تحریر: بنت عطا، کراچی
کسی بھی چیز کو بناتے وقت انسان کے ذہن میں ایک مقصد ہوتا ہے۔ چھوٹی سے
چھوٹی چیز بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں بنائی جاتی۔ عمارتیں بنائی جاتی ہیں
تاکہ اس میں رہا جا سکے، لباس جوتے وغیرہ بنائیے جاتے ہیں تاکہ پہننے
اوڑھنے کے کام آسکیں، برتن بنائے جاتے ہیں تاکہ کھانے پینے کے لیے استعمال
ہوں، کھانا بنایا جاتا ہے کاشت کاری کی جاتی ہے غلہ اگایا جاتا ہے تاکہ
کھانے پینے کی ضرورتیں پوری ہوں غرض کوئی بھی چیز بے مقصد وجود میں نہیں
لائی جاتی۔
اسی طرح اربوں کھربوں مخلوقات بھی بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ انسان اشرف
المخلوقات ہے اسے پیدا کرنے دنیا میں بھیجنے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور وہ ہے
اﷲ کی عبادت۔فرمان باری ہے کہ: میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے
پیدا کیا (القرآن) ہمارا مقصد حیات یہی ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں اس کی
اطاعت کریں اس کی رضا کو اپنی اولین ترجیح بنائیں اسی کی عبادت کریں۔عبادت
صرف نماز روزہ کا نام نہیں بلکہ عبادت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک میں حقوق اﷲ
داخل ہیں اور دوسری قسم حقوق العباد کو شامل ہے۔ اصل کامیابی ان دونوں کی
ادائیگی میں ہے۔ کسی ایک پر چلنا اور دوسری سے غفلت برتنا یہ فلاح کا راستہ
نہیں۔
ایک شخص اگر نماز روزے کا پابند ہے کوئی نماز کوئی روزہ اس سے قضا نہیں
ہوتا ہر وقت ذکر الہی میں لگا رہتا ہے مگر اس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ
نہیں۔ بد زبان بد اخلاق ہو تو محض ان نماز روزوں سے اس کی نجات ممکن نہیں۔
اسی طرح کوئی شخص صدقہ خیرات کا عادی ہو مگر احسان بھی جتلاتا ہو تو اس کی
یہ نیکی رائیگاں جائے گی۔ والدین و اساتذہ کی نافرمانی ان سے زبان درازی
کرنا، صلہ رحمی سے غفلت، مسلمان بھائی سے قطع تعلقی رکھنا، کسی کو تکلیف
پہنچانا یہ ساری باتیں قیامت کے روز آپ کی نماز روزہ قبول ہونے نہیں دیں
گی۔قیامت کے روز ہر چھوٹی بڑی بات کا حساب ہوگا فرمان باری ہے کہ ’’جو کوئی
ذرہ سی بھی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا‘‘ (القرآن)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین سے
پوچھا مفلس کون ہے۔ انہوں نے جواب دیا جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔ آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز ایک شخص اس حالت میں آئے گا کہ اس کے
اچھے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے ساتھ اس نے دنیا
میں کوئی زیادتی کی ہوگی وہ آتے جائیں گے اور اپنے حق کے بقدر اس کی نیکیوں
میں سے لیتے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے تمام اعمال ختم ہوجائیں گے مگر
حقدار باقی ہوں گے۔ پھر ان تمام حقداروں پر ہوئے ظلم کے بقدر ان کے گناہ ان
سے لے کر اس شخص کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی بد
اعمالیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اصل
مفلس وہ شخص ہے۔
لہذا اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔ کسی بھی
گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں۔ اپنی زبان اپنے تمام اعضاء کی حفاظت کریں کسی کو
آپ سے کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، کسی کی حق تلفی نہ ہو، ناپ تول
میں کمی نہ کریں، جھوٹ، دھوکہ، لوٹ مار، والدین کی نافرمانی، غیبت، بہتان،
بغض، حسد، کینہ، لعن طعن، منافقت ان سب معایب سے خود کو بچاتے ہوئے نماز
روزے و دیگر عبادات کا اہتمام کریں۔ تاکہ آپ کی نیکیاں بروز قیامت بھی آپ
کے پاس محفوظ رہیں۔ ان پر صرف آپ کا حق ہو کوئی اور حقدار نہ نکل آئے جو آپ
کا پلڑا خالی کرکے آپ کی نیکیاں لے جائے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ زندگی کی ڈور
ابھی ٹوٹی نہیں۔ خود کو مفلس ہونے سے بچا لیجیے۔
|