گلگت بلتستان میں موسم بہار کی شجرکاری کا آغاز ہوگیا
لیکن سیاسی قیادت اور سیاست کے شوقین اب تک شجر کاری کے اصول کو سمجھ نہیں
سکے ہیں۔ شجرکاری کا سادہ اور آسان اصول ہے کہ اس کو زمین میں لگانے کے بعد
اس کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے پانی دیناہوتا ہے ، ہوا اور روشنی کی مناسب
مقدار کا انتظام کرنا ہوتا ہے ۔ روز روز جاکے اس پودے یا درخت کو جڑوں سے
اٹھاکر دیکھا نہیں جاتا کہ اس کی جڑیں اب کتنی گہری ہوگئی ہیں۔ مطالبات کی
بنیاد پر چلنے والی اس مقامی سیاست نے علاقے کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے
اور رونا روتے ہیں کشمیر کے سیاستدانوں اور وفاق کے بے رخی کا ۔ جس کے مقدر
میں رونا ہو اور جس کو رونے کا شوق ہو اس کی ہنسی سے بھی آنسو ٹوٹ پڑتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے سیاستدانوں اور سیاسی قیادت نے ہمارا اور اس خطہ بینظیر کا
بھی یہ حال کررکھ دیا ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان میں آئینی اور انتظامی سطح پر
اصلاحات کی اشد ضرورت ہے لیکن اس ضرورت کو مطالبات کی بنیاد پر ڈیڑھ انچ کی
مسجد بنایا جائے یا پھر ناممکنات کا مطالبہ کرکے ’رونے‘ جیسی صورت اختیا ر
کرلیں تو اس کا کم از کم علاقے کو فائدہ نہیں ہے البتہ کسی کی سیاست خوب
چمک سکتی ہے اور کسی کو مفادات حاصل ہوسکتے ہیں۔ اگر پاکستان کے سیاسی منظر
نامے کی بنیاد پر ایک نظر دیکھا جائے تو آئینی ترامیم کے بعد سب سے زیادہ
اصلاحاتی پیکیجز گلگت بلتستان کو ملے ہیں ۔ آئین پاکستان تو کبھی گھر کی
لونڈی بنتا ہے تو کبھی جنگل کا شیر بنتا ہے ۔ کبھی بیٹے سے تنخواہ وصول نہ
کرنے پر منتخب وزیراعظم کو عوام کے درمیان پھینکتا ہے ، کبھی منتخب
وزیراعظم کو عدالت میں 30سیکنڈز کی انوکھی سزاسناتا ہے تو کبھی ایک کاغذ کی
حیثیت پاکر ردی ٹوکری کی نذر ہوتا ہے ۔ لیکن گلگت بلتستان میں نسبتاً دیگر
صوبوں اور علاقوں سے زیادہ اصلاحات متعارف کرائے گئے ہیں۔ 2009میں صدارتی
حکم نامے کی روشنی میں دئے گئے نئے نظام میں گوکہ خامیاں موجود ہونگی لیکن
اس کو رول بیک کرنے کی کوششیں یا سازشیں اس علاقے کے ساتھ مذاق ہے ۔ مذاق
صرف وہ نہیں ہوتا جو گلیوں میں لہو بہاتا ہے مذاق وہ بھی ہوتا ہے جو کسی
علاقے کے زہنی نشونما اور سیاسی پرورش کو متاثر کرتا ہے ۔ سڑکوں میں لہو
بہنے کا مذاق تو دیرپا نہیں ہوتا جسے اس علاقے نے مشاہدہ بھی کیا لیکن اس
دیرپا سراسر مذاق کا کیا حل نکالے جو زہنی نشوونما اور سیاسی پرورش پر کاری
وار کررہا ہے ۔ یہ کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ علاقے کا سپوت ہوکر آگے بڑھو
، اس مذاق میں گنجائش ہی نہیں کہ کسی فرد کی اخلاقی حمایت کی جاسکے ۔
گورننس آرڈر 2009پاکستان پیپلزپارٹی کا گلگت بلتستان کے ساتھ ہمدردی کا ایک
ثبوت ہے لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے جس کے تحت نیا سیاسی
و انتظامی نظام متعارف کرایا گیا ۔ اس آرڈننس کو ہم نے روز اول سے گملے سے
اتاراتار کر دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ اس کی جڑیں کتنی مضبوط ہورہی ہیں اور
جڑیں زمین میں کتنی گھس گئی ہیں۔ برطانیہ کے نامور حکمران ونٹسن چرچل نے
کیا خوب کہا تھا کہ اگر کسی علاقے میں جمہوری نظام خراب یا ناکام ہوجائے تو
اس کا واحد اور اکلوتا حل مزید جمہوریت ہے ۔ صوبائی حیثیت کو دیکھے ہوئے
گلگت بلتستا ن کو صرف 9سال ہوگئے ہیں ان 9سالوں میں یقینا سیاسی شعور میں
اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ لیکن اب تک اس نظام کو مکمل طور پر سمجھا نہیں
جاسکا ہے اس نظام کے تحت ابھی مقامی حکومت تک کا سفر تو طے ہونا ہے ۔
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت آئین پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں واضح ہے کہ
یہ متنازعہ علاقہ ہے ۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
متنازعہ نظام کو ئی مفلوج طریقہ کار نہیں ہوتا اس میں بھی سیاسی و سماجی
جدوجہد کی گنجائش موجود ہوتی ہے اس وقت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جو اس
قسم کی صورتحال سے دوچارہیں لیکن ان علاقوں کا دنیا بھر میں نام ہے ان کی
ثقافت ، تہذیب اور پرودکشن اپنے ہاتھوں میں ہے ۔ عالمگیریت کے اثرات سے خود
کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ہے ۔عالمی فورمز اور عالمی مسائل تک ان کی
نظر ہے اور ان کے حل کے لئے کوشاں ہیں لیکن گلگت بلتستان میں جیسے متنازعہ
نظام گالی قرار دیاجارہا ہے ۔ گلگت بلتستان میں جن اصلاحات کی ضرورت ہے وہ
کوئی سیاسی جماعت حل کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی صورت سامنے لاسکتی ہے ۔ اس کے
لئے مقامی سطح پر غیر سیاسی جماعت اور تحقیق کاروں کی ضرورت ہے جو یہ سمجھا
سکے کہ گلگت بلتستان میں ضرورت کی بنیاد پر ان اصلاحات کو متعارف کرایا
جائے ۔ گلگت بلتستان کے سیاسی سیٹ اپ کے حوالے سے وفاقی جماعتیں بذات خود
کسی ایک پیج پر نہیں ہیں ۔ حکمران جماعت کے بعض اراکین جب اس مسئلے پر
گفتگو کرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ کوئی حاکم نہیں بلکہ حزب اختلاف کے
ممبران ہیں اور ان کا یہ موقف حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے ۔
جبکہ گلگت بلتستان میں وفاقی اپوزیشن جماعت کا حال اس سے بھی برا ہے ۔ ان
کے سامنے گویا گلگت بلتستان متنازعہ ہی نہیں ہے ان کی تحریک کا محور بحیثیت
متنازعہ علاقے کی زمینوں کی ملکیت کا حصول ہے اور اس نعرے کی بنیاد پر عوام
میں بھرپور پذیرائی اور مقبولیت حاصل کررہی ہے دوسری جانب آئے روز بدلتے
ہوئے موقف سامنے آرہے ہیں۔ سیاسی دباؤ کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے کہ حزب
اختلاف میں رہ کر حکمرانوں کو پریشان کردیں لیکن کچھ اصول بھی تو ہونے
چاہئے کچھ حقائق کو تسلیم بھی تو کئے جانے چاہئے کہ یہ علاقہ آئینی صورتحال
میں کہاں پر کھڑا ہے ۔مذہبی و سیاسی پارٹیوں کی اس صورتحال کو اگر اس موضوع
کو بالفاظ دیگر بیان کیا جاسکے تو ’محب وطن پاکستانی ‘ ہونے کا پول کھل
جاتا ہے جب ریاست کے پالیسی سے ہی انحراف کرکے حب الوطنی کا نعرہ دیا جارہا
ہے اور نعرہ بھی ایسا جو ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف سیاسی نعرے اور
مطالبے کی بنیاد پر سامنے لایا جاتا ہے ۔
وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی جانب سے تازہ ترین آئینی پیش رفت میں
یہ بات بذریعہ اخبارات سامنے آرہی ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کی قانون
ساز اسمبلیوں کو بااختیار بناتے ہوئے جی بی و اے جے کے کونسل کو ختم کیا
جارہا ہے ۔میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس پیش رفت یا اصلاحاتی
فیصلے کا بھی وہی حال ہوگا جو اس سے قبل کے سطور میں بیان کیا جاچکا ہے ۔
اچھا سمجھنے والا بھی اور اس کو برا سمجھنے والا بھی صرف اپنے مفاداتی نکتہ
نظر کی بنیاد پر ایک سائیڈ پر کھڑا ہوگا۔لیکن کوئی یہ بات سامنے نہیں
لائیگا کہ پیپلزپارٹی نے کس ضرورت کی بنیاد پر گلگت بلتستان کونسل متعارف
کرایا تھا اور مسلم لیگ ن کس ضرورت کی بنیاد پر اسے ختم کررہی ہے بلکہ ایک
روایتی تفریق اور تقسیم سامنے آئے گی ۔
آئینی اصلاحات کے نام پر جو سیاسی آنکھ مچولی جاری ہے اس کی وجہ سے گلگت
بلتستان کی عوام مکمل زہنی اپاہج بن گئے ہیں اور زہن میں ایک بے ساکھی
لگانے کی ضرورت پڑگئی ہے تاکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چل سکے ۔ یہ مسائل
صرف سیاسی جماعتوں یا سیاسی قیادت کے نہیں ہیں بلکہ گلگت بلتستان کی سماج
اور معاشرے کا بھی یہی رویہ رہا ہے ۔ کسی بھی چیز کو ’لیبل ‘لگاکر اسی
مخصوص پیرائے اور نکتہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو بہت بڑاا لمیہ ہے ۔ اگر
گلگت بلتستان کے نام پر مفت کی روٹیاں توڑنے والے اس علاقے کی ان پر
احسانات کا ایک فیصد بھی چکانا چاہتے ہیں تو تحقیق اور ضرورت کی بنیاد پر
چیزیں سامنے لے آئیں۔ ورنہ ہر قسم کے اصلاحات سمیت پیکیجز کا حال دو پول
بننے کی صورت میں سامنے آنا ہے ۔ اس تحریر میں کسی بھی شخصیت یا پارٹی کو
نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ضروت کی بنیاد پر ایک ’نکتہ ‘سامنے
لانے کی کوشش کی ہے تاکہ سیاسی جماعتیں نہیں تو سماج اور معاشرے کے فرد کے
طور پر ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی چیز کا پھل لگنے میں وقت لگتا ہے ۔ آج
ایک ایسے چوراہے پر ہم کھڑیں ہیں جہاں سے ہم نے آئندہ 100سال کا قومی
مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ۔ اس قومی مستقبل کو سیاسی مطالبات کے نذر ہونے سے
بچانا ہے ۔ |