بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کلیم اﷲ
پاکستان کی طرف سے سعودی فورسز کی تربیت کیلئے فوج کا اضافی دستہ بھیجنے کے
اعلان پرجان بوجھ کر نیا تنازعہ کھڑا کرنے اور پاک سعودی تعلقات میں رخنہ
ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایک مخصوص لابی پوری طرح متحرک ہے اور اس کی
کوشش ہے کہ دوبارہ پھر سے وہی ماحول پیدا کیا جائے جس طرح یمن کے مسئلہ پر
فوج سعودی عرب بھیجنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لیجایا گیا اور پھر بھانت
بھانت کی بولیاں بول کر محسن ملک کو ناراض کیا گیا۔ جو سیاستدان اس وقت دو
طرفہ تعلقات میں دراڑیں ڈالنے میں کوشاں تھے اس وقت بھی وہی سرگرم دکھائی
دیتے ہیں۔ پاکستانی وزیر دفاع خرم دستگیر نے واضح طور پر یقینی دہانی
کروائی ہے کہ پاکستان سے بھیجے جانے والے فوجی سعودی عرب سے باہر کسی جگہ
تعینات نہیں کئے جائیں گے اور وہ صرف سعودی فورسز کو تربیت دیں گے لیکن اس
کے باوجود جان بوجھ کر اس معاملہ کو اچھا لاجارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ سعودی
عرب میں پاکستان کے سولہ سو سے زائد فوجی پہلے سے موجود ہیں اور مزید ایک
ہزار سے زائد فوجیوں کا دستہ جلد بھیجاجارہا ہے۔ ہمارے فوجی یمن جنگ کا حصہ
نہیں بنیں گے۔ سینیٹ کے اجلاس میں بھی وزیر دفاع سے تندوتیز سوالات کئے گئے‘
انہیں زچ کرنے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ وہ سعودی عرب جانے والے
فوجیوں کی تعیناتی سے متعلق تفصیل سے بتائیں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر نے
کہاکہ فوج بھجوانے کا فیصلہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کیا ہے لیکن
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے بار بار استفسار کیا جاتا رہا کہ اس
سلسلہ میں اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟۔ میڈیا رپورٹس
کے مطابق سینیٹر عثمان کاکڑ‘ سینیٹر فرحت اﷲ بابر‘ منیر بادینی اور امیر
جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے وزیر دفاع کے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا
کہ پاکستانی فوج 1982 ء کے سمجھوتے کے تحت سعودی فوج کو تربیت دینے اور
مشاورت کے لئے بھیجی جا رہی ہے۔ سینیٹر کاکڑ نے وزیر دفاع پر یہ پھبتی بھی
کسی کہ وزیر دفاع کو تو محض ایک بیان تھما دیا گیا ہو گا کہ وہ جا کر یہ
بیان ایوان میں پڑھ دیں۔
پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی سعودی عرب فوج بھیجنے کے حوالہ سے
کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔ دونوں ملکوں
میں فوجیوں کے تبادلہ کا دوطرفہ معاہدہ موجود ہے اور جو پاکستانی فوجی وہاں
جارہے ہیں وہ کسی لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ سعودی عرب
پر مختلف سمتوں سے لاحق سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے سخت دباؤ تھا کیونکہ
اس سلسلہ میں انہیں بھاری رقوم صرف کرنا پڑتی ہیں۔ حوثی باغیوں نے سعودی
عرب کے مختلف شہروں کی جانب اب تک سینکڑوں میزائل فائر کئے ہیں اور ان میں
ایک بیلسٹک میزائل مکہ مکرمہ کی جانب بھی فائر کیا گیا تھا لیکن خوشی قسمتی
سے سعودی عرب کے میزائل شکن نظام نے ان تمام میزائلوں کو فضا ہی میں ناکارہ
بنا دیا تھا۔ گذشتہ کئی برسوں سے سعودی عرب کو اپنی اہم تنصیبات پر دہشت
گردی کے حملوں کا سامنا رہا ہے۔ غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گرد اور سعودی
عرب کے اندر دراندازی میں کامیاب ہونے والے باغی گروپ یہ حملے کرتے رہے ہیں
لیکن مملکت سعودی عرب کی سکیورٹی فورسز نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور
انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تعاون سے ان دہشت گرد اور تخریبی عناصر کے مذموم
مقاصد کو ناکام بنا دیا ہے اور ان کا قلع قمع کر دیا ہے۔ پاکستانی فوج نے
چونکہ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد جیسے کئی کامیاب آپریشن کئے ہیں اس لئے
سعودی عرب پاکستانی فوج کے تجربات سے مزید فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لہٰذا
دوطرفہ معاہدہ کے تحت اگر پاکستان کی طرف سعودی عرب فوج بھجوائی جارہی ہے
تو اس پر کسی دوسرے ملک کو تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان اور سعودی عرب
