یہ بات تو اب کوئی راز نہیں رہ گئی کہ پاکستان کے دشمن
اور بعض بظاہر دوست ممالک نے سی پیک کے خلاف ایک منظم منفی مہم شروع کررکھی
ہے جس کا آخری مقصد یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس منصوبے کو راستے میں ہی
رکوا دیا جائے اور یوں وہ ساری سرمایہ کاری اکارت کرادی جائے جو گذشتہ کئی
سال سے ہورہی ہے، بھارت تو اپنی دشمنی کا اظہار کھلم کھلا بھی کررہا ہے،
اور در پردہ تخریب کاری اور دہشتگردی کے ذریعے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے سے
بھی باز نہیں آرہا، یہاں تک کہ افغانستان کے راستے تخریبی کارروائیوں کے
لئے دہشت گردوں کو بھی پاکستان بھیج رہا ہے۔ بلوچستان میں جو دہشت گردی
جاری ہے وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اقبالی
بیان میں تو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس کی جاسوسی سرگرمیوں کا مقصد
کراچی اور سندھ میں فسادات کی آگ بھڑکانا اور سی پیک کے منصوبوں کو ناکام
بنانا تھا۔
سی پیک کی ترقی روکنے کی خاطر سی آئی اے، را، موساد اور این ڈی ایس کا
مذموم گٹھ جوڑ، اس وقت فعال انداز میں باغی بی ایس این (بلوچ سب نیشنلسٹ)
قوتوں کو ان غیر ملکی ایجنسیوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔عام بلوچ کو اس امر
کا بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ ذیلی قوم پرستی کے پرچم بردار یہ گروہ پاکستان
کو غیر مستحکم اور بلوچستان میں قیام امن و امان اور نفاذ قانون کی حکومتی
مساعی کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ وہ شبانہ روز پاک چین اقتصادی
راہداری کے خلاف مذموم پراپیگنڈا مہم چلا رہے ہیں۔ یہ امر موجب طمانیت ہے
کہ ان تمام منفی حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود حکومت نے تدبر اور تحمل کا
مظاہرہ کرکے پاک چین اقتصادی راہداری پر تمام خدشات و تحفظات دور کرکے قومی
سیاسی قیادت کا اتفاق رائے حاصل کرلیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے
عظیم سفر کی کامیابی کا راستہ کھول دے گا۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ چینی سفیر
نے کہا ہے کہ سی پیک منصوبے کو بلوچ دہشت گرد گروہوں سے کسی قسم کا کوئی
خطرہ نہیں ہے۔ ماضی میں سیاسی حکومتوں نے قومی منصوبوں پر مطلق العنانیت کا
رویہ رکھا جس کی وجہ سے قومی مفاد کو نقصان پہنچتا رہا۔ سانحہ پشاور کے بعد
قومی، سیاسی و عسکری قیادت نے جس انداز میں قومی مفاد کے لئے مختلف اقدامات
پر اتفاق کرکے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کا آغاز کیا تھا۔ آج پورے ملک میں
اس کے مثبت اثرات نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے اس نوعیت کی اطلاعات
ایک تسلسل سے ملتی رہی ہیں کہ بلوچستان کے بعض انتہا پسند عناصر کو علیحدگی
پسندوں اور غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے پاکستان مخالف لٹریچر فراہم کیا
جاتا رہا اور انہیں فکری طور پر منظم کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔
اس کی تصدیق حکومتیں بھی کرتی رہیں ماضی کی حکومتوں کو اس کا فوری نوٹس
لینا چاہئے تھا اور ان لوگوں کا سراغ لگانا چاہیے تھا جو پاکستان دشمن
لٹریچر حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ غیر ملکی ایجنٹوں سے روابط رکھتے ہیں۔ ڈی
جی ایف سی نے سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کے دوران تسلیم کیا تھا
کہ 49 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان میں سرگرم عمل ہیں۔ دہشت گردی کی
روک تھام کے لئے کام کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو روایتی دقیانوسی
طریق عمل اور طرز فکر کو بالائے طاق رکھ کر نئے حالات کے تناظر میں نئی
پالیسی وضع کرنا ہوگی۔ |