دور حاضر میں والدین کیلئے سب سے بڑی مشکل اور
پریشانی بچوں کا بہترین رشتہ تلاش کرنا ہے۔ہم سنتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ
لڑکیوں کے والدین ان کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتے تھے کہ لڑکے
والے آتے ہیں دیکھ کر چلے جاتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد انکار کردیتے ہیں
وغیرہ وغیرہ ،لیکن اب حالات یہ ہیں کہ لڑکوں کے گھر والے بھی ان کے رشتے نہ
ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ
کے لگ بھگ کنواری لڑکیاں اور لڑکے موجود ہیں جن کے والدین اچھے اور مناسب
رشتوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے ہر تیسرے گھر میں شادی کے
منتظر لڑکے اور لڑکیوں کی عمرڈھلتی جارہی ہیں۔ اس پریشانی کی اصل وجہ رشتوں
کی کمی نہیں بلکہ رشتوں کا معیار پر پورا نہ اترنا ہے۔ ہر لڑکی کے والدین
کے اپنے معیار ہیں ان کی خواہش ہے کہ ان کے ہونے والے داماد میں تمام
خوبیاں موجود ہوں، خو برو، تعلیم یافتہ ، صاحب حیثیت ہو، اپنا ذاتی گھر ،
بڑی گاڑی، اچھی نوکری یا کاروبار ہو ، اور اگر لڑکی نے اعلیٰ تعلیم حاصل
کررکھی ہے تو والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکا اس سے زیادہ پڑھا لکھا ہو۔
ہماری بیٹی جس گھر میں بیاہ کر جائے وہاں لڑکے کے بھائی بہنوں کی شادی
ہوچکی ہو، اگر لڑکے کے بھائی ہیں تو ان کا اپنا الگ گھر اور الگ نوکری یا
کاروبار ہو، لڑکا ہر لحاظ سے خود مختار ہو تاکہ ان کی بیٹی کو کسی بھی طرح
کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے اور وہ خوش و خرم زندگی بسر کر سکے۔
اسی طرح لڑکے کے والد ین اور گھر کے دیگر افراد نے اپنے معیار متعین کررکھے
ہیں کہ ان کے گھر میں آنے والی بہو صاحب حیثیت و اعلیٰ خاندان سے تعلق
رکھتی ہو، اعلیٰ تعلیم یافتہ ، پر کشش شخصیت، گوری رنگت ، دبلی پتلی ، دراز
قد،خوش شکل ، خوش لباس ہو ۔ آواز پست ہو، بولے تو منہ سے پھول جھڑیں، چلے
تو قیامت کی چال چلے ، امور خانہ داری کی ماہر ہو، ہوسکے تو بہو ڈاکٹر ،
انجینئر یا بینکار ہو بیشک بعد میں جاب کرنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ اور
پھر چاند سی دلہن ڈھونڈنے کی خواہش مند لڑکے کی ماں اور بہنیں کسی کی بیٹی
کو ہر زاویے سے اور چلا پھرا کر دیکھتی ہیں گویا قربانی کے لیے جانور دیکھا
جارہا ہو۔ اس کے علاوہ کٹھن وچبھتے ہوئے سوال و جواب سے لڑکی کا ہر طور سے
جائزہ لیاجاتا ہے ، اور جہاں چھوٹی بہن کی شادی ہوچکی ہو وہاں ان کے ہزاروں
چبھتے سوالوں میں سب سے اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کی شادی سے پہلے چھوٹی
بہن کی شادی کیوں ہوگئی ، اس موقع پر دعوتیں اڑائی جاتی ہیں۔ اور پھر کہیں
لڑکی پسند نہیں تو کہیں لڑکی کے گھر والے ، بالاآخر انکار کرکے معصوم
لڑکیوں کی دل شکنی کی جاتی ہے، اور پسند نہ آنے کی وجہ بھی بہت فخر سے
بتائی جاتی ہے کہ لڑکی کی شکل و صورت میں یہ نقص ہے۔ ایسا کہتے ہوئے نہ ان
کا دل کانپتا ہے اور نہ ہی ان کے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی ہے۔ اسطرح
معیار کی سختی میں لڑکیوں کو جانوروں سے بھی کم وقعت سمجھ لیا جاتا ہے لیکن
