سپریم
کورٹ نے میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل اور بطور صدر مسلم
لیگ(ن) ان کے تمام اقدامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو
نواز شریف کا نام بطور صدر پارٹی تمام ریکارڈ سے ہٹانے کا حکم دیا ہے۔اس
سلسلے میں پانچ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نااہلی کے
بعد بطور صدر مسلم لیگ نواز شریف کے تمام اقدامات ختم کردیے گئے ہیں۔ فیصلے
میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا کہ وہ پارٹی صدر کے طور پر نواز شریف کا
نام ہٹادے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد عملدرآمد کا آغاز کرتے ہوئے
الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے ریکارڈ سے نواز شریف کا نام بطور صدر
ہٹادیا ہے، جو 28 جولائی 2017ء سے ختم سمجھا جائے گا۔ وزارتِ عظمیٰ سے
نااہلی کے بعد نواز شریف کے خلاف یہ دوسرا فیصلہ ہے جو سپریم کورٹ سے آیا
ہے، اس فیصلے کو اسی تاریخ سے نافذ کردیا گیا ہے جب انہیں وزارت عظمیٰ کے
لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے کے
فوری بعد وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیا تھا اور اپنی پارٹی کی صدارت بھی
چھوڑ دی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان سے پارٹی کے رہنما سردار یعقوب
ناصر کو قائم مقام صدرمنتخب کرلیا تھا۔ البتہ بعد میں انتخابی اصلاحات کے
قانون کی شق 203میں ترمیم کردی گئی جس کے تحت نواز شریف کو دوبارہ صدر
منتخب کرلیا گیا تھا، جو اب اسی تاریخ سے کالعدم ہوگئے ہیں جب وہ وزارتِ
عظمیٰ کے لیے نااہل ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ 2 اکتوبر 2017ء کو انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی منظوری کے بعد
نواز شریف 3 اکتوبر کو بلا مقابلہ پارٹی صدر منتخب ہوئے، جسے تحریک انصاف،
عوامی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو انصاف کے بنیادی تقاضوں کے
منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے ایوب خان اور پرویز مشرف
کا آمرانہ اور جمہوریت کش کالا قانون بحال ہو گیا۔ ایک سیاسی جماعت سے اس
کا سربراہ چننے کا جمہوری حق چھین لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر وزیر
مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تعصب پر
مبنی ہے، اس میں صرف ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا، مسلم لیگ (ن) پاکستان کی
سب سے بڑی جماعت ہے، اس فیصلے کا مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف پر کوئی اثر
نہیں ہوگا، نواز شریف جس پر ہاتھ رکھیں گے وہ وزیر اعظم ہوگا۔ انہوں نے کہا
کہ سینیٹ کے الیکشن کسی کی بھی وجہ سے ملتوی ہوئے وہ پاکستان اور جمہوریت
کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اپوزیشن نے اسے تاریخی فیصلہ سے تعبیر کیا ہے، پی
ٹی آئی کارکنان نے ملک بھر میں عدالتی فیصلہ پر جشن منایا۔ پاکستان تحریک
انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے اور
ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ پاکستان میں قوانین کی سربلندی ہونی چاہیے۔ ایم
کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک آئینی
اور ریاستی ادارہ ہے، اسی ادارے نے آج نوازشریف کو پارٹی سربراہ کی حیثیت
سے نا اہل قرار دیا ہے، مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو اس فیصلے سے اختلاف ہو
سکتا ہے لیکن آئینی ادارے کے فیصلے کو ماننا اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن)
نے اکثریت کے بل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو روندا تھا، جس کا یہ نتیجہ تو
نکلنا تھا۔ مسلم لیگ (ن) تصادم کرکے سینیٹ اورعام انتخابات کا التوا چاہ
رہی تھی، اب (ن) لیگ عدالتی فیصلے کی آڑ میں انتخابات کے التوا کی خواہش
پوری کرنے کی کوشش کرے گی۔ بعض ماہرین نے کہا کہ یہ فیصلہ ظاہرکرتا ہے کہ
انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی زوروں پر ہے اور اس کشمکش میں
نقصان بالآخرعوام کا ہی ہونا ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دوسری بار نااہل ہوجانے کے بعد مسلم لیگ
(ن) قیادت کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے
