کشمیر میں خاند ان مالوہ کی حکومت۔۔۔۔ایک نظر میں

وادی کشمیرمیں"کرالہ سنگر" کی زمین پھٹ کر پانی اگلنے لگی اور ایک بھونچال کی وجہ سے بارہ مولہ کے قریب ایک پہاڑی تودہ دریائے بہت (جہلم) میں جاگرا۔سندمت نگر پانی میں ڈوب گیا اور تمام آبادی غرق ہو گئی۔سندمت نگر اسی مقام پر تھا جہاں آج کل جھیل وولرواقع ہے۔سردیوں میں پانی کم ہوتا ہے تو پرانی عمارتوں کے آثار نظر آتے ہیں ۔اس حادثہ سے خاندان پاؤنڈ واں کی حکومت کا چراغ گل ہو گیا۔ 2042 ق م کو ہونے والے قدرتی آفت کے باعث خاندان پانڈواں کی حکومت کا نام و نشان مٹ گیا۔راجہ سندر سین بھی ظلم و ستم ،عیش وعشرت کی داستان چھوڑ کر جھیل وولر میں غرق ہو گیا۔

فرقہ پانڈواں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد تقریبا دو ماہ تک کشمیر بے سرو سامانی اور ویرانی کے عالم میں رہا۔میدانی علاقوں سے آبادی بالکل معدوم ہو چکی تھی۔محض چند لوگ جنہوں نے میدانی علاقوں سے کوہستانی علاقوں کی طرف ہجرت کی تھی وہ صحیح اور سلامت رہے۔عدم حکمرانی کے باعث فتنہ و فساد کے جنم سے کشمیر کے حالات دن بدن ابترہوتے جا رہے تھے۔"راجگان مالوہ "کا خاندان جو راجہ سندرسین کے دور میں سندمت نگرسے شمالی کوہستان میں" کرالہ پورہ"کے سامنے موجود درہ جو آج کل" لولاب"کہلاتا ہے۔وہاں آ کرآباد ہوئے اور ایک جاگیر بنائی۔قدرتی تباہی کے باعث"خاندان پانڈواں "کا خاتمہ ہواتو"لو"نامی شخص نے معززین کے مشورہ اور رضامندی سے حکومت کشمیر سنبھالی۔اور یوں 2042ق م کو کشمیر پر راجگان مالوہ کی حکومت قائم ہوئی۔

راجہ لو ایک عادل حکمران تھا۔فتنہ فساد،بدعت،ظلم وستم کا خاتمہ کیااور امن و امان کی صورت کو بحال کیا۔گرد ونواح کے علاقوں پر قبٖضہ کرتے ہوئے اپنے رعب ودبدبے کے نشانات چھوڑتے ہوئے آبادی ملک کی طرف توجہ دی۔سندمت نگر کی کمی پوراکرنے کے لیے اس نے "لولونگر" آباد کیا۔ پنڈت رتناگرکے مطابق اس میں80ہزارمکان آباد کیے۔اس کے زراعت کے لیے بھی اقدامات کیے۔موضع" لی وار"میں برہمنوں کو ایک جاگیر عطا کی۔آخرکار 60سالوں تک کشمیرپر حکومت کرتے ہوئے عدل و انصاف کی بنیاد ڈالتے ہوئے1982ق م میں فوت ہو گیا۔

راجہ لو کی وفات کے بعد اس کا بیٹا کوشی سیاکھ(کنول میں)1982ق م کو مسند حکومت سنبھالا۔17سال تک عدل و انصاف سے حکومت کرتا رہا اور موضع"کوراہارو"(جو آج کل"کولر"کے نام سے مشہور ہے)تعمیر کرتے ہوئے برہمنوں کو عطا کیا۔آخر کا ریہ راجہ1965ق م کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔

راجہ کوشی سیاکھ کے انتقال کے بعد اسکا بیٹا خنگدرتخت نشین ہوا۔ اس راجہ نے موضع "کاکا پور"اور "کھنمبوہ"کی یادگاریں تعمیر کرواتے ہوئے تاریخ میں نشان چھوڑ کر 30سال تک حکومت کرنے کے بعد 1935ق م کو انتقال کر گیا۔

راجہ خنگدر کی وفات کے بعد اسکا بیٹا سوراند گدی نشین ہوا۔ یہ سادہ لوح راجہ ہمیشہ آبادی ملک اور امن اومان کی کوشش کرتارہا۔راجہ سورندر نے "دردستان"میں"سورک"نام سے ایک شہر آباد کیا۔جو "سورد"کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔اس کے علاوہ موضع"سورس،سوند اور شورتـ"وغیرہ کے مقامات آباد کرواتے ہوئے برہمنوں،محتاجوں اور غریبوں کے لیے وقف کیے۔عمدہ سیرگائیں اور عمارتیں بنوا کر"نراندربھون"کی بنیاد رکھی۔ملک میں اعلی قسم کی سرائیں تعمیر کروائے۔راجہ سورندر کا کوئی بیٹا نہ تھا۔صرف ایک بیٹی تھی۔جو علم غریبیہ اور فنون عجیبہ کے حصول کے لیے ایران میں گئی اور وہاں کتابون کے نام سے مشہور ہوئی ۔ راجہ سورندر کو اس سے بہت پیار تھا ۔ اس راجہ نے ’’لونو‘‘ نام کے ایک لڑکے کو گود لیا تھا ۔ کتابون بہت ذہین اور خوبصورت بھی تھی۔ شاہ ایران" بہمن اسفند یار" نے کتابون کے لیے رشتہ بھیجا ۔ ابتدا میں راجہ نے سخت غصہ کیا لیکن کتابون کی مداخلت کے باعث معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔ اور راجہ نے "لونو" اور" حکیم جاما سپ" کے ہمراہ کتابوں کو"بہمن اسفند یار" شاہ ایران کے پاس بھیج دیا ۔ آخر کار "لونو" کی غداری نے"بہمن" کا کام تمام کر دیا اور غریب الوطن کتابون بے بسی کے عالم میں تنہا ہو کر رہ گئی ۔ لونو بھی ایران میں ہی تھا اور ادھر راجہ سوراند کی زندگی نے مزید وفا نہ کی اور 47سال کی حکومت کے بعد 1888ق م کو اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گیا ۔ لونو اور کتابوں ایران میں تھے اور کشمیر میں کوئی بھی اس کا وارث نہ تھا ۔ اس لیے یوں راجہ سوراند کی وفات کے ساتھ ہی" خاندان مالوہ" کی 154سالہ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

AMAR JAHANGIR
About the Author: AMAR JAHANGIR Read More Articles by AMAR JAHANGIR: 33 Articles with 30384 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.