آزاد کشمیر کی آئینی ترامیم کے حوالے سے گزشتہ دنوں وزیر
اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ایک علی سطحی اجلاس میں اس بات
کا '' گرین سگنل'' دیا گیا کہ کشمیر کونسل کو ختم کرتے ہوئے 52موضواعات سے
متعلق اختیارات بھی آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کر دیئے جائیں گے۔اجلاس میں
وفاقی وزیر امور کشمیر،وزیر قانون و انصاف پرنسپل سیکرٹری وزیر اعظم
پاکستان، وفاقی سیکرٹری پاور،وفاقی سیکرٹری آبی وسائل،سیکرٹری فنانس،چیئر
مین این ایچ اے،جائنٹ سیکرٹری واپڈا،سیکرٹری کشمیر افیئرز و کونسل جبکہ
آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان
،وزیرصحت و فنانس ڈاکٹر نجیب نقی،چیف سیکرٹری،ایڈ یشنل چیف سیکرٹری جنرل
،ایڈ یشنل چیف سیکرٹری ترقیات اور فنانس سیکرٹری شریک ہوئے۔اجلاس میں آزاد
کشمیر حکومت کو با اختیار کرنے کے حوالے سے کشمیر کونسل کو ختم کرنے کی راہ
میں مزاحمت بھی نظر آئی تاہم وزیر اعظم پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری کی طرف
سے یہ بات واضح کئے جانے کے بعد کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف
کشمیر و گلگت بلتستان کونسل کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے، یہ مزاحمت
ختم ہو گئی۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا کہ نواز شریف کے فیصلے
کے مطابق کشمیر،گلگت بلتستان کونسل کو ختم کیا جائے گا۔
آزاد کشمیر کے عبوری آئین1974میں آزاد کشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل میں
اختیارات کی تقسیم کے موضوعات کا تصور وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات
کے موضوعات کی تقسیم سے لیا گیا تھا۔آئین پاکستان میں یہ اصول وضع کیا گیا
ہے کہ ریاستی نظام چلانے کا اختیار منتخب نمائندوں کو حاصل ہو گا ۔جبکہ
کشمیر کونسل جو بنائی گئی،اس میں وزیر اعظم پاکستان سمیت زیادہ تر ممبران
کو آزاد کشمیر کے عوام نے منتخب نہیں کیا ہوتا اور نہ ہی کونسل وفاقی حکومت
، پارلیمنٹ یا آزاد کشمیرکے سامنے جوابدہ ہے ۔ٹیکس کی رقوم کے اخراجات میں
کونسل کسی کے سامنے جوابدہ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی طریقہ کار وضع
ہے۔کونسل انکم ٹیکس کے پیسے سے آزاد کشمیر اور مہاجرین مقیم پاکستان کے
علاقوں میں ترقیاتی پروگرام تو چلاتے ہیں لیکن کونسل کا یہ اختیار آئین و
قانون میں مندرج نہیں ہے کہ ترقیاتی کام کونسل کرائے گی۔
پانچ سال پہلے تک ریاست کشمیر کے باشندے کونسل میں بھرتی ہوسکتے تھے لیکن
انہیں بھرتی نہیں کیا جاتا تھا۔پانچ سال قبل کونسل نے یہ قانون بنا دیا کہ
کشمیر کے باشندے کشمیر کونسل یا ماتحت اداروں میں بھرتی نہیں ہو
سکتے۔پاکستان و آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں کونسل و
کشمیر افیئرز کے وفاقی سیکرٹری احتشام خان کے وقت کونسل کا یہ قانون بنایا
گیا کہ کشمیر کے باشندے کونسل یا اس کے ماتحت اداروں میں بھرتی نہیں ہو
سکتے۔اس پر آزاد کشمیر کے ایک وکیل(کے ڈی خان) کی رٹ پر ہائیکورٹ نے یہ
قرار دیا کہ کشمیر کونسل آئینی طور پر آزاد کشمیر کا ادارہ ہے اور اس میں
کشمیر کے سٹیٹ سنجیکٹ کی ملازمت پر عائید پابندی ناجائز ہے اور یہ کہ کونسل
ان رولز کو ختم کرے۔کونسل نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جس
پر سپریم کورٹ نے بھی ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ لیکن اس کے باوجود
کونسل نے اس متعلق اپنا ضابطہ برقرار رکھا اور اسے آزاد کشمیر کی اعلی
عدلیہ کے فیصلے کے باوجود ختم نہیں کیا۔یہاں یہ بیان کرنا بھی اہم ہے کہ
کشمیر کونسل کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات کسی بھی وفاقی ادارے سے بھی
زیادہ ہیں۔کسی وفاقی ادارے کے ملازمین کی اتنی زیادہ تنخواہیں اور مراعات
نہیں ہیں جن سے کونسل کے ملازمین مستفید ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ کونسل
ملازمین کو مختلف 'انشیٹیو' اور پیکجز' بھی دیئے جاتے ہیں۔
وصول کی گئی ٹیکس رقوم کا 80فیصد جو کونسل نے آزاد کشمیر حکومت کو دینا
ہوتا ہے ، وہ باقاعدگی سے نہیں دیئے جاتے اور یہی پیسہ روک کر کونسل کے
ترقیاتی پروگرام چلائے جاتے ہیں۔وصول ٹیکس کا 80فیصد پیسہ آزاد کشمیر حکومت
کو نہ دیئے جانے ، روک لئے جانے پر آزاد کشمیر حکومت کو بنکوں سے سود پر