جب یہ لوگ خود اپنی بیٹی کے لیے آنے والے رشتے کا جائزہ لیتے ہیں توان کا
معیار بالکل تبدیل ہوتا ہے ، اور یہ چاہتے ہیں کہ لڑکے والے خواہ ان کا
سماجی و معاشی مقام ہم سے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو صرف ہماری بیٹی کی شرافت،
سگھڑپن اور اس کی سیرت کو دیکھ کر رشتہ طے کر لیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ
جب ہم بیٹے والے بن کر کسی کی بیٹی کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں تب ہم یہ سب
کچھ کیوں نہیں سوچتے، تب ہمارا معیار کیوں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا
ہوتا ہے ۔
بیٹا یا بیٹی کی وقت پر شادی کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی شرائط ، اپنے
بلند معیار میں کچھ کمی لائیں۔ حالا ت وواقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کے
مستقبل کا فیصلہ کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ تمام خوبیاں ایک ساتھ نہیں
مل سکتیں۔ اگر لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے تو اس کے لیے تعلیم یافتہ لڑکا
ضرور ڈھونڈیں، لیکن اگر لڑکا تعلیم میں لڑکی کے برابر نہیں اور اس میں اتنی
صلاحیت ضرور ہے کہ وہ اس کو خوش رکھ سکتا ہے تو ہرگز دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ہماری اعلیٰ تعلیم یافتہ بہنیں اگر اپنے سے کم تعلیم یافتہ، شریف لڑکے سے
نکاح کریں گی تو لڑکے کے خاندان اور دنیا والوں کی نظر میں ان کی عزت، رفعت
و مقام اتنا بلند ہوگا کہ وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی بیٹی
کیلئے کوئی رشتہ آئے تو لڑکے کی خاندانی شرافت اور کسب حلال کی صلاحیت کو
مدنظر رکھنا چاہیے کیونکہ جس شخص میں اپنی محنت سے دو وقت کی روٹی کمالینے
کی صلاحیت ہو وہ دنیا بھر کی آسائش بھی خدا کی مرضی سے وقت آنے پر حاصل
کرہی لیتا ہے۔ گزرتی عمر کی لڑکیوں کے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر
فراخدلی و ایثار کا جذبہ پیدا کریں، اپنی قابل بچیوں کی شادی کسب حلال سے
معقول تنخواہ پانے والے، قبول صورت، پرہیز گار لڑکے سے کریں۔ رشتے کے لیے
ضروری نہیں کہ لڑکا اور لڑکی ہم عمر ہوں، عمر میں چار سے چھ سال کا فرق
کوئی زیادہ نہیں، اگر عمر کے کچھ فرق کے ساتھ لڑکا شرائط پر پورا اتر رہا
ہے تو ایسے رشتے کو انکار کرنا ہرگز درست نہیں۔ رشتہ طے کرتے وقت اگر پیسہ،
نام، دولت، شہرت، اور اسٹیٹس کی جگہ دینداری ، کسب حلال، انسانیت، ادب، اور
اخلاق کو ترجیح دی جائے تو یقینا شادی بیاہ کے معاملات آسان ہو سکتے ہیں۔
درحقیقت ان ہی خوبیوں سے گھر آباد رہ سکتے ہیں اور ان کے فقدان سے شادی کے
بعد بھی گھر ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ ایک آدمی نے حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ سے
پوچھا کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح کس سے کروں ؟ آپ نے فرمایا! جو اﷲ سے ڈرنے
والا شخص ہو کیونکہ اگر وہ اس کو پسند کرے گا تو اس کی عزت کرے گا اور اگر
نا پسند کرے گا تو اﷲ تعالیٰ کے ڈر کی وجہ سے اس پر ظلم نہیں کرے گا،
بلاشبہ دولت و شہرت ہی خوش رہنے کی ضمانت نہیں ہے۔ |