الیکشن قوانین میں ترامیم کے بل کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد نواز
شریف کو ایک مرتبہ پھر یہ مشکل درپیش ہے کہ اب کس کو اپنی جگہ مسلم لیگ ن
سربراہ بنایا جائے۔ عام انتخابات سے چند ماہ قبل جماعت کی سربراہی کس نئے
شخص کو سونپا اور وہ بھی ایک ایسی جماعت کی سربراہی جو نہ صرف اپنے نام سے
بلکہ اپنی تنظیم کے اعتبار سے بھی صرف ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہو اس کا
سربراہ کسی اورکو مقرر کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں ہے۔ نواز شریف کی جماعت
کی سربراہی ختم ہوتے ہی مقامی ذرائع ابلاغ میں مسلم لیگ کے آئندہ صدر کے
ناموں کے بارے میں قیاس آرائیاں اور ذرائع کے حوالے سے خبریں آنا شروع ہو
گئی ہیں۔ پنجاب ہاؤس میں نواز شریف کی زیر صدارت پارٹی اجلاس منعقد ہوا جس
میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی حکمت عملی اور سینیٹ الیکشن کے حوالے
سے غور کیا گیا۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نواز شریف نے رفقا سے
صلاح و مشورے کیے، اجلاس میں سینیٹ الیکشن اور آئندہ عام انتخابات کے حوالے
سے گفتگو سمیت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی حکمت عملی پر بھی غور کیا
گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کلثوم نواز کو (ن) لیگ کا مستقل صدر بنانے پر
اتفاق کرلیا گیا ہے۔ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اجلاس میں کسی رہنما نے نواز
شریف کے چھوٹے بھائی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پارٹی صدر بنانے
کا مشورہ نہیں دیا۔ یاد رہے کہ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ سے نااہلی کے
بعد بھی میاں شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنانے کا اعلان کیا تھا، لیکن بعد
میں یہ فیصلہ بدل دیا گیااور پارٹی کا صدر یعقوب خان ناصر کو بنا دیا گیا
تھا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو پارٹی کے سربراہ بنانے کی
سب سے زیادہ مخالفت شریف خاندان کے اندر سے ہی ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کے
اْن کو اس سے قبل بھی پارٹی کا سربراہ بنانے کا اعلان کرنے کے بعد فیصلہ
تبدیل کر دیا گیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیماری کی حالت میں کلثوم
نواز کے لیے پارٹی کی صدارت سنبھالنے کے بعد فعل کردار ادا کرنا تقریباً
ناممکن ہوگا، لیکن اگر اس کے باوجود ان کو صدر بنایا جاتا ہے تو شریف
خاندان کے اختلافات کی خبروں کو مزید تقویت ملے گی۔ دوسری جانب میڈیا کا
کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے شہباز شریف یا شاہد خاقان عباسی کو
پارٹی صدر بنانے کی تجویز دی، جس پر اب مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی جگہ
شہباز شریف کو پارٹی صدر بنانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے اور اس بات کی نواز
شریف کے قریبی دوستوں نے تصدیق کی ہے، تاہم پارٹی قائد کی حیثیت نواز شریف
کے پاس ہی رہے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے صدر کے لیے نام سامنے آنے پر ن
لیگ کے بیشتر رہنماؤں نے شہاز شریف کے نام پر اتفاق کیا اور کہا کہ شہباز
شریف ایک غیر متنازع شخصیت ہیں اور ان کی آمد سے اداروں کے درمیان تصادم
میں کمی آنے کا امکان ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات سے متعلق پاکستان
مسلم لیگ (ن) کی درخواست مسترد کر دی ہے، جس میں الیکشن کمیشن سے کہا گیا
تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے نئے امیدواروں کے سینیٹ انتخابات کے لیے جاری
کردہ ٹکٹس قبول کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق نے سینیٹ کے
انتخابات کے لیے پارٹی ارکان کو نئے ٹکٹ جاری کیے تھے اور یہ ٹکٹ الیکشن
کمیشن میں جمع کرائے گئے تھے۔ اس سلسلے میں راجہ ظفرالحق کا کہنا تھا کہ
بطور چیئرمین مسلم لیگ (ن) ان کے پاس پارٹی ٹکٹس جاری کرنے کا اختیار ہے۔
الیکشن کمیشن نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اب (ن) لیگ
کے امیدوار آزاد حیثیت میں سینیٹ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، جبکہ امیدوار
کامیابی کی بعد (ن) لیگ سے وابستگی اختیار نہیں کر سکتے۔ الیکشن کمیشن کے
