بےسمت سفر

جانے بے سمت سفر کی اخیر کب ہوگی؟ بھاگ بھاگ ہلکان ہولیے مگر منزل ہے کہ ابھی تک نظر سے اوجھل۔ہم کیا کرنا چاہتے ہیں طے نہیں ہوپارہا۔کہاں جانا ہے سوجھ نہیں پایا۔کیسے جاناہے اس کا بھی اندازہ نہیں۔بس چل پڑے ہیں۔بنا سوچے۔بنا کچھ طے کیے۔اور بنا کچھ ٹھانے۔بے ارادی یہ بھاگ دوڑ جانے کہاں پہنچائے گی۔ہماری اجتماعی بے قراری جانے کیا رنگ دکھائے گی۔جب کوئی سمت نہ ہوتو بھلا سفر کے انجام کاکیسے معلوم ہوگا؟ ادارے ایک دوسرے سے مزاحم ہیں۔اداروں کے اندرونی حالت بھی قابل فخر نہیں۔بجائے یہ قوم کے افراد کی نمائندگی کررہے ہیں۔ان کی ترجیح اجتماعی مفاد کی بجائے حاضر موقع قیادت بن چکی۔ہر آنے والا اداروں کو خالہ جی کا گھر سمجھ کر چلاتاہے۔اس کے جانے کے بعد اس کا نظام تمام ہوا۔نیا آنے والا اپنا طریقہ لے آیا۔ اچھے کی امید کی بھی جائے تو کیوں کر؟ آج ادارے کا مزاج کچھ اور ہے۔کل کچھ اور تھا۔کل جو پہچان ادارے کے تھی۔آج بدل چکی۔آج کے مجرم کل کو سادھ قرار پائیں تو حیرت نہ ہوگی۔تب نظام عدل کا مزاج بدل سکتاہے۔آج کے شرفا۔کل کے نظام عدل سے بے ایمان قراردے دیے جائیں۔یہ امکان بھی موجودہے۔بے سمت سفر جار ی ہے۔تکان تو بلا کی ہے۔مگر سفرختم ہوتا نظرنہیں آرہا۔

نیب کے تیور بنارہے ہیں کہ شریف فیملی کے لیے جو گڑھا کھدوایا گیا تھا۔اسے بھرنے کا وقت آچکا۔کچھ ایسے حالات وواقعات ہوئے ہیں۔جن سے اس طرح کے امکانات بنیں۔ آنے والے دنوں میں کچھ بڑا ہونے کی باتیں کی جارہی ہیں۔جس طرح یکا یکی نیب کی طرف سے سابق وزیراعظم ان کی بیٹی اور داماد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا خط وزارت داخلہ کو لکھا گیا۔یہ خط آنے والے دنوں کی ہلکی سی جھلک دکھا گیا۔بعدمیں جب نیب کورٹ کی طر ف سے تنیوں ملزمان کو دو ہفتے کی رخصت سے انکا رکردیا گیا تو یہ اس بات کا ثبوت تھاکہ نیب نے روز روز کی اس ٹینشن سے نجات کا فیصلہ کرلیاہے۔ اگلے کچھ دنوں میں وہ اپنی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے جارہی ہے۔جو پچھلے کئی مہینوں سے اس کے لیے وبال جان بنی رہی۔حاضری سے رخصت کی درخواست کا یہ کہہ کر مستر دکردینا کہ کیس اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔اس مرحلے پر ملزما ن کو وطن سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔بذات خو د آنے والے دنوں کا منظر نامہ بیان کررہا ہے۔شریف فیملی اوران کے مخالفین جس خوفناک تصادم سے کتراتے رہے تھے۔اس تصادم کا وقت آن پہنچا۔دونوں طرف سے معجزہ ہوجانے کے جو اندازے لگائے جارہے تھے۔پورے نہیں ہوسکے۔ایک دوسرے کے پیچھے ہٹنے کے انتظار نے آج کا دن دکھایا ہے۔نوازشریف واحد لیڈرہیں جو اس ستر سالہ غلیظ سسٹم کی اصلاح کے لیے کھڑے ہوئے۔اہل جمہورکے مہمان اداکاروں میں سے پہلی بار کسی نے سنجیدگی دکھائی۔آیا۔کھایا پیااور چل دیے کی بجائے پہلی بار کوئی جمہوری قیادت بہت کچھ کرنے کے موڈمیں ہے۔ایسا پہلی بار ہورہاہے۔اس پہلی بار کے اس تجربے سے میاں صاحب کو دھیمی رفتار کی مجبوری ہے۔وہ رزلٹ بھی چاہتے ہیں۔اور بڑے لیول کی افراتفری سے بھی بچنا چاہ رہے ہیں۔دھیما چلتے۔بلا کی برداشت کا مظاہرہ کرتے وہ اس انتظا رمیں تھے کہ کب دوسری طر ف والے ہوش کے ناخن لیں۔مگر بات بنتی نظر نہیں آرہی۔دوسری طرف سے بھی کچھ ایسی ہی مجبوریاں تھیں۔ نوازشریف ضرورت سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔رائج الوقت قانون ان کے مخالفین کو کھل کھیلنے سے باز رکھ رہا ہے۔ایک کمزور فیصلے کے تحت نااہل تو کیا گیا۔مگر عوام کے بڑے بڑے ہجوم اس بات کا ثبوت ہیں کہ نوازشریف کمزور نہیں ہوئے۔ان سے شکست کا اعلان کروانے والے ناکام رہے ہیں۔مخالفین کے لیے نوازشریف غیرمعمولی طور پر ہمت والے ثابت ہوئے۔دونوں طرف سے انتظار بسیار کے بعد اب انتہائی اقدام کا فیصلہ ہواہے۔سابق وزیر اعظم جس طر ح شہر شہر جاکر ہزاروں سامعین کو یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ستر سال سے ہورہا ہے۔اب نہیں ہونے دیں گے تو سمجھ لیجیے کہ نوازشریف کسی بھی سطح تک جانے کو تیارہیں۔دوسری طرف جب جب نیب کی طرف سے عدم رخصت کی اجازت نہ دی جائے بلکہ سابق وزیر اعظم کا نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کی فرمائش کی جائے تو ادھر سے بھی انتہائی اقدام کے لیے فیصلہ کرلیا جانے کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

سابق وزیر اعظم اگر اگلے ایک دو ہفتوں میں جیل بھجوادیے جاتاہیں تو حیر ت نہ ہوگی۔نیب کی طر ف سے اس کے اشارے مل رہے ہیں۔مگر یہ بھی نظر آرہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو زیادہ دیر تک جیل میں نہیں رکھا جاسکے گا۔نیب کے پاس سوائے جے آئی ٹی رپورٹ کے سوا کچھ نیا نہیں۔اس کی تحقیقاتی ٹیموں کی مختلف ممالک سے منہ لٹکائے واپسی نے اسے جے آئی ٹی کے کوزے کوکھنگالنے پراکسایا۔جے آئی ٹی پورٹ سپر یم کورٹ اپنے شہرہ آفاق اقامہ فیصلہ کے ذریعے کھنگال چکی۔اگر اس رپورٹ میں کچھ ہوتا تو نوازشریف کو کسی بڑے جرم میں سزاسنائی جاتی نہ کہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کا جرم بیان کرناپڑتا۔نیب کی طر ف سے ا س جے آئی ٹی کی رپورٹ کو لے کر کوئی بڑا جرم ثابت کرنا مشکل ہوگا۔اس کی دی گئی سزائیں اتنی ہی کمزور ہونگی۔جتنا اقامہ فیصلہ۔ اگلی کوئی بھی عدالت اس طرح کے فیصلے کالعدم قراردینے میں زیادہ وقت نہ لے گی۔آج کے نااہل وزیر اعظم کل کو اہل قرارپاجائیں گے۔ پہلے بھی ایسا ہوتاآیا ہے۔ کل بھی ایساکچھ ہوسکتاہے۔ہمارے ہاں اداروں کی کسی شخص کو کبھی چور اور کبھی سادھ بنادینے کی اس بے مت پالیسی نے منزل سے دور کررکھاہے۔اصل چور بچ رہے ہیں۔اور سادھ ذلیل ہورہے ہیں۔یہ بے سمت پالیسی نوازشریف ختم کرنا چاہ رہے ہیں بے سمت سفر کی تکان تو بڑھ رہی ہے۔مگر سفر کا
اختتام نہیں ہورہا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123941 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.