا شوق تھا،1988ء سے علامہ اقبالؒ
پر مقالات لکھنے اور پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا، 1993ء سے2001ء تک انہوں نے
اپنے قیامِ دوحہ ، قطر میں کئی ادبی مجالس کا اہتمام کیا اور کئی شاعروں
اور ادیبوں جن میں احسان دانش، جوش ملیح آبادی، ن م راشد، سعادت حسن منٹو ،
حمید نظامی ، استاد دامنؔ ، احمد ندیم قاسمی اور ساغر صدیقی پر تحقیقی
مقالات تحریر کیے۔ ان کی نظر تاریخ پر گہری ہے، وہ2001ء سے آسٹریلیا کے شہر
ایڈیلیڈ میں سکونت پزیر ہیں اور محکمہ تعلیم میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مقالات کے علاوہ ’دَر برگِ لالہ و گل ‘ ان کی اولین تصنیف ہے ۔ ان کا ایک
مجموعہ مضامین بعنوان ’عبدالقادر پر ایک طائرانہ نظر‘ زیر طباعت ہے۔
کتاب کی اشاعت کا بنیادی پتھر بقائی یونیورسٹی کے روح رواں اور چانسلر
پروفیسر ڈاکٹر فریدالدین بقائی کی حیات میں رکھ دیا گیا تھا، انہوں نے کتاب
کا مسودہ دیکھا اور اشاعت کی منظوری دی، ڈاکٹر فرید الدین بقائی نے
10جولائی 2017ء کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ کتاب کا اولین صفحہ ’’اظہار
خیال‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کا لکھا ہوا اور دستخط شدہ ہے۔ ڈاکٹر
بقائی مرحوم نے اپنے اظہاریے میں لکھا ’حال ہی میں آر ایم افضل رضویؔ ،
مقیم آسٹریلیا نے اقبالؔ کے حوالے سے جو کام کیا اور کتاب ترتیب دی ہے وہ
ہر پہلو سے منفرد ہے۔ اس کا سرنامہ’’ دَر برگِ لالہ و گل‘‘ ہی چونکا دینے
والا ہے۔ ہم سب اقبال کو شاعر ہی نہیں بہت بلند پایہ شاعر تسلیم کرتے ہیں
مگر محترم رضویؔ صاحب نے جس طرح نباتات جیسے سائنسی موضوع کے حوالے سے
اقبال کو تلاش کیا ہے اس پر غالبؔ کا یہ مصرعہ ثبت ہوتا ہے۔
ع ........ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
اقبالؔ کی فکر ، فلسفہ اور شاعری کے ہر ہر پہلو پر مضامین اور تحقیق ہو ئی
اورہو رہی ہے ۔ تحقیق کا یہ عمل یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔ کلام اقبالؔ
میں نباتات کا انتخاب ایک منفرد تحقیق ہے اور مصنف کے ایک سائنسداں ہوتے
ہوئے ادب دانی،ادب شناسی ظاہر کرتی ہے۔ مصنف سائنس کے موضوع نباتات کے ساتھ
ساتھ اقبال ؔ شنا سی میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں اقبالؔ کا پرستار ہونا
یقینی ہے
ایک نکتہ بیان میں جس کے صدیوں کا سفرہے
اقبالؔ نے وہ راز اک مصرعے میں سکھایا ہے مجھے
خوبصورت و حسین اشیاء خواہ وہ پھول، کلیاں، پتے، لہلہاتے کھیت، سبزہ زار،
چاند کی چاندنی، سورچ کی کرنیں ہوں یا اس کے ڈوبنے کا حسین منظرہو، ستاروں
کی جھلملاہٹ ہو یا چاند کی چاندنی کی روشنی ، قدرت کا حسین منظر، کشمیر کے
حسین نظاروں کا لطف اٹھانے، اس کا اظہار کرنے کی خواہش اقبال ؔ کے دل میں
بہت عرصہ رہی، آخر انہوں نے اپنے اس مقصد کو ممکن بنایا اور کشمیر گئے۔ ا س
بات کا ذکر اقبال کے خطوط میں ملتا ہے کہ وہ کس طرح کشمیر کے حسین نظاروں
کا لطف اٹھانے کے لیے بے چین و مضطرب تھے۔ ان کا یہ خواب پورا ہوا ، انہوں
نے کشمیر کا سفر کیا اور اس کا ذکر ان کی نظموں میں ملتا ہے۔اقبالؔ نے
کشمیر کو اس کی خوبصورتی اور حسن کو زمین پربہشت قرار دیا ہے۔ کون سی ایسی
شہ ہے جس کا ذکر اقبالؔ کے کلام میں نہ ملتا ہو، بقول پروفیسر سحرؔ انصاری
اقبال کے کلام میں ساٹھ سے زیادہ جانوروں کا ذکر ملتا ہے۔ کتاب کے مصنف
