آزادکشمیر میں آئینی الجھاؤ سلجھاؤ اور کنٹرول لائن کے بہادر عوام

آزادکشمیر میں آئینی الجھاؤ سلجھاؤ اور کنٹرول لائن کے بہادر عوام

بھار ت کی قابض افواج کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر خونی درندے والا سلوک جاری ہے جس کی فوج اپنے مورچوں سے ایمبولینس سکول وین کو نشانہ بنا چکی ہے اور معصوم شہریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے بزرگ ‘ خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ خوف و ہراس پھیلا کر عوام کو اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کیا جا سکے مگر سیز فائر لائن کے عوام نے ہمیشہ سے اپنے سینوں پر گولہ باری تک کا مردانہ وار مقابلہ کر کے پیچھے ہٹنے کے بجائے شہادت کو اپنے لیے سب سے افضل سعادت سمجھا ہے یہی وہ جذبہ ہے جو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تحریک کی قوت ہے جو اپنے لخت جگر جوانوں بچوں کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر تدفین کرتے ہیں اور ان کی تائید و حمایت میں آزادکشمیر کنٹرول لائن پر بسنے والے عوام بھی جانوں کی قربانی کو فریضہ سمجھتے ہیں جن کی قربانیاں وطن و ملت کیلئے حیات جادواں ہیں ‘ امریکہ ‘ برطانیہ ‘ چین ‘ ترکی ‘ فرانس ‘ انڈونیشیا کے دفاعی اتاشیوں نے کنٹرول لائن کا دورہ کیا ‘ سیز فائر لائن کے عوام سے ملاقاتیں بھی کیں ‘ اور پاک افواج کی طرف سے بریفنگ بھی لی ‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مقبوضہ کشمیر کے اندر اور سیز فائر لائن پر بھارتی فوج کے ظلم و ستم کیخلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے مبصرین کی تعداد میں اضافے ان کے متاثرہ علاقوں کے دوروں کے لیے توجہ دی جائے ‘ متاثرین سیز فائر لائن کیلئے محفوظ بنکرز اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے متعلق عملی معنوں میں حوصلہ افزاء اقدامات فراخدلانہ انداز میں یقینی نظر آئیں تو حکومت پاکستان ‘ حکومت آزادکشمیر دشمن کی گولہ باری ‘ فائرنگ سے شہید ہونیوالوں کیلئے اعزازات و انکے درمیان جا کر ایک دِن ایک رات گزارنے ‘ حوصلہ بڑھانے کے جوش کا مظاہرہ کرے ‘ اس کام کیلئے کوئی اختیار وسائل درکار نہیں ۔ صرف جرات اور موت کا وقت اٹل ہے ‘ اس ایمانی تقاضے پر یقین کامل چاہیے ‘ یہ بہت خوش آئند امر ہے ‘ اختیار وسائل کے الجھاؤ کے حوالے سے سلجھاؤ پر ناصرف آزادکشمیر کی ساری قیادت ‘ عوام متفق ہیں بلکہ اسلام آباد کے حکومتی ایوانوں سے لیکر سب ہی سیاسی قیادت اور دفاع سے سفارتکاری تک کے لازم و ملزوم دِل و دماغ بھی فاٹا ہو یا گلگت بلتستان آزادکشمیر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے وسعت قلبی رکھتے ہیں ‘ ایک وقت آیا جب بلوچستان میں قومی نظام نے اپنی بالادستی قائم کرتے ہوئے بڑے بڑے نام کے افرادی جبر و محکومی کا زور توڑ دیا تو لاکھوں بلوچ دوسرے صوبوں سے واپس جا کر بلوچستان دوبارہ آباد ہوئے جن کا اعتماد بحال ہوا تو اس کا ہی نتیجہ تھا وہ عام انتخابات جن کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت تشکیل دی ‘ اس میں بلوچستان سے مسلم لیگ ق کو پورے ملک کی نسبت زیادہ ووٹ ملے مگر اپنی اپنی سرداری ‘ سسٹم بحال ہونے لگا تو پھر گڑ بڑ شدت اختیار کر گئی ‘ اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب اسلم ریئسانی نے کہا کہ ہم کشمیر (مقبوضہ کشمیر) سے جان چھڑا لیں تو بلوچستان میں امن ہو جائے گا ‘ جس کا مطلب تھاپاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تائید و حمایت کے باعث بھارت بلوچستان میں گڑ بڑ کرواتا ہے ‘ ان کی غیر سنجیدہ کیفیت ‘ مزاج کے باعث ان کی یہ بات بھی سنی اَن سُنی ہو گئی مگر اس کے اہم پہلو اسلام آباد ‘مظفر آباد ‘ گلگت کا سری نگر کے تناظر میں جڑے رہنا ہے ‘ جس کے سامنے باقی تمام چیزیں حقائق چاہے جتنی بھی اہمیت کے حامل ہوں کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں ‘ جس کا ادراک عام آدمی یا افراد کیلئے ہونا ضروری نہیں ‘ بلکہ نظام اور قیادت سے جڑے لوگوں کیلئے سب پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے ‘ بھارتی دارالحکومت دلی سمیت اکثریتی ہندو علاقوں میں مسلمانوں بزرگ ‘ مرد و خواتین ‘ نوجوان بچوں کو جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں آئے روز کی تذلیل اور دردناک تشدد اپنے بتوں کا نعرہ لگوانے ‘ مسلم پاکستان مردہ بادکے نعرے لگانے کا قہر سوشل میڈیا پر کلپوں کے ذریعے سامنے آتا رہتا ہے ‘ نیشنل الیکٹرانک ‘ پرنٹ میڈیا کو یہ حال اپنی عوام کو دکھانا چاہیے ‘ جس طرح بھارتی میڈیا پاکستان اور حریت پسند کشمیریوں کیخلاف پراپیگنڈہ مہم چلاتا ہے ‘ صرف اپنے اندر ہی نہیں ارد گرد ‘ قریب ‘ دور سب حقائق ان کی اہمیت اور افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے ‘ آزادکشمیر ‘ گلگت بلتستان کونسل کا ہونا نہ ہونا یا کس شکل میں ہونا ذرا برابر بھی اہمیت کا حامل پہلو نہیں ہے ‘ بلکہ گزشتہ اسمبلی میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی صدارت میں پیپلز پارٹی ‘ قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں ن لیگ ‘ بیرسٹر سلطان کی صدارت میں تحریک انصاف ‘ سردار عتیق کی قیادت میں مسلم کانفرنس سمیت تمام جماعتوں ‘ مکاتب فکر کی تائید و حمایت سے قانون ساز اسمبلی میں منظور کردہ آئینی اصلاحات ہی پر عملدرآمد لازمی ہے ‘ نام نہیں کام کا طریقہ بدلنے پر عمل ہونا اصل مقصد ہوتا ہے ‘ جس پہ خطہ کی تمام قیادت کا اتفاق ‘ پیش رفت کا حامل ہونا چاہیے ‘ اوروزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو اپنی کابینہ کا اجلاس بلا کر پہلی فرصت میں اس اعزاز و سعادت سے سرفراز ہونا چاہیے تو یہاں آزادکشمیرمیں بھی عوام کے مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے ‘ شاہد آفریدی کی طرح چھکے لگانے کے شوق میں نواز شریف کی طرح اعزازات کے حصول سے پہلے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرا دیں جو عوام چاہتے ہیں ۔بقول شاعر
ہمیں بھی جلوہ گاہ ناز پر لے کر چلو موسیٰ
تمہیں غش آگیا تو حسن جاناں کون دیکھے گاچچچ

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 5 Articles with 2953 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.