پیش لفظ
اوپر، نیچے اور درمیان میں
زندگی کبھی ایک ٹھاٹھیں مارتا تو کبھی سکون سے بہتا دریا ہے۔ دریا کی سطح
پر وقتی طور پر کچھ بلبلے ابھرتے ہیں۔ ان بلبلوں کا وجود دریا کے مقابلے
میں بے معنی دکھائی دیتا ہے۔ ان بلبلوں کے لیے اپنا اور دریا کا وجود ایک
معمہ ہوتا ہے۔
ان بلبلوں کے ذہن میں یہ سوال کلبلاتے ہیں: یہ دریا کہاں سے اور کیوں آیا۔
میری زندگی کا مقصد کیا ہے، میری موجودگی اور غیر موجودگی سے دریا کو کوئی
فرق پڑتا ہے یا نہیں؟
بلبلے تین مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہیں۔
اوپر والے: دریا کی لا متناہیت میں ہماری یہ مختصر زندگی کسی بڑے منصوبے کا
حصہ ہے۔ بنانے والے نے کچھ سوچ کر ہی ہمیں تخلیق کیا ہے۔ ہمیں اپنے بنانے
والے کو پہچاننا ہے۔
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
نیچے والے: ہماری یہ مختصر زندگی بے مقصد اور محض اتفاقیہ ہے۔ یہ جاننے کی
تگود و معنی ہے کہ ہمیں اور اس دریا کو کس نے اور کیوں بنایا ہے۔ یہ سب بے
معنی تماشا ہے۔
حاصل کن ہے یہ جہان خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں (جون ایلیا)
درمیاں والے: دریا کی روانی میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ کبھی لگتا ہے کوئی
مقصد ہے اور کبھی لگتا ہے سب بے معنی ہے۔ آخر کنفیوثن ختم کیوں نہیں ہوتی۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
کچھ بلبلے پیدائشی طور پر اوپر نیچے اور درمیاں والے ہوتے۔ جیسے بھی حالات
ہوں وہ اسی مائنڈ سیٹ میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں یہ مائنڈ سیٹ دھیرے
دھیرے بنتا ہے۔ اسی دوران اوپر نیچے اور درمیاں کی چھلانگیں لگتی ہیں۔ ایک
بار یہ مائنڈ سیٹ پختہ ہو جائے تو ہر واقعہ اسی کے تحت انٹرپریٹ ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ فنا ہونے سے پہلے کوئی کیا مائنڈ سیٹ رکھتا ہے۔ ایمان
اللہ کی عطا ہے وہ جسے چاہے دے دے۔
یہ بھی کچھ بلبلوں کی اوپر نیچے اور درمیاں کی کہانی ہے۔ |