افضل رضوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقبالؔ پر اس تحقیق میں اپنی زندگی کے دس
برس لگائے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ کتاب آپ کی ملکیت ہے اسے پڑھیے
اگر میرا قلم کہیں بہک گیا ہے تو مجھے بتائیں میں آئندہ اس کی تصیح کر لوں
گا‘۔ یہ بات انہوں نے کتاب کی تقریب اجراء میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے
کی۔ یہ اچھی بات ہے مصنف میں عاجزی اور انکساری ظاہر کرتی ہے۔ افضل صاحب
دیکھنے اور گفتگو سے سادہ سے انسان لگے ، جیسا کہ ایک ادیب و محقق کو ہونا
چاہیے۔ حقیقی محقق وہی ہوتا ہے جو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کے لیے
ایسے موضوع کا انتخاب کرے جس میں باریکی ہو، انفرادیت ہو، حسن ہو، چاہے بات
پہلے کہی جاچکی ہو لیکن اسے نئے اسلوب کے ساتھ، نئے ذاویے کے ساتھ، نئے لب
و لہجے کے ساتھ، گہرائی اور گیرائی میں جاکر حقائق کو پیش کیا جائے۔ افضل
رضویؔ صاحب کی اس تحقیق میں یہی کچھ ہے۔ اقبالؔ کا یہ کلام بے شمار مجموعوں
میں بکھرا ہوا ہے، لوگ پڑھتے بھی ہیں، مثالیں بھی دیتے لیکن پودے کے بیج سے
ٹہنیوں، پتیوں، کلیوں، پھولوں، جڑی بوٹیوں، اشجار اور اجناس غرض نباتات کے
حسن کو اپنے اشعار میں ڈھالنے کے فن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنانا ایک
محارت اور عرق ریزی کا کام ہے۔
کتاب کے ابتدائی صفحات میں متعدد اہل علم کی رائے درج ہے۔ان میں پروفیسر
ڈاکٹر سید نعیم الحسن نقوی، ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صدیقی، سید محمد ناصر علی،
محمود عزیز، پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد، محمد ممتاز راشد شامل ہیں۔ سید محمد
ناصر علی صاحب جو صحافت کی اعلیٰ ڈگری سے آراستہ اور بقائی میڈیکل
یونیورسٹی کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ و مطبوعات بھی ہیں نے اپنے اظہاریے میں
لکھا ’’دربرگِ لالہ و گل ایک تحقیقی مقالہ ہے ۔کلام اقبال ؔ میں نباتات کا
ذکر کیوں؟ رضویؔ صاحب نے ان بناتات کے خواص کے ذکرکے ساتھ کلام اقبالؔ کی
تشریح بیان کی ہے۔ انہوں نے کلام اقبال ؒ میں ذکر نباتات اور ان کے مأخذ
بھی تلاش کیے ہیں‘۔ محمود عزیز صاحب نے کتاب کے امتیازی پہلوؤں کو اپنی
تحریر میں اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ رضوی صاحب نے
کلام اقبال اُن کے خطبات مکتوبات اور ان کے فکر و فن پر اہم لٹریچر کو پڑھا
ہے اور اس بے پناہ محنت سے حاصل ہونے والی بصیرت کی روشنی میں کلامِ اقبال
کی تشریح و توضیح کر کے فکرِ اقبال کو قارئین تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی
ہے‘۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمیٰن صدیقی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس کتاب سے ایک طرف
علامہ کی شعر ہمہ دانی کا ایک بے مثال پہلوسامنے آتا ہے ، دوسری طرف کتاب
کے مصنف جناب افضل رضویؔ کی سخن فہمی کی صلاحیت اوراقبال شناسی کی بصیرت
بھی اجاگر ہوتی ہے‘۔ پروفیسرڈاکٹر جمیل احمد کا اظہاریہ ’قابلِ مطالعہ
کتاب‘ کے عنوان سے ہے جس میں انہوں نے افضل رضوی کی اس تحقیق کے تین پہلو
بیان کیے ہیں’’ ایک علامہ اقبال کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ، اقبالؔ کی
معنویت اور مقصدیت کواُجاگر کرنا۔ دوم علامہ اقبالؔ کے کلام میں نباتات کا
تذکرہ، اس کی تلاش پھراس کی نباتاتی سائنس کا اطلاق اور سائنسی و ادبی
