سیاست
میں سیاسی دباؤ اور سیاسی بصیرت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔سیاسی دباؤ سیاستدان
کا ہتھیار اور بصیرت اس ہتھیار کے استعمال کی گائیڈ لائین ہوتی ہے ۔ سیاسی
بصیرت ، سیاستدان کی لاٹھی بھی ہوتی ہے جسکے سہارے وہ اپنا سیاسی سفر طے
کرتا ہے ۔ یہ صلاحیت اسے معاملات کاباریک بینی اور گہرائی تک جائزہ لینے
اور باطن کو پہچاننے میں مدد دیتی ہے۔ تجربات سیاستدان کی بصیرت کو جلا
بخشتے ہیں اور اسے صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے، عوام کی نبض شناسی ، سیاسی
ہوا کا رخ بھانپنے اور حالات کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں سیاسی دباؤ اور سیاسی بصیرت کے عملی استعمال کی جس کی
وضاحت نواز شریف اور عمران خان کے نااہلی سے متعلق مقدمات کی مثال دیکر کی
جا سکتی ہے کیونکہ پانامہ کا مقدمہ نواز شریف کی اور عمران نا اہلی کا
مقدمہ عمران خاں کی سیاسی بصیرت کا امتحان تھا۔ جب پانامہ کا مقدمہ چل رہا
تھا تو عمران خان کی سیاسی بصیرت جاگ رہی تھی جس نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ
وہ سیاسی دباؤ کے ہتھیار کا بھر پور استعمال کریں ۔ عمران کو بات سمجھ میں
آگئی اور انہوں نے دھڑا دھڑ جلسے شروع کر دیئے ۔ پاکستان کا کوئی شہر ایسا
نہیں جہاں انہوں نے بڑے بڑے جلسے کرکے عوام کو متحرک نہ کیا ہو۔ عمران کی
طرف سے بروقت اور شدید سیاسی دباؤ کی وجہ سے نون لیگ کی سیٹی گم ہو گئی اور
عمران خان ،عوام کی نظر میں نواز شریف کوایک ولن کے طور پر portrayکرنے میں
کامیاب ہو گئے ۔ Go Nawaz Go عوام کا تکیہ کلام بن گیا ۔ عمران خان نے
سیاسی دباؤ بڑھائے رکھا اس سے عدالت کو اطمنان سے نواز شریف کے خلاف مقدمہ
کی سماعت کا بھر پور موقعہ ملا نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف نا اہل ہو گئے ۔
عمران خان نے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں وہ جلسے جلوس کرتے رہے ۔ میڈیا کا
انہوں نے خوب استعمال کیا ، انٹر ویوز دیئے اور ہر فورم پر خود کو Mr
Cleanثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے عمران خان کو
صادق و امین کی سند عطا کر دی (واضح رہے کہ یہاں بات سیاسی سوجھ بوجھ ،
معاملہ فہمی اور عدالت کے باہر جو لڑائی لڑی گئی اسکی ہو رہی ہے ، قانونی
نکات زیر بحث نہیں ہیں)۔
کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک مقبول لیڈر ہیں لیکن نواز شریف کو بھی عوام
پسند کرتے ہیں خاص طور پر پنجاب میں نواز شریف کا طوطی بولتا ہے دونوں کی
عوامی مقبولیت انکا سیاسی ہتھیار ہے لیکن دونوں کی سیاسی بصیرت میں فرق ہے
۔ جیسے کہ میں نے اوپر لکھا کہ سیاسی دباؤ کا ہتھیار استعمال کرنے کیلئے
سیاسی بصیرت رہنمائی مہیا کرتی ہے ۔ جب پانامہ کا مقدمہ زیر سماعت تھا تو
نواز شریف کی سیاسی بصیرت شائد آرام فرما رہی تھی اسلیئے وہ صورت حال کی
سنگینی کا ادراک نہ کر سکے۔ اس وقت اگر انکی سیاسی بصیرت جاگ رہی ہوتی اور
وہ وقت اور ہوا کے بدلتے ہوئے رخ کو بھانپ جاتے اور وقتی طور پر وزیر اعظم
کا قلمدان کسی ساتھی کو سونپ کر خار زار سیاست پر قدم رکھتے اور جو جلسے
جلوس اور ملاقاتیں وہ اب کر رہے ہیں وہ اس وقت کرتے تو اسکا انہیں خاطر
خواہ فائدہ ضرور ہوتا۔ ووٹ کا جو تقدس انہیں اب یا د آیا ہے اس کی دہائی
دینے کا صحیح وقت وہ تھا جب پانامہ کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔ اس وقت نواز
شریف اپنی کرسی کی قربانی دیکر اپنی سیاست بچا سکتے تھے کیونکہ ایسا کرنے
سے کسی حد تک وہ ایک High Moral Groundپر کھڑے ہوجاتے اور شائد عدالت انہیں
شک کا فائدہ دیکر کچھ رعائت دے دیتی لیکن نواز شریف کی مٹھی سے وقت ریت کے
ذروں کی طرح سرکتا رہا اور انکی سیاسی بصیرت خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہی
ہوش اس وقت آیا جب سب کچھ لٹ چکا تھا۔ اب کیا ووٹ اور کیا ووٹ کا تقدس،
دونوں کا رونا رونا بیکار ہے ۔نواز شریف نے اس وقت وزیر اعظم کا عہدہ نہ
چھوڑ کر نہ صرف سیاسی بصیرت سے خالی ہونے کا ثبوت دیا بلکہ اپنی سیاسی
تاریخ کی سب سے بڑی غلطی بھی کی جسکے نتائج آج پوری نون لیگ بھگت رہی
ہے۔کاش نواز شریف پس آئینہ معاملات کی پرکھ رکھتے تو آج وہ یہ پوچھتے نہ
پھرتے کہ مجھے کیوں نکالا؟
