تحریر: سفیر احمدچودھری، اسلام آباد
غلامی دنیائے انسانیت کا ایک قدیم اور محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ہر طاقتور قوم
اپنی مطلوب و مجبور اقوام کو نہ صرف غلام بنا دیتی بلکہ ان سے کھیتوں،
کاروباری مراکز اور دیگر مقامات پر کام کرایا جاتا۔ اس دور میں غلاموں پر
ہرطرح کے تشدد کا مالک کو قانونی حق حاصل تھا اور ان کی تجارت بھی جانوروں
کی طرح کی جاتی تھی۔اہل مصر ، ہندو اور فارسیوں جیسی قدیم اقوام میں بھی
غلاموں کو ادنیٰ حقوق بھی حاصل نہیں تھے اور ذرا سی بات پر ان کو زندہ جلا
دیا جاتا۔ یونانی اور رومی تہذیب میں بھی غلاموں کو حیوانوں کی طرح استعمال
کیا جاتا رہا۔ عیسائی اور یہودیوں میں بھی تقریبا یہی سلوک کیا جاتا۔
18ہویں صدی میں مملکت فرانس میں یہ قانون بنایا گیا کہ کوئی غلام اگر کسی
آزاد انسان سے زیادتی، چوری یا لڑائی کرتا اسے سزائے موت دی جاتی۔ جو غلام
بھاگ جاتے ان کو پکڑ کر ان کے کان کاٹ دیے جاتے اور ان کو داغا جاتا۔ اگر
غلام مسلسل تین بار بھاگتا تو اس کی سزا موت متعین کر دی گئی۔ غلاموں کو
صرف یورپ نے پنجروں میں بند رکھا۔ اس سے پہلے ایسا کوئی رواج نہ تھا۔ ان کے
گلے میں رسیاں ڈالی جاتی اور جانوروں کی طرح پنجروں میں بند رکھاجاتا۔
گیمبیا اور نائجیریا ساؤتھ اور سینٹرل افریقہ میں باقاعدہ جال لگا کر سیاہ
فام باشندوں کو پکڑا جاتا اور غلام بنا کر امریکا لے جایا جاتا۔ جہاں ان سے
دو وقت کی روٹی کے بدلے سب کام لیے جاتے تھے۔ مرد اور عورتوں کو جنسی غلام
بنا کر رکھا جاتا تھا۔ یہ وہ تصور غلامی ہے جو یورپ اور امریکا میں انیسویں
صدی کے اوائل تک قائم رہا۔ امریکا اور یورپ والے ڈیڑھ سو سال پہلے تک اس
جہالت زدہ نظام کو اپنائے ہوئے تھے۔ ان کی زرعی ترقی میں اہم کردار انہیں
غلاموں کا ہے جنہیں جانوروں کی طرح جوتا جاتا اور کام لیا جاتا۔ جب سائنسی
دور آیا اور اس نظام کی ضرورت نہ رہی تو ایسی اقوام نے انسانی حقوق کا
عالمی چمپئن بن کر اس نظام پر پابندی عاید کر دی۔
اسلام میں کسی بھی آزاد انسان کو غلام بنانے کے تمام طریقے ناجائز اور حرام
قرار دیے گئے ہیں، سوائے ایک صورت جنگی قیدی کے اور ان سے بھی محبت کا سلوک
روا رکھا جاتا۔ جبکہ ہر قوم قیدیوں کو اپنا غلام بناتی تھی۔ اگر مسلمان
ایسا نہ کرتے تو اپنے جنگی قیدیوں کو چھڑانا مشکل ہوتا اور کفار کو چھوڑ
دینے سے وہ دوبارہ قوت پکڑ کر حملہ آور ہو سکتے تھے۔ اگر دشمن کا رویہ ٹھیک
ہو تو ان قیدیوں کو معاوضہ لے کر یا جنگی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا جاتا۔
جن قیدیوں کو مسلمان رہا نہیں کر سکتے اور نہ ہی سزائے موت دے سکتے ان کو
رہا کر کے معاشرے میں سمو دیا جاتا اورمکمل انسانی حقوق دیے جاتے تا کہ وہ
خود کو حقیر نہ سمجھیں۔ وقت گواہ ہے کہ ان قیدیوں میں بہت سے عالم،
مفکر،اور اولیاء کرام سامنے آئے۔ ایسے قواعد بنائے جن سے غلامی اور آزادی
کا فاصلہ بہت کم رہ گیا۔ اسلام میں غلامی کی یہ محدود صورت جو کہ جنگی
قیدیوں کے بارے میں حکم نہیں بلکہ آپشن کے طور پر رہی مغرب کے نزدیک ہمیشہ
قابل اعتراض رہی۔
اسلام ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے انسانوں کی خرید فروخت کے خاتمے کا
اعلان کر چکا تھا۔ اب تمام قوموں کا غلامی کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی مدد
سے اگریمنٹ ہو چکا ہے۔ تو اسلامی ممالک بھی اس کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں بھی
1973ء کے آئین شق 11 کے تحت غلامی کے تصور کو ختم کر دیا گیا اور اسے غیر
انسانی اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔ دیکھاجائے تو اس معاہدے کا فائدہ
مسلمانوں کو زیادہ ہے۔ کیونکہ مسلمان جنگی قیدیوں سے حسن و سلوک کے پابند
تھے۔ جب کہ غیر مسلم جنگ کے علاوہ بھی مسلمانوں کو غلام بنا دیا کرتے تھے۔
تا ہم اگر کفار یا دیگر مغربی اقوام اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو
مسلمان بھی اس آپشن کو محدود حد تک استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ طلاق
ناپسندیدہ فعل ہونے کے باوجود حالت مجبوری میں جائز قرار دیا گیا ہے۔
مغرب آج اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے انسانی خرید و فروخت ختم
کر دیا ہے مگر آج کے دور کی غلامی بہت سی شکلیں اختیار کر چکی ہے۔ اب افراد
کی بجائے اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے اور ان کے وسائل کو لوٹا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں شرعی لحاظ سے لونڈی رکھنے کا کوئی نظریہ موجود نہیں اور نہ
ہی اسلام اجازت دیتا۔ مگر مغرب میں لونڈی کو دیگر نام دے کر رکھا جاتا ہے۔
اگر موازنہ کیا جائے تو اسلام میں گرفتار ہو کر آنے والوں کے بھی بہت سے
حقوق تھے اور مگر مغرب میں چند ٹکوں کے عوض رکھے جانے والے غلاموں کے نہ تو
کوئی حقوق ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی عزت و احترام ملتا ہے۔
تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو انسانی حقوق کے چمپئن نے مخالف اقوام کے ساتھ
کیا کچھ نہیں کیا۔ ویتنام، عراق اور افغانستان کی جنگیں ان کی درندگی کا
منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہزاروں عورتوں کو قید کر کے ان کی عزتوں کو پامال کیا
گیا۔ ان جنگوں میں مردوں کے ساتھ ہونے والا سلوک گوانتاناموبے جیسے عقوبت
خانے سے عیاں ہے۔یہ بات تو دور کی ہے ابھی گزشتہ ماہ انکشاف ہوا کہ اقوام
متحدہ کے ادارے مہاجرت کے کارکنان مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی اور غیر انسانی
حرکات تک کرتے ہیں۔
آزادی کا جو تصور اسلام میں ہے شاید ہی وہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں
میں یا اقوام میں ہو۔اسلام کے احکامات سے (نعوذ باﷲ) اگر کوئی خود کو قیدی
تصور کرتا ہے تو اس چاہیے کہ وہ بہتر مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ اقوام عالم
میں نظر دوڑائے اور پھر آزادی کی شرح کا اندازہ لگائے کہ اسلام میں کتنا
آزادی اور حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ باتوں سے تو صرف الجھا جاسکتا ہے،
حقائق تک نہیں پہنچا جاسکتا۔
|