باہمی ربط ایسے پہلو ہیں جو مصنف کی تحقیقی قابلیت اور نباتاتی سائنس پر
عبور کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔ تیسرا پہلو یہ کہ مصنف نے علامہ کی شاعری
اور بالخصوص اس کے نباتاتی پہلو کو عام فہم زبان میں تمام ضروری سائنسی
پہلوؤں کے ساتھ احاطہ کیا ہے‘‘۔
کتاب کے متن کی تشریح اور وضاحت اگر کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ
مصنف نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؔ کی شاعری، خطبات اور مکتوبات جن میں
نباتات کے حوالے سے کچھ بھی کہا گیا تھاا س کا تفصیلی مطالعہ کیا، وہ تمام
اشعار جن میں اقبال نے کسی بھی نباتات کا استعمال کیا تھا انہیں یکجا کیا،
پھر تمام اشعار کو نباتات کے متعلقہ عنوانات کے تحت تقسیم کیا ، کسی بھی
اہل علم شاعر یا فلسفی یا حکمران یا کسی مقام کے ذکر کو تاریخی تفصیل کو
حاشیہ میں درج کیا گیا، علامہ کے مکاتیب جو سید مظفر حسین برنی نے مرتب کیے
ان میں نباتات کے ذکر کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا علاوہ ازیں ہر عنوان کے
تحت آنے والے اشعار کی وضاحت کے ساتھ ساتھ تشریح بھی کی گئی ہے۔اقبال کی
شاعری میں نباتات کے علاوہ جمادات جیسے پانی، ہوا ، آگ ، موتی، گوہر، الماس
، زمرد، یاقوت، لعل اور دیگر قیمتی پتھروں کا ذکر بھی ملتا ہے، مصنف نے ان
کی تفصیل بھی بیان کی ، جمادات کے علاوہ حیوانات کا تذکرہ بھی اقبال کی
شاعری میں ملتا ہے۔ اس حوالے سے مصنف نے 60جانوروں کی فہرست مرتب کی جن کا
ذکر اقبالؔ کے اشعار میں ملتا ہے۔اقبال کے حوالے سے مصنف آئندہ جمادات اور
حیوانات کو اپنا موضوع بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ نباتات تو اصل موضوع ہے
اس کتاب کا۔ مصنف کا کہناہے کہ علامہؒ نے سو (100)سے زائد مختلف الا نواع
پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں، اشجار اور اجناس کو اپنے اشعار کی زینت بنایا
ہے۔ ان میں ارغوان، انگور، انار، انجیر، ببول، باغ، بوستان؍ چمن؍ گلستان؍
خیابان؍گلشن؍ریاض، لالہ ، گل؍پھول، بید، برگ؍پتا، چنار، دانہ، گندم، پیپل،
گھاس، گل رعنا، بوٹا، ؍پودا، پھل؍ثمر، پیپل ، تاک، تنکا، تخم، رطب، ریحانم
جھاڑی، بیج؍جڑ،چنبیلی،چوب، چھلکا؍فشر، حشیش، حنا، خنظل، خار؍کانٹا، خربوزہ،
خرما، خرمن، خس و خاشاک، خوشہ، درخت؍شجر، رائی، فصل، زیتون، زعفران، سبزہ،
سپند، بیری؍ سدرہ، سرو، سمن؍یاسمین، سنبل، سندل، سوسن، شاخ، شعیر؍جو،
صنوبر، طبرخوں ؍عناب، عود، غنچہ؍کلی، نارنج، کھجور، نخل، کنول، کھیت،
کوکنار، گلاب، پان، پتی، لیموں، میووہ، نبات، بوٹا، پلاس، ٹہنی؍ڈالی،
سپاری؍چھالیا، گردگاں، نسرین، نرگس، نسترن، یاسمین شامل ہیں۔ان تمام نباتات
کا استعمال اقبالؔ نے اپنے کلام میں انتہائی خوبصورتی، مہارت ،عمدہ طریقے
سے کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اقبالؔ ایک مفکر، شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر
نباتات بھی تھے، لیکن یہی صورت حال کلام اقبال ؔ میں جمادات اور حیوانات کے
شاعرانہ استعمال کی بھی ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب افضل صاحب اپنی
تحقیق میں کلام اقبالؔ میں جمادات اور حیوانات کا مطالعہ پیش کریں گے۔
یوں تو اوپر بیان کردہ نباتات کو اقبال ؔ کے اشعار میں اور اس نبات کی
خاصیت الگ الگ بیان کی ہے ۔ یہاں ایک مثال ’گندم ‘کی شامل کی جارہی ہے تا
