ہوا کا جھونکا

عنوان: ہوا کا جھونکا

شہر کے بیچوں بیچ ایک شاندار فلیٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، اریبہ کی نظریں اس بےرحم دنیا پر جمی تھیں، جس نے اسے سب کچھ دیا اور پھر سب کچھ چھین بھی لیا۔ روشنیوں کی چمک، گاڑیوں کا شور، اور عمارتوں کی اونچائی اُسے اب کچھ نہیں کہتی تھی۔ وہ صرف سوچ رہی تھی — "کیا یہ سب مایا تھی؟"

اریبہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے والد ایک اسکول ٹیچر اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ لیکن اریبہ میں قدرتی حسن ایسا تھا جو لوگوں کی نگاہیں کھینچ لاتا۔ لمبے سیاہ بال، پرکشش آنکھیں اور نازک نقوش — وہ جہاں جاتی، لوگ پلٹ کر دیکھتے۔

جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اریبہ کو احساس ہونے لگا کہ اس کے حسن کا اثر مردوں پر کسی نشے سے کم نہیں۔ کالج کے لڑکے، اساتذہ، یہاں تک کہ گلی کے دوکاندار بھی اُس سے متاثر نظر آتے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اس کے دل میں ایک خیال نے جنم لیا — "اگر حسن ہے تو دنیا کو مٹھی میں کرنا کیا مشکل ہے؟"

اس کے خواب اونچے تھے، اور اُن خوابوں میں نہ کوئی اصول تھا، نہ منزل کی اخلاقی شرط۔ ایک دن ایک ماڈلنگ ایجنسی کے ایجنٹ نