گلگت بلتستان اور کشمیر کونسل کا مستقبل۔۔۔۔2

مقبوضہ جمو و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ آزاد جمو و کشمیر اور گلگت بلتستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ جس طرح گلگت بلتستان کو کئی دہائیوں تک آزاد کشمیر نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ جس پر ان کے گلے شکوے بجا ہیں۔ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لئے آزاد کشمیر کو بھر پور کردار ادا کرنا تھا۔ جو ادا نہ ہو سکا۔ اب اس کے ازالہ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے کام کرنا تھا۔ جو نہ ہو سکا۔ اس کا ازالہ بھی ممکن ہے۔ اگر دونوں یونٹ مل کر آگے بڑھیں تو مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ کسی کا کسی پر احسان بھی نہ ہو گا۔ گھر کے ایک بڑے حصہ پر کوئی قبضہ کر لے تو اس قبضے کو چھڑانے تک گھر کے مکین کیسے چین و سکون محسوس کر سکتے ہیں۔ گھر کو آگ لگی ہو اور آپ آرام سے خراٹے بھر رہے ہوں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کونسلوں کے خاتمے کی بات بعد کا معاملہ ہے۔ مگر آج یہ زیر بحچ ہے۔ اس لئے اس کا ایسا حل ضروری ہو گا جس سے گلگت بلتستان اور آزاد جمو و کشمیر کے عوام کے حقوق پامال نہ ہوں۔ اگر چہ یہ کونسلیں ان خطوں اور پاکستان کے درمیان پل ہیں۔ مگر اختیارات میں کونسل کی بالا دستی نے معاملہ بگاڑ کی نذر کیا۔ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان اگر کونسلوں کے خاتمے کے لئے مسودہ تیار کرتی ہے تو اسے منظوری کے لئے وفاقی وزارت قانون و انصاف سے ملے گی۔ وزارت قانون کی منظورے کے بعد سمری وفاقی کابینہ میں حتمی منظوری کے لئے پیش ہو گی۔ جس کے بعد گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کونسلوں کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری ہو گا۔ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے 3جنوری 2018کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو جو رپورٹ پیش کی۔ وہ 9رکنی کمیٹی کی تیار کردہ ہے۔ جس کے سربراہ سرتاج عزیز تھے۔ جسے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اکتوبر2015کو تشکیل دیا تھا۔ اس کا مقصد گلگت بلتستان میں سیاسی اور آئینی اصلاھات کرنا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومتیں ہیں۔ اس لئے وفاق کو معاملات بہتر کرنے اور عوام کے حق میں اصلاحات کرنے میں سانی ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے تو کریڈٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے آئینی اصلاحات کی جا سکتی ہیں۔ ان آئینی اصلاھات کے لئے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کا کردار بھی مثبت رہا۔ انہوں نے اس سلسلے میں انتھک محنت کی۔ اپویزشن کا کردار بھی مثبت ہے۔ ہر کوئی ان خطوں کو با اختیار بنانے کے حق میں ہے۔ تا ہم دونوں خطوں کی کونسلوں کو سینٹ کی طرز پر ایوان بالا بنانا اور انہیں قانون ساز ادارے میں تبدیل کرنا کافی اہم ہو گا۔ تا کہ پارلیمانی جمہوریت کے تقاضے بھی پورے ہو سکیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مزید مالی اور انتظامی اختیارات درکار ہیں۔ یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ کونسلیں مساوی حکومتیں چلا رہی ہیں۔ یعنی کہ آزاد کشمیر سے جمع ٹیکس کی رقوم آزاد کشمیر حکومت کی مرضی کے بغیر خرچ ہو رہی تھی۔ اسی طرح ججوں کی تقرری ، الیکشن کمشنر کی تقرری، اور ٹیکس کشمیر کونسل کی نگرانی میں جمع ہوتے تھے۔ کونسل کی باز پرس بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ یعنی یہ عوام کو جوابدہ نہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے نام پر کونسل سیکریٹریٹ یا وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان اخیارات کا استعمال کرتی ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ شاید وفاق ان خطوں کے اختیارات سلب کر رہا ہے۔ یہ بات وفاق کو اب سمجھ آ گئی ہے۔ اسے نیک نامی کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسلہ کشمیر کو حل کرانا ہے۔ وہ کسی بدنامی یا منفی پروپگنڈہ مہم کی متحمل نہیں ہو سکتا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں جس قدر با اختیار اور ذمہ دار ہوں گی۔ عوام کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس سے پاک کشمیر تعلقات میں مزید نکھار آ سکتا ہے۔ کیوں کہ کشمیر آر ہوں یا پار، وہ خود کو پاکستانی سے بھی زیادہ محب وطن پاکستانی سمجھتے ہیں۔ یہ رشتہ بے لوث اور پختہ ہے۔ جس میں دراڑ نہیں پڑ سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک کشمیر اگر حکومت میں ہے تو اپوزیشن والا اسے پاکستان کے دشمن اور قومی مفاد کے ناقدی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ کبھی کبھی یہ رقابت مسلہ بن جاتی ہے۔ کشمیری اگر اپنے سیاسی مخالفین یا برادری ازم اور علاقہ پرستی کی دیواریں گرا دیں تو ان کے خلاف کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، مگر سیاسی نفرت اور ازموں کی خطرناک دیواریں ہی کشمیری کی ترقی اور آزادی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ اگر ہر کوئی مختلف ازموں کے نیچا پھنسا رہے گا تو تعمیر و ترقی اور آزادی پر حرف آنا قدرتی بات ہو گی۔ با اختیار ہونا ہی کشمیر کے لئے باوقار ہونے کی علامت ہے۔ تا ہم پارلیمانی جمہوری روایات اور تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔
 
مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز کونسل ایوان بالا ہے۔ اس کی ارکان کی کل تعداد 36ہے۔ جن میں سے 11کا انتخاب مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے 87ارکان مقبوضہ وادی، لیہ اور کرگل سے کرتے ہیں۔ارکن اسمبلی ہی کونسل کے 11ارکان جموں، ڈوڈہ، پونچھ سے منتخب کرتے ہیں۔ دو کونسل ارکان جمون اور وادی کی میونسپل کونسلوں، ٹاؤں ایریا کمیٹیوں، اور نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹیوں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ دو کونسل ارکان کا انتخاب دونوں صوبوں یعنی جموں اور وادی سے پنچائیتوں یا دیگر لوکل باڈیوں سے سے منتخب ہوتے ہیں۔ جن کی تعداد چار ہوتی ہے۔ 8کونسل ارکان کو گورنر نامزد کرتا ہے جن میں تین ریاست کی پسماندہ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیگر پانچ کا تعلق ادب، سائنس، آرٹ، سماجی خدمت اور امداد باہمی سے تعلق ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز کونسل کا چیئر مین، ڈپٹی چیئر مین، قائد ایوان، قائد اپوزیشن یا کوئی بھی رکن بھارت کا شہری نہیں ہو سکتا۔ گورنر اگر چہ بھارت کا شہری ہوتا ہے مگر وہ بھی کسی بھارتی کو کونسل مین شامل نہیں کر سکتا۔ یہ وہاں کی کونسل کا سٹریکچر ہے۔ تا ہم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی کونسلوں کا سٹریکچر مختلف ہے۔ اسے وجہ سے ان کے خاتمے کے مطالبات پیش ہوتے ہیں۔ تا ہم ان کونسلوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر قانون ساز کونسل کے سٹریکچر کو مد نظر رکھتے ہوئے استوار کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555420 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More