کہ مصنف کے انداز کا پتا چل سکے۔ ’گندم‘ کے عنوان سے مصنف نے لکھا ’’تاریخ
انسانی پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گندم اتنا ہی قدیم
پھل ہے‘ جتنا کہ خود انسان یا شاید اس سے بھی قدیم۔غالباً یہ پہلا غلہ ہے
جو انسان نے اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد کاشت کیا، اسے شجرِ ممنوعہ بھی
کہا جاتا ہے ۔ اسی جگہ حاشیے میں گندم کی خاصیت، اس کا استعمال، اس کی
ربیعی اور خریفی اقسام، اس کی کاشت کے طریقے، اس کے بھوسے کا استعمال کہ وہ
جانوروں کے کھانے کے کام آتا ہے، گندم پیدا کرنے والے ممالک کے نام اور
پاکستان میں اس کی کاشت کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ گندم کے بارے میں قرآن
میں کیا کہا گیا اس کا بیان ہے ۔ حوالے بھی نیچے اسی صفحہ پر درج کیے گئے
ہیں۔ شیطان کے حضرت آدم ؑ کو اس پھل کو کھانے پر اکسانے کا بیان، حضرت آدم
ؑ کا جنت سے نکالے جانے کا بیان ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبالؔ نے گندم کو
اپنے جن اشعار میں ڈھالا ہے انہیں بیان کیا گیا
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
اقبال نے اس دنیا کو جہاںِ گندم و جَو کہا دیکھئے ان کا یہ شعر
پنپ سکا نہ خیاباں میں لالۂ ول سوز
کہ ساز گار نہیں یہ جہانِ گندم و جو
اقبال ؔ کایہ شعر تو ضرب المثل ہے اکثر مقررین و سیاست داں اپنی تقریوں میں
عوام کے جذبات ابھارنے کی غرض سے اسے ذوق و شوق سے پڑھتے دکھائی دیتے ہیں
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
گفت اے گندم نمائے جو فروش
از تو شیخ و برہمن ملت فروش !
حصولِ جاہ و عزت وفا داری کا مقصدہو
وہ جنس ناروا گندم نہیں، گندم نما جو ہے
اقبال ؔ کے چنداشعار مختلف نباتات کے ناموں کے استعمال کے ساتھ
انگور
دنیا میں پیچ و تاب ہے شرطِ ثمر کہ تاک
کھا کھا کے پیچ صاحبِ انگور ہوگیا
افیوں
تبعِ مشرق کے لیے موزوں یہی افیونتھی
ورنہ ’قوالی‘ سے کچھ تر نہیں ’علمِ کلام !
اناراور پیپل
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
انجیر
بر سماںِ راست ہر کس چیر نیست !
طعمۂ ہر مرغ کے انجیر نیست !
ببول
اسی کے بیاباں ، اسی کے ببول
اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھول
باغ
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے ، تشنۂ مضراب ہے ساز
لالہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لالہٰ الا اللہ !
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہووہ شبنم!
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
گل
علم کے حیرت کدے میں کہا اس کی نمود
گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود!
’درَبرگِ لالہ و گل ‘ افضل رضویؔ کی ایسی تصنیف ہے جسے اقبالؔ شناسی کے
حوالے سے ایک مبسوط و جامع تصنیف کہا جاسکتا ہے اور اقبال ؔ پر یہ ایک
منفرد ، پرکشش ،قابل ستایش کاوش ہے جس سے مصنف کی سخن فہمی اوراقبال شناسی
کی بصیرت بھی اجاگر ہوتی ہے جس کے لیے مصنف و ناشر قابل مبارک باد ہیں۔ بڑے
سائز میں427صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمیت650 روپے ہے ۔ یہ کتاب کراچی میں
فضلی بک سپر مارکیٹ اور لاہور میں کتاب سرائے پر دستاب ہے۔ اقبال ؔ کے
عاشقوں ، اقبالؔ شناسوں ، علم و ادب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے عمدہ کتاب
جسے ہر لائبریری کی زینت بھی ہونا چاہیے۔
|