بے قراری سی بے قراری ہے (قسط ٢)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ میں بے نقاب اور ننگے سر ہوں۔
اس کی صورت دیکھتے ہی میرے سینے میں ٹھنڈک پڑ گئی۔
میرا سارا ڈیپریشن ختم ہو گیا۔ دل چاہا، اس کے سینے سے لگ جاؤں۔
یہ سب خواب جیسا تھا۔
لیکن وہ واپس کیوں آیا؟
یقیناً اسے میری معصومیت کا دل سے یقین ہے۔ اسی لیے ساری مخالفتوں کے باوجود وہ مجھے اپنانے آیا ہے۔
ایک لمحے میں میرے سارے غم دھل گئے۔ تاریک نظر آنے والا مستقبل، سہانا ہو گیا۔
اس نے شاید کبھی میری تصویر دیکھی ہو۔ مگر یوں بے نقاب کبھی نہیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے تاثرات بدل گئے۔ کچھ لمحوں کے لیے وہ پتھر کا بت بن گیا۔۔
میں اس کی آنکھوں کے تاثرات نہ سمجھ سکی۔ میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تواسے دیکھ کر ہی ختم ہو گئی۔ ایک خیال آیا کہ کاش وقت رک جائے۔
اسی لمحے اس کی آنکھوں میں فوراً شدید غصے کی لہر اٹھی۔
ایک زور دار تھپڑ مجھے خواب سے باہر لے آیا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال تھا۔ یوں لگا کہ وہ بڑی مشکل سے خود کو کچھ کرنے سے روک رہا ہو۔
تھپڑ اتنی زور سے لگا کہ میں سائیڈ پر گر گئی۔ میرا سر جھن جھنا گیا۔ دکھ کے مارے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
میں تڑپ کر اٹھی اور اس سے کچھ کہنے ہی والی تھی، کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا۔
بس عبیر! کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ میں سب جان چکا ہوں۔ تمھاری کوئی وضاحت میرا دل صاف نہیں کر سکتی۔
میرا بس نہیں چل رہا کہ۔ ۔
یہ کہتے ہی اس نے سامنے دیوار پر زور سے مکا مارا۔ اس کی آنکھوں میں بے بسی صاف دکھنے لگی۔ جیسے کسی شیر کو جکڑ دیا ہو۔
عبیر! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کہ۔ ۔ ۔ کہ تم پیسے کی چکا چوند سے اتنی جلدی کرپٹ ہو جاؤ گی۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آ گئی۔
صحیح کہتے ہیں ! سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بس ظاہری روپ بدلتے ہیں۔
تم تو اپنی پارسائی کی وجہ سے مجھے چہرہ بھی نہیں دکھاتی تھیں۔ پھر۔۔ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ تم۔ ۔ ۔۔
اسے بھی تم نے اپنی معصومیت سے شکار کیا ہو گا۔ ہے نا؟
وہ دادی کا وعدہ، وہ پردہ داری!
کیا صرف امیر لڑکوں کو پھنسانے کے بہانے تھے؟
کاشف میری بات تو سنو۔
بس عبیر!
مجھے مزید غصہ مت دلاؤ کہ میں کچھ اور کر گزروں۔
میں گھر سے یہ فیصلہ کر کے نکلا تھا آج تمھاری بھی جان لوں گا اور اپنی بھی۔ تمھارا یہ خوبصورت چہرہ دیکھ کر میرا غصہ آدھا رہ گیا ہے۔
میں اس چہرے کو دیکھنے کے لیے کتنا تڑپتا رہا۔ آج اسے اپنے ہاتھوں سے کیسے مٹادوں۔
اس کی آواز بھرا گئی۔
تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیاعبیر۔۔
میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ تیزی سے دروازہ بند کر کے چلا گیا جیسے اگر مزید رکا تو اپنے جذبات پر قابو نہ کر سکے گا۔
اس کی باتیں میرے سینے میں گرم سلاخوں کی طرح گھستی گئیں۔
میرا سانس لینا محال ہو گیا۔
میرے ذہن میں بس ایک ہی جملہ گونجنے لگا
میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔ میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔
میری پاکیزگی سے اسے محبت تھی۔
اب اس کی نظروں میں میری پاکیزگی میں ختم ہو گئی ہے۔
آج اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا
میری کوئی دلیل اس کے دل میں میری محبت بحال نہیں کر سکتی۔
میری پاکیزہ محبت ختم ہو گئی۔
محبت جو میری زندگی تھی۔
اب میری کوئی زندگی ہی نہیں۔
محبت کے بنا یہ زندگی کتنی بے معنی ہے
میں جیوں تو کس لیے؟
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
میرا خود پر اختیار ختم ہو گیا۔
یوں لگا یہ چہرہ اور جسم میرا حصہ نہیں۔ میں اس چہرے اور جسم سے علیحدہ ایک وجود ہوں۔ یہ ناپاک جسم اور چہرہ سزا کا مستحق ہے۔ مجھے ان سے نجات پانی ہے۔
میں فوراً ہی کچن میں گئی اور چھری پکڑ کر ایک ہی سیکنڈ میں بائیں کلائی کی نس کاٹ دی۔
میں کچن کی دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی، اور اپنی سفید کلائی سے خون کو نکلتے دیکھنے لگی۔ میرا دل بہت آہستہ آہستہ ڈوبنے لگا۔ آنکھیں کھولنا مشکل ہو گیا۔ ذہن یوں تاریک ہونے لگا جیسے کسی بلڈنگ کی لائٹس آف ہوتی ہیں۔ میری سوچیں بہت آہستہ ہو گئیں، جیسے وقت رک گیا ہو۔
آپ کو دلچسپی ہو گی کہ موت سے پہلے انسان کو کیا دکھائی دیتا ہے، موت کا فرشتہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے، غیب کے پردے ہٹتے ہیں تو اس کے پیچھے کیا ہوتا ہے۔ مگر ان باتوں سے پہلے کچھ عجیب ہوا۔
میری آنکھوں کے سامنے میری پوری زندگی فلم کی طرح چل پڑی۔ عجیب بات ہے کہمیں خود ہی اس فلم کی کردار ہوں اور فلم دیکھنے والی بھی۔ میں اس فلم کی کہانی جانتی بھی ہوں اور نہیں بھی جانتی۔ میں اس کہانی میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ اس فلم کے ختم ہوتے ہی میری زندگی بھی ختم ہو جانی ہے۔
پر آگے کیا ہو گا؟ کیا بس یہی میری زندگی کا مقصد تھا۔
میں تو خود کشی کر رہی ہوں۔ کہیں ابد تک اسی فلم کو دیکھنا ہی میری سزا تو نہیں؟
بچپن کتنی جلدی گزر گیا، کسی پریشانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور مستقبل کے چھوٹے چھوٹے منصوبے تھے۔ گڑیوں کی شادی کرتے یہ خیال آتا جب میں دلہن بنوں گی تو کیسی لگوں گی۔ دادی کی باتیں کتنی انوکھی ہوتیں۔ زندگی دریا کے پرسکون پانی کی طرح ہی تو بہہ رہی تھی۔ پھر اچانک بھنور آ گیا۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔
آغاز ایک خواب سے ہوا۔۔

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 29080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.