مطابق سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے تحت اب کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نئے
ٹکٹس جاری نہیں کیے جا سکتے۔ الیکشن کمیشن کے انکار کے بعد مسلم لیگ (ن)
بطور جماعت سینیٹ کے انتخابات سے باہر ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ
آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے کہ سینیٹ الیکشن کے شیڈول کے تحت
چونکہ انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے، اس لیے اب یہ نہیں ہو سکتا کہ محض ایک
پارٹی کو الیکشن کا حصہ بنانے کے لیے انتخابات کا شیڈول تبدیل کر دیا جائے
یا انتخابی عمل کو از سرِ نو شروع کیا جائے۔ اس ساری صورتحال سے یہی ظاہر
ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اس وقت ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن
کے لیے موجودہ بحران سے بچنے کا ایک ممکنہ طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ چونکہ
الیکشن ایکٹ 2017ء کا معاملہ عدالت کے زیر غور تھا، اس لیے پارٹی قیادت
احتیاط سے کام لیتی اور کسی اور شخص کا بطور پارٹی صدر انتخاب کر لیتی اور
وہ سینیٹ کے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتا تاکہ نواز شریف کی ممکنہ نااہلی کی
صورت میں یہ بحران پیدا نہ ہوتا، جس کا پارٹی کو اس وقت سامنا ہے، لیکن اس
معاملے پر توجہ نہ دی گئی، جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اب
سینیٹ کے الیکشن سے ہی باہر ہو گئی ہے۔ اس وقت ملک طرح طرح کے وسوسوں کی زد
میں ہے اور بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سینیٹ
کے انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے، حتیٰ کہ ملک کے جمہوری مستقبل کو بھی
سینیٹ کے انتخابات کے کامیاب انعقاد سے مشروط کیا جا رہا ہے، کیونکہ سینیٹ
کے انتخابات کے بعد ہی، جون میں ملک بھر میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہو
گی۔ ایسے میں تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے، الیکشن کمیشن کی جانب
سے سینیٹ انتخابات سابقہ شیڈول کے مطابق کروانے کا فیصلہ جمہوری روایات کو
مستحکم کرنے کا باعث بنے گا۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی یہ فیصلہ کھلے دل سے
تسلیم کرنا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ کا وزیراعظم کے عہدہ سے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد
اب یہ دوسرا غیرمعمولی فیصلہ ہے جس کے سیاسی حلقوں، مبصرین اور قانونی
ماہرین کے مطابق بڑے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان دوررس اثرات کی
نوعیت کیا ہوگی یہ تو چند ماہ کے اندر اندر ہی معلوم ہو جائے گا کیونکہ
اتفاق سے یہ انتخابات کا سال ہے جو جولائی میں متوقع ہیں ۔ سْپریم کورٹ نے
ایک تاریخی اور تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے۔ سنجیدہ سیاسی مکاتب فکر نے زور دیا
ہے کہ ہوش مندی سے کام نہ لیا گیا تو جمہوری نظام کو نقصان سے کوئی نہیں
بچا سکتا۔ جب کہ ٹکراؤ سے ریاستی معاملات تک سوالیہ نشان بن جائیں گے۔ ملک
کے ممتاز ماہرین قانون نے ارباب اختیار، عدلیہ اور سیاسی قائدین سے اپیل کی
ہے کہ وہ کشادہ نظری اور تصادم سے گریز کرتے ہوئے جمہوری اسپرٹ کا مظاہرہ
کریں، ن لیگ کے لیے قانونی لڑائی کے سارے آپشن کھلے رہنے چاہئیں۔ شدید
خطرات سر اٹھا رہے ہیں، اس لیے لازم ہے کہ اس کشمکش کا دی اینڈ خوشگوار ہو
اور انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ بشمول میڈیا مکمل معروضیت اور سنسنی خیزی سے
بالاتر رہتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے ماحول سازگار کریں، جب
کہ صائب رائے بھی یہی ہے کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچنے سے پہلے مقتدر
سیاستدان مل بیٹھ کر اس بحران اور تلاطم خیز صورتحال کے خاتمہ کے لیے عملی
کوشش کریں، ورنہ تاریخ سب کو بے عملی کا مجرم گردانے گی۔ ملک کو درپیش
صورتحال کے سیاق و سباق میں جمہوری نظام کو اگر کوئی دھچکا لگا تو حکومت
اور عدلیہ کے مابین ایک اعصاب شکن کشمکش کے باعث مارچ تک صورتحال کے مزید
تہلکہ خیز رہنے کا امکان رہے گا۔ بلاشبہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے لیے
عدالتی فیصلوں کے خلاف تصادم کی حکمت عملی جمہوری عمل کو بھی ڈی ریل کرسکتی
ہے ۔ |