عمران خان کرکٹ کے میدان میں جتنا اچھا اور تیز باولر تھا
ٗ اتنا ہی تیز اور طرار سیاسی میدان میں مقرر کی شکل میں ابھرکر سامنے آیا
ہے ۔اس نے جس بے باکی سے شریف برادران کا تعاقب کیا اور حکومت میں ہونے کے
باوجود انہیں پریشان کیے رکھا ۔وہ یقینا اپنی جگہ معرکہ آراء بات ہے ۔ دور
حاضر کی سیاست میں بہت تبدیلی واقع ہوچکی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو ٗ عمران
خان سے کہیں زیادہ اچھی تقریر کرلیتے تھے بلکہ مجمع کو ہاتھ میں لینے کا فن
عمران سے کہیں زیادہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور سندھ میں بھٹو کو واضح
اکثریت ملی ۔ عمران خان بھی شاید خود کو بھٹو تصور کرکے بڑے بڑے جلسے کرنے
کے عادی ہوچکے ہیں ۔ بڑی تعدادمیں لوگ انکے جلسوں میں پہنچتے ہیں تو اچھے
خاصے انسان کا دماغ خراب ہوجاتاہے ۔ عمران خان کے ساتھ بھی شاید یہی معاملہ
ہوا ہے ۔ وہ ذہنی طور پرخود کو مستقبل کا وزیر اعظم تصور کرنے لگے ہیں لیکن
جب سیاسی میدان میں ان کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے تو وہ صفر دکھائی دیتے
ہیں ان کی جیب میں کوئی بھی ایسا عوامی منصوبہ نہیں ہے ٗ جسے وہ عوام کو
دکھاکر عوام سے ووٹ مانگ سکیں اس لیے وہ ہر جلسے میں شریف برادران کے خلاف
زہر اگلتے اور نفرت آمیز باتیں کہتے نظر آتے ہیں ۔ باتوں اور تقریروں سے
پیٹ نہیں بھرتے ۔لوگ کارکردگی دیکھتے ہیں ۔ مرکز میں نواز شریف نے جس قدر
تیزی سے عوامی دلچسپی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل پہنچا اس سے کہیں زیادہ
مستعدی میاں شہباز شریف نے دکھائی۔ سیلاب کی آفت ہو یا زلزلے کی تباہ
کاریاں ٗ شہباز شریف عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ کہیں ٹریفک کا بدترین رش
کو ختم کرنے کے لیے سنگل فری اور کشادہ سڑکوں کی تعمیر کررہے ہیں تو کہیں
فلائی اوور اور انڈرپاسز پر کام چل رہا ہے ۔ میٹرو بس سسٹم ان کے کریڈٹ میں
سب سے زیادہ اضافہ کرتی ہے اب تمام تر مخالفتوں کے باوجود اورنج ٹرین کو
چلانے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں ۔ اگر یہ منصوبہ الیکشن سے پہلے پایہ
تکمیل تک پہنچ گیاتو پنجاب میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا یقینا صفایا
ہوجائے گا ۔ وہی لاہور جو چوہدری پرویز الہی کے دور میں مسائل کاگڑھ بن چکا
تھا اسی لاہور کو دیکھنے کے لیے آج پاکستان بھر سے لوگ جوق در جوق چلے آتے
ہیں ۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے میں مدد گار ثابت ہوتی
ہے ۔ لودھراں الیکشن سے پہلے عمران خان سمیت جہانگیر ترین بااعتماد تھے ان
کا دعوی تھاکہ پہلے سے زیادہ لیڈ کے ساتھ ہم جیتیں گے لیکن جب نتیجہ اس کے
برعکس آیا تو عمران خان سمیت سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔غیر
جانبدار تجزیہ نگار کے مطابق اس کامیابی کے پیچھے شہبازشریف کا ہاتھ ہے جو
24 ار ب کی لاگت سے لودھراں خانیوال تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔لودھراں اور
بہاولپور کے مابین میٹروبس سروس سے مقامی لوگ بہت خوش ہیں۔لودھراں ٗکہروڑ
پکار وڈ کو دو رویہ کرنے کا کام بھی شروع ہوچکا ہے ۔بہاؤالدین زکریا
یونیورسٹی کا لودھراں میں کمپیس اس علاقے کی اعلی تعلیمی ضرورتوں کو پورا
کرنے کے لیے کا فی ہے ۔ یہ وہ منصوبے ہیں جن کا فائدہ براہ راست عوام کو
حاصل ہورہا ہے ۔جبکہ جہانگیر ترین کا عوام سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔
سابقہ الیکشن میں عوام سے جو وعدے کیے تھے جہانگیر ترین نے وہ بھی پورے
نہیں کیے وہ صرف عمران خاں کے محل بنی گالہ تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ ایسے ہی
رویوں کا انتقام ووٹروں نے جہانگیر ترین کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کرکے
لیا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ لودھراں کے الیکشن میں ہونے والی
شکست نے عمران خان کے ارادوں پر کسی حد تک اوس ڈال دی ہے ۔چکوال کی شکست کے
زخم ابھی نہیں بھرے تھے کہ لودھراں کی شکست نے بھی بے حال کردیا ۔ لودھراں
کے الیکشن میں سب سے زیادہ مایوس کن صورت حال کا سامنا پیپلز پارٹی کو کرنا
پڑا ۔ آصف علی زرداری تو پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے پرعزم تھے ۔ بدترین
شکست نے عمران خان کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے خواب چکنا چور کردیئے ہیں ۔
عمران خان اور پیپلز پارٹی والے اس شکست کی جو چاہیں وجوہات بتائیں ۔حقیقت
یہی ہے کہ عوام اب تک مسلم لیگ ن کو دل و جان سے پیار کرتے ہیں اور ان کی
عملی کارکردگی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ووٹ بھی دیتے ہیں ۔ سب سے اہم
کارنامہ جو مسلم لیگ ن انجام دیا ہے وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہے ۔کبھی
وہ وقت بھی تھا پاکستان کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے پہچانا جاتاتھا
لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ صبح سے رات گئے تک سب کو بجلی بلا تعطل مل رہی
ہے ۔ فیکٹریاں کارخانے اور کاروبار چل رہے ہیں عوام بھی مطمئن اور کاروباری
ادارے بھی خوش۔ یہی وہ تبدیلی ہے جس کی بناپر عوام مسلم لیگ ن کو ووٹ دیتے
ہیں۔اگر 2018ء کے الیکشن میں بھی ووٹروں کا یہی رجحان رہا تو مسلم لیگ ن کو
دو تہائی اکثریت ( جس کا تقاضا نواز شریف نے پشاور کے جلسہ عام کے دوران
کیا تھا ) مل سکتی ہے ۔اگر عمران خان سیاست میں خود کو زندہ رکھنا چاہتے
ہیں تو انہیں حتجاجی سیاست کو خیر باد کہہ کر خیبر پختوانخواہ حکومت پر
توجہ دینی ہوگی ۔اب وقت اتنا کم رہ گیا ہے کہ کوئی بھی شروع کیاجانے والا
منصوبہ پایہ تکمیل کونہیں پہنچ سکتا ۔ عمران خاں جس بلین ٹری منصوبے کا بہت
چرچا کرتے تھے اس منصوبے میں بھی کرپشن کی کئی کہانی جنم لے چکی ہیں ۔قصہ
مختصر یہ یہ ہے کہ شریف برادران کے خلاف اچھی اور جوشیلی تقریر یں کرلینے
سے ووٹ نہیں ملتے ٗ عوام کارکردگی دیکھتے ہیں اور کارکردگی کے اعتبار سے
تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بری طرح ناکام اور نامراد ہوچکی ہے ۔ |