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے طویل عرصہ سے کوششیں کر رہے ہیں اور دونوں ممالک
کی سیاسی و عسکری قیادتوں کے درمیان مسلم امہ کو درپیش اس وقت کا سب سے بڑا
مسئلہ خاص طور پر زیر بحث رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی افواج کے مابین
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مشترکہ مشقیں اسی مقصد کے تحت کی جاتی رہی ہیں کہ
سب مل کر مسلمہ امہ کو نقصانات سے دوچار کرنے والے دہشت گردی کے عفریت سے
کس طرح نمٹ سکتے ہیں؟کچھ عرصہ قبل پاکستانی فوج کی جانب سے انسداد دہشت
گردی کیلئے بنائی گئی سعودی اسپیشل فورسز کو ٹریننگ دینے کا آغاز کر کے
دوطرفہ دفاعی تعلقات کے نئے دور کی شروعات کی گئیں اور انسداد دہشت گردی کی
کوششوں پرخاص طور پر بات چیت کی گئی ۔ پاکستان نائن الیون کے بعد چونکہ
دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے۔ آئے دن بم دھماکوں اور خودکش حملوں
سے پاکستانی افواج اور دیگر دفاعی اداروں کو بہت زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے
تاہم اﷲ کا شکر ہے کہ افواج پاکستان نے ملک میں پھیلے ہوئے بیرونی قوتوں کی
تخریب کاری و دہشت گردی کے پھیلائے گئے تمام نیٹ ورک بکھیر کر رکھ دیے اور
دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا پاکستان کی
افواج اور اداروں کی کامیابیوں کا کھلے عام اعتراف کرتی نظر آتی ہے۔ سعودی
عرب اور دیگر مسلم ممالک نے پاکستان کے اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ہونے پر
بہت خوش کا اظہار کیا کہ اس سے ان کی افواج کو بھی دہشت گردی سے نمٹنے
کیلئے پاک فوج کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنے کا بھرپور انداز میں موقع
ملے گا۔پاکستان کی طرف سے سعودی عرب فوجی دستہ بھجوانے کے اعلان پر بعض
سیاستدان سیخ پا دکھائی دیتے ہیں اور وہی پرانے مخصوص الزامات دہرانے کی
کوششیں کی جارہی ہیں۔ا فسوسناک امر یہ ہے کہ جو لوگ پاک فوج سرزمین حرمین
شریفین کے تحفظ کیلئے بھجوانے پر اعتراض کرتے ہیں انہیں یمن کے حوثی باغیوں
کیخلاف بات کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی جو آئے دن سرزمین حرمین شریفین پر
میزائل حملوں کی کوشش کرتے ہیں اور مکہ مکرمہ پر بھی میزائل پھینکنے کی
کوشش سے باز نہیں آتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حوثیوں کی جانب سے اب تک سعودی
عرب پر 95میزائل فائر کئے گئے ہیں جنہیں سعودی سکیورٹی فورسز نے راستے میں
ہی تباہ کر دیا۔ ابھی چنددن پہلے کی بات ہے کہ سعودی اتحاد نے باغیوں کے
ایک اڈے پر حملے کر کے سرزمین حرمین شریفین پر میزائل حملوں کی سازش کو
ناکام بنا دیا۔ سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی سٹریٹیجک معاہدہ کے مطابق یہ بات طے
ہے کہ پاکستان یا سعودی عرب میں سے کسی ایک ملک پر اگر حملہ ہوتا ہے تو
دونوں ممالک اسے اپنے اوپر حملہ تصور کریں گے اور برادر ملک کا اسی طرح
دفاع کیاجائے گا جس طرح اپنے ملک کی سرحدوں کا تحفظ کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کی سرحدوں کے تحفظ کی بات کی ہے۔ سعودی عرب
کے دفاع کیلئے پاکستانی افواج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے
اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرمین الشریفین کی سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی
قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیاجائے گا۔ پاکستانی قوم نے پاک فوج کے حالیہ
فیصلہ کی مکمل تائیدو حمایت کی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض لوگ مخصوص
ایجنڈے کے تحت اس حوالہ سے بھی قوم کے ذہنوں میں انتشار اور خلفشار پیدا
کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جو کہ کسی طور درست نہیں ہے۔سعودی عرب تربیتی
مشن پر فوجی دستہ بھیجنے سے برادر اسلامی ملک کی فورسز کی بہتر تربیت ہو گی
اور سرزمین حرمین شریفین کا دفاع مزید مضبوط ہو گا۔ یہ پوری مسلم امہ کے دل
کی آواز ہے۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے تو
پاکستان کو بھی کسی طور پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور وطن عزیز پاکستان کے
محسن ملک کی ہر ممکن مددوحمایت کرنی چاہیے۔ |