ثقافت کسی بھی معاشرے کے لئے روح کا درجہ رکھتی ہے اور
وہاں بسنے والے لوگوں اور اس خطے کی پہچان کا ذریعہ ہوتی ہے کسی بھی علاقے
کے رسم و رواج ،زبان،علم و فنون اور عقائد و افکار کا نام ہی ثقافت ہے
پاکستان میں جہاں ہم اردو اور انگریزی کو اہمیت دیتے ہیں وہاں ہمیں اپنی
مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے بھی کام کرنا چاہیئے ہماری مادری
زبانوں میں پنجابی،بلوچی،سرائیکی ،پشتو اور سندھی ہیں ہمیں ان زبانوں میں
بھی ادب کی ترقی کے لئے کوشاں رہنے کی ضرورت ہے اسی بات کو مد نظر رکھتے
ہوئے پنجاب کونسل آف آرٹس اور ملتان آرٹس کونسل کی جانب سے سرائیکی زبان کو
متعارف کرانے اور اس کی ثقافت کوروشناس کرانے کے لئے ایک خوبصورت پروگرام
سرائیکی کلچر شو کے نام سے اوپن ائیر تھیٹر باغ جناح میں منعقد کیا گیا جس
کا سہرا ملتان آرٹس کونسل کی ایڈیشنل سیکٹری محترمہ ثمن رائے ، ریزیڈنٹ
ڈائیریکٹر جناب سجاد جہانیہ صاحب اور ڈپٹی ڈائیریکٹر مغیث بن عزیز کو جاتا
ہے اس پروگرام کی میزبانی بھی جناب سجاد جہانیہ صاحب نے کی اور تمام حاضرین
کو سرائیکی میں شعر سنا کا داد بھی وصول کی سرائیکی لب و لہجہ اور سرائیکی
زبان نہایت ہی میٹھی ہے سرائیکی زبان بولنے والے نہایت ہی خوش اخلاق،ملنسار
اور سادہ لوگ ہوتے ہیں یہاں بسنے والی خواتین باصلاحیت اور ہنر مند ہیں
جواپنی ثقافت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں ہمیں سرائیکی
ثقافت کا رنگ ملتان،ڈیرہ غازی خان،بہاول پور ،،راجن پور ،میانوالی اور
خوشاب کے اضلاع میں ملتا ہے جو سر سبز و شاداب علاقے ہیں سرائیکی ثقافت میں
صوفیائے اکرام کا بھی بڑ ا اہم کردار رہا ہے اسی لئے شاید ملتان کو پیروں
اور ولیوں کا مسکن کہا جاتا ہے ان صوفیا اکرام میں شمس تبریز،شاہ رکن الدین
عالم،شاہ یوسف گردیز،بہاولدین ذکریا سہروردی اور خواجہ غلام فرید کے نام
مشہور و معروف ہیں ان تمام کا تعلق سرائیکی دھرتی سے تھا ۔
پروگرام کا باقائدہ آغاز سازینہ بجا کر کیا گیا جس کی تانیں دل کو چھونے
والی تھیں اس کے بعد عباس ملک صاحب نے سرائیکی زبان میں اپنی نظمیں سنا کر
وہاں موجود حاضرین کو محفوط کیا حاضرین محفل نے بھی خوب داد دی اس کے بعد
گیت سنانے کے لئے ثوبیہ ملک کو بلایا گیا جنہوں نے تین گیت سنائے ان کے
آخری گیت پر رخسانہ ملتانی اور چمن ملتانی نے لوک ڈانس کر کے بھر پور داد
وصول کی ان کی پرفارمنس کے بعد جھومر(جھمر) جو کہ سرائیکی وسیب کا ایک خاص
ڈانس ہے یا کہ سکتے ہیں کہ یہ وہاں کا ایک مقامی ناچ ہے جو قدیم اور تاریخی
روایات کا حامل ہے پیش کیا گیا اس میں عطا اﷲ ملتانی اور ان کی پارٹی نے
حصہ لیا جس نے وہاں ایک سماں باندھ دیا اور لوگوں نے خوب تالیاں بجا کر
انہیں داد دی اس کے بعد ایک ایسا خاکہ جس کا نام شادی مبارک تھا پیش کیا
گیا جسے ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا اس میں بتایا گیا کہ سرائیکی زبان
بولنے والے کیسے شادی بیاہ کی رسومات اداکرتے ہیں لیکن اس خاکہ میں مزاح کا
عنصر بھی موجود تھا جس سے حاضرین قہقے لگاتے رہے وہاں موجود سب حاضرین اور
مہمان گرامی نے بہت پسند کیا اور ان کا تالیوں سے بھر پور استقبال کیا لیکن
اس خا کہ کا آخری سین جس میں دلہن الوداع ہوتی ہے وہ آنسوؤں سے بھر پور تھا
اور اس میں حاضرین کی آنکھوں سے بھی آنسو جھلک پڑے بہترین پرفارمنس کا
مظاہرہ کیا گیا جس کے لئے تمام اداکاروں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اس کے
علاوہ ریڈیو اور ملتان آرٹس کونسل کے معروف گلوکار عارف خان بابر نے کافیاں
اور گیت سنا کر ایک سما باندھ دیا اور سننے والے سر دھن کر رہ گئے ان کی
خوبصورت آواز نے محفل میں سکتا جاری کر دیا اور انہوں نے اپنی اس پرفارمنس
پر خوب داد وصول کی میں ایک بات بھول گیا کہ یہاں جو سیٹ لگایا گیا تھا اس
میں سرائیکی گاؤں کی بھر پور نمائیندگی کی گئی تھی گاؤں کی اس عکاسی کو
دکھانے میں سیٹ ڈایزائینر مالک سندھی ،سلیم قیصر اور عبدالرحمن شامل تھے
حاضرین خوبصورت سیٹ لگانے پر دونوں کو تالیاں بجا کر خوب حوصلہ افزائی کی
اس کے علاوہ ساؤنڈ سسٹم کے لئے محمد ریاض کا نام لیا گیا اور تالیاں بجا کر
انہیں بہترین سائنڈ سسٹم لگانے پر داد دی گئی اور آخر میں ثوبیہ ملک اور
عارف خان بابر نے بولیاں سنا کر حاضرین کے دل جیت لئے اور بھر پور داد وصول
کی ان کے بعض گانوں پر مقامی اداکاروں نے بہترین پرفارمنس دی اس کے علاوہ
گھوڑا ناچ اور اونٹ ناچ کی بھی بھر عکاسی کی گئی اس کے ساتھ ہی محترم جناب
سجاد جہانیہ صاحب نے تمام حاجرین کا شکریہ ادا کیا اور ہم نے بھی سٹیج پر
جا کر سجاد جہانیہ صاحب اور تمام فنکاروں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے
لاہوریوں کی تفریح اور اپنی ثقافت کو جاگر کرنے کے لئے بہترین پرفارمنس دی
اس کے لئے ہم تمام سرائیکی دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اید کرتے ہیں
کہ وہ ایسے پروگرام وقتاً فوقتاً کراتے رہیں گے یقیناً ایسے پروگراموں سے
ہی ہم اپنی ثقافت کو زندہ رکھ نے کامیاب ہوں گے ورنہ یہ ثقافت آہستہ آہستہ
ماند پڑتی جائے گی اور ہماری آنے والی نسلیں اس سے ناپید رہیں گی ۔ |