جب پانامہ لیکس سامنے آئی اس وقت تو نواز شریف نے عوام سے دو منٹ خطاب کیا
اور کہا کہ میرا تو اس میں نام ہی نہیں لہذا مجھے کوئی فکر نہیں ۔اس دو منٹ
کے خطاب کے علاوہ نواز شریف نے عوام کے سامنے اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کی اس
طرح کوشش نہیں کی جس طرح عمران خان کرتے رہیں ۔ ہر فورم پر عمران خان نے
اپنے مالی معاملات کی وضاحت پیش کی دوسری طرف نواز شریف کبھی لندن تو کبھی
دبئی ، عوام کے سامنے تو وہ کبھی پیش ہی نہیں ہوئے مگر جب عدالت میں ہار
گئے تو انہیں عوام بھی یاد آگئی اور انکے ووٹ کا تقد س بھی ۔ کیا نواز شریف
کی ڈکشنری میں عوام کے ووٹ کا تقدس صرف اس وقت پائمال ہوتا ہے جب عدالت
نواز شریف کو نا اہل قرار دیتی ہے ؟ ووٹ کا تقدس اس وقت پائمال کیوں نہیں
ہوتا جب نواز شریف وزیر اعظم بننے کے بعد عوام سے منہ موڑ لیتے ہیں ؟شائد
اس وقت ووٹ کے تقدس کے معانی بدل جاتے ہیں۔حیرت کی بات ہے تیس پینتیس سالہ
سیاسی تجربے کے باوجود اورتین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے کے
بعد بھی نواز شریف کی سیاسی بصیرت انہیں صحیح راستہ کیوں نہیں دکھا رہی ؟
کیوں نواز شریف کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ہوا کے مخالف رخ چلنا اور
پانی کے بھاؤ کے مخالف تیرنا آسان نہیں ہوتا۔ میاں صاحب کو کیوں سمجھ نہیں
آرہا کہ جب ہواؤں کا رخ بدل جائے تو پھر بادبان لپیٹ لینا چاہیے ۔ میاں
صاحب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جس سیاسی زمین پر وہ کھڑے ہیں اسکی قانونی
ملکیت اب انکے پاس نہیں رہی ۔
ادھر عمران خان کی سیاسی بصیرت بھی شائد اب تھک گئی ہے اور آرام کرنا چاہتی
ہے کیونکہ عمران خان کی طرف سے بھی جو اشارے آرہے ہیں وہ اس بات کی غماضی
کر تے ہیں کہ شائد انہیں آرام کی ضرورت ہے اوروہ کچھ وقت سستانا چاہتے ہیں
لیکن وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ انکی سیاسی بصیرت جاگتی رہے کیونکہ اگر
عمران خان نے سیاسی دباؤ جاری نہ رکھا اور نون لیگ کو سانس لینے کی مہلت دے
دی تو یہ عمران خان کی ایک بڑی سیاسی غلطی ہوگی جس کی قیمت 2018کے الیکشن
میں ادا کرنا پڑئے گی۔ مبصرین کی کثرت رائے یہ ہے کہ نا اہلی کے بعد نواز
شریف کی مقبولیت کا گراف بلند ہوا ہے اور اسکا بیعانیہ عوام میں مقبول ہو
رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان اور انکی جماعت بحیثیت مجموعی اسوقت
اتنے سر گرم نظر نہیں آرہے جتنا انہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے نواز شریف
کو Political Spaceملنا شروع ہو گئی ہے ۔ جیسے جیسے عمران خان کی سرگرمیاں
کم ہو رہی ہیں ویسے ویسے نواز شریف کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور
جتنا نواز شریف سیاسی طور پر متحرک ہو رہے ہیں اتنا ہی وہ مقبول ہو رہے ہیں
۔ جتنا عمران خان پیچھے ہٹ رہے ہیں اتنا نواز شریف آگے بڑ ھ رہے ہیں ۔
ہواؤں کے چلنے کا ایک اصول ہے جب ایک جگہ ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے تو دوسری
طرف سے ہوائیں کم دباؤ والے علاقے کی طرف چلنا شروع کر دیتی ہیں اوردباؤ کی
کمی کو پورا کرتی ہیں اور اگر اس جگہ ہوا کا دباؤ بہت زیادہ کم ہو تو پھر
ہوائیں انتہائی تیزی سے کم دباؤ والے علاقے کی طرف چلتی ہیں اور بڑی جلدی
ہوا کے دباؤ میں کمی کو پورا کر دیتی ہیں ۔ ایسی ہی ہوائیں اکثر سیاست میں
بھی چلتی ہیں ۔ جب ایک سیاسی جماعت میدان خالی چھوڑ دیتی ہے تو پھر دوسری
جماعت اس جگہ کو پر کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ کراچی میں Post-MQMصورت حال
ہمارے سامنے ہے وہاں ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھرنے کے بعد دوسری سیاسی
جماعتیں جگہ گھیرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ اب اگر عمران خان بھی پیچھے ہٹیں
گے تو پھر نون لیگ تو جگہ گھیرے گی اور نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ بھی
ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی سیاسی بصیرت کو جگائے رکھتے ہیں
یا پھر اسے تھپکیاں دیکر سلا دیتے ہیں ۔ مگر ہر صاحب رائے کی یہی رائے ہے
کہ یہ وقت عمران خان کے جاگنے کا ہے سونے کا نہیں ۔ الیکشن سر پہ کھڑے ہیں
اگر وقت پر صحیح فیصلہ نہ کیا تو پھرشائد عمران خان یہ پوچھتے پھریں کہ
مجھے کیوں ہرایا؟ |