دہلی ایجنڈے پر عمل پیرا حسینہ واجد

ان دنوں بھارتی اور بنگلہ دیشی حکومتیں 1971ء کی ’’انڈین میڈ لبریشن وار‘‘ کے حوالے سے مختلف پروجیکٹس پر باہمی اشتراک سے کام کررہی ہیں ۔

گزشتہ دنوں بھارتی نجی ٹی وی چینل ’’سونی‘‘ کی تیار کردہ 8منٹ اور 30سیکنڈ کی ایک ویڈیو اختراع کی گئی ہے۔ جنگی جنونی مودی سرکار اس ویڈیو کی خوب خوب تشہیر کررہی ہے۔ اس ویڈیو میں 1971ء میں ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل نیازی کو بھارتی فوج کے ایک جنرل جے ایف آر جیکب سے گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جے ایف آر جیکب انتہائی متکبرانہ اور تحکمانہ لہجے میں یہ راز طشت ازبام کررہا ہے کہ بنگلہ دیش میں 1971ء کے فسادات سے قبل ہی اندرا گاندھی حکومت نے مشرقی بنگال کے شہریوں کے دل و دماغ کی دھرتی میں پاکستان دشمن اور پاکستان مخالف نظریات و تصورات کی تخم پاشی کا عمل شروع کردیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ عمل 1967ء سے جاری تھا۔ اسی دوران اگرتلہ سازش تیار کی گئی جس کا مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن تھا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد تسلیم کرچکی ہیں کہ 1965ء کی جنگ کے فوری بعد میں نے اور میرے باپ شیخ مجیب الرحمن نے لندن میں بھارتی حکام اور افواج کے سینئر ترین افسران سے کئی ملاقاتیں کیں۔ ظاہر ہے کہ ان ملاقاتوں کا مقصد متحدہ پاکستان کی شکست و ریخت اور ریزہ کاری تھا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم اور شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد 52برسوں سے بھارتی ایجنسیوں اور حکومتوں کی ایجنٹ کاکردار ادا کررہی ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدار مبصرین اسی تناظر میں حسینہ واجد کو ڈھاکہ میں نئی دہلی کی وائسرائے قرار دیتے ہیں۔اولین مرحلہ پر دونوں حکومتوں نے بنگلہ دیش میں ایک عجائب گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے جہاں جنگی دستاویزات کو محفوظ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مشرقی بنگال میں پاکستانی افواج کے ہاتھوں ریشہ دوانیوں میں سرگرم مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی یاد گار بھی تعمیر کرنے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مزید براں نفرت انگیز اور مبنی برخانہ ساز داستانوں پر مشتمل ڈاکو مینٹری اور فیچر فلموں کی تیاری کا مذموم عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔ اس پلان کو بھی بھارتی اور بنگلہ دیشی حکومتیں تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہیں جس کے تحت ایسی ڈاک ٹکٹوں کا اجراء کیا جائے گا جس میں پاکستانی فوج کے ہتھیار پھینکنے کے مناظر مصور ہوں۔ اسی پر اکتفا نہیں کہ بنگلہ دیش میں بچوں کو مسخ شدہ اور تبدیل شدہ ایک ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جس میں بنگلہ دیشی بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جا رہی ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی 16دسمبر 1971ء نے 1952ء کی لسانی تحریک کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ 1971ء کے جدوجہد جو 25مارچ 1971ء کے آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘ سے شروع ہو ئی تھی انجام کار پلٹن میدان میں 16دستمبر 1971ء کو پایہ تکمیل تک پہنچی۔ علاوہ ازیں عوامی لیگ کی حکومت نے سی ایس ایس کے امتحانات میں 100 نمبر کا ایک لازمی پرچہ نام نہاد ’’آزادی کی جنگ کی تاریخ ‘‘ کے حوالے سے بھی تیار کیا ہے۔ ان تمام مذموم عزائم کا ہدف بنگلہ دیش کی نوجوان نسل کے اذہان کو پاکستان دشمنی کے زہر سے آلودہ کرنا ہے۔ یہ امر قابل ذکر حد تک دلچسپ ہے کہ بنگلہ دیشی معاشرے کی ایک بڑی اکثریت آج بھی بھارت مخالف جذبات رکھتی ہے چونکہ پاکستان کی جانب سے کوئی جوابی بیانیہ تیار نہیں کیا گیا، اس کے باوجود بھارت مخالف جذبات کو پروان چڑھانے کا نفسیاتی جنگ کا یہ حربہ کسی حد تک کارگر ہو رہا ہے۔ مئی 2014ء میں انتہا پسند ہندوؤں کے ووٹوں کے بل بوتے پر منتخب ہو کر دہلی کے راج سنگھاسن پر براجمان ہونے والے نریندر مودی بنگلہ دیش میں راکھ کے نیچے سلگنے والی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل رنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ان کی سرکار کا اب واحد ایجنڈا یہی دکھائی دیتا ہے کہ جس طرح بن پڑے بنگلہ دیش کے ہر شہری کو اسی طرح پاکستان مخالف بنا دیا جائے جس طرح ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے انتہاء پسند اور بنیاد پرست متعصب ہندو کارکن ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی نئی نسل کو سیوک سنگھی سوچ کا حامل بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک ایسی ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد جماعت کے سربراہ ہیں، مسلم دشمنی، اسلام بیزاری اور پاکستان کی مخالفت جس کے دستور اور انتخابی منشور کی اساس ہے۔ یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ مودی کے ہاتھ بھارتی ریاست گجرات کے ہزاروں بے گناہ، نہتے اور معصوم مسلمانوں کے خون سے تر ہیں۔ مذہبی رواداری انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ اگر بنگلہ دیشی وزیر اعظم رواداری پر یقین رکھتی ہیں تو انہیں مودی سرکار کے ساتھ اپنے مشترکہ پاکستان مخالف منصوبوں پر نظرثانی کرنا چاہئے۔