'اوور ڈرافٹ''لینا پڑتا ہے جس سے آزاد کشمیر حکومت کے ذمہ بنکوں کا قرضہ''
شیطان کی آنت'' کی طرح بڑہتا ہی رہتا ہے۔آزاد کشمیر میں کام کرنے والی
موبائل کمپنیوں کے اربوں روپے کونسل کے پاس ہی جمع ہیں۔یہ پیسہ بھی کونسل
آزاد کشمیر حکومت کو نہیں دیتی اور نہ ہی آزاد کشمیر میں'آئی ٹی' کی ترویج
و ترقی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔کونسل کی طرف سے ٹیکس خود وصول کرنے میں
اربوں روپے کی چوری ہوتی ہے اور کونسل کبھی اس کا حساب کتاب بھی نہیں
دیتی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ٹیکس کے پیسے کے حوالے سے سالانہ 5-6ارب
روپے کی چوری ہوتی ہے۔کونسل کے یونیورسل فنڈ میں موبائل کمپنیوں کے اربوں
روپے جمع ہیں لیکن کونسل کی طرف سے آزاد کشمیر میں'آئی ٹی' کے شعبے کی
بہتری اور پسماندہ علاقوں میں 'آئی ٹی' کو فروغ دینے پر کونسل کی طرف سے
کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کی
کوئی معاونت کی جاتی ہے۔سینٹ اور قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹیوں کی طرف سے
طلب کئے جانے پر کونسل کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے کونسل سے
نہیں پوچھا جا سکتا کیونکہ کونسل پاکستان کے آئین کے نہیں بلکہ آزاد کشمیر
کے آئین کے تحت کام کر رہی ہے ۔اور جب آزاد کشمیر حکومت کونسل سے پوچھتی ہے
تو وہاں کونسل وفاقی حکومت بن جاتی ہے۔ اس طرح کشمیر کونسل نے اپنی ایک الگ
سلطنت بنا ئی ہوئی ہے۔
یوں کشمیر کونسل کے خاتمے سے آزاد کشمیر حکومت کو انتظامی امور میں فیصلے
اور تعیناتیوں کے اختیار کے علاوہ اپنے وسائل پر مالیاتی اختیار بھی حاصل
ہو جائے گا اور اس سے آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار اور ذمہ دار بنانے میں
بنیادی مدد ملے گی۔کونسل کے خاتمے سے ٹیکس سے متعلق کونسل کے ملازمین آزاد
کشمیر کے محکمہ ٹیکس سے ہی منسلک ہو جائیں گے اور کونسل کے سیکرٹریٹ
ملازمین کو بھی آزاد کشمیر حکومت اپنی ذمہ داری کے طور پر لے لے گی۔یہ امر
بھی اہم ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار اور ذمہ دار بنانے سے آزاد
کشمیر حکومت کو باوقار بنانے کی ذمہ داری خود آزاد کشمیر حکومت پر عائید ہو
جائے گی۔
یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی منظوری کے بعد تقریبا ایک
مہینے تک کونسل کو ختم کرنے کے فیصلے پر کاروائی شروع ہو جائے گی ۔میری
رائے میں کونسل کے خاتمے اور آزاد کشمیر حکومت کو مالیاتی اور انتظامی طور
پربا اختیار بنانے میں تین طرح کے عناصر مخالفانہ انداز رکھتے ہیں اور اس
عمل کو تعطل میں ڈال سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے بعض اپوزیشن رہنما کونسل کے
خاتمے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آزاد کشمیر میں
پیپلز پارٹی حکومت کے آخری دنوں میں وفاقی وزیر امور کشمیر منظور وٹو نے
آئینی ترامیم بارے آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا اجلاس
طلب کیا تھا۔اس وقت مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے صدر اور پیپلز پارٹی کے
درمیان شدید مخالفت جاری تھی لیکن راجہ فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر کے
حقوق اور کشمیر کاز کے وسیع تر مفاد میں سیاسی مخالفت کو پس پشت ڈالتے ہوئے
وزیر امور کشمیر کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ آج پیپلز پارٹی کے اپوزیشن
لیڈرچودھری یاسین مخالفت برائے مخالفت کی منفی سیاست میں مبتلا ہوتے ہوئے
آزاد کشمیر حکومت کو بااختیاراور ذمہ دار بنانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے
کی کوشش کر رہے ہیں۔آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعتیں جانتی ہیں کہ اگر
52موضوعات کے اختیارات آزاد کشمیر حکومت کو منتقل ہو گئے تو راجہ فاروق
حیدر خان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے تو لکھا ہی جائے گا ،ساتھ ہی کئی
اپوزیشن رہنمائوں کی سیاست شدید خطرات سے بھی دوچار ہو جائے گی۔آزاد کشمیر
کے اپوزیشن رہنما آزاد کشمیر کے خطے کے حقوق کوبدستور مغلوب رکھنے کی کوشش
کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے خطے اور کشمیر کاز کے وسیع تر مفادات کو ناقابل
تلافی نقصانات پہنچانے کے درپے ہیں۔آزاد کشمیر کے غیر جانبدار اور سنجیدہ
حلقے بھی اپوزیشن رہنمائوں کے اس منفی طرز عمل کو ناپسندیدگی کی نظر سے
دیکھ رہے ہیں۔ |