’’بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اور بھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ ملکرلڑی تب ہی بنگلہ دیش کو آزادی نصیب ہوئی‘‘۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے برملا اور سینہ ٹھونک کر اِس کا بھی اعتراف کیا کہ وہ 1971میں مکتی باہنی کی حمایت میں ستیہ گرہ تحریک میں بطور نوجوان رضاکارشرکت کے لئے دہلی آئے تھے۔ نریندر مودی کی طرف سے 1971 کے سقوط ڈھاکہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے اعتراف نے اسکی پاکستان دشمنی کو پورئے طریقے سے ننگا کردیا ہے۔دہشتگرد نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران چار مرتبہ پاکستان کا نام لیا اور دہشتگردی کے حوالہ سے بے بنیاد الزام تراشیاں کیں۔سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش میں آج بھی پچیس فیصد سے زیادہ آبادی ہندوؤں کی ہے ان ہندوؤں میں سے اکثریت آج بھی بھارت کی وفادار ہے، پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے مسلم قومیت کے بجائے بنگالی قومیت کا نعرہ بلند کیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کے ذ ریعے مشرقی پاکستان کو علیدہ کرنے کی سازشیں تیز کردیں۔ 1966 میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں شیخ مجیب نے چھ نکات پیش کیے۔ پندرہ اگست 1975جو بھارت کی آزادی کا دن ہے مجیب الرحمان اپنے پورے خاندان کے ساتھ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ وہی فوجی تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔ میر جعفر کے خاندان سے تعلق رکھنے والے غدار مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد اپنے باپ سے زیادہ بھارت کی وفادار ہے اور پاکستان سے اپنی نفرت کو کھلے عام ظاہر کرتی ہے۔ حسینہ واجد جو بھارت کی وفاداری میں میرجعفر کا روپ دھار کراپنے ہی لوگوں کو پھانسی چڑھارہی ہے اور پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتی چاہے وہ کرکٹ کا میچ ہی کیوں نہ ہو، اقتدارمیں آنے کے بعد سے حسینہ واجد پاکستان دشمنی میں پیش پیش ہے۔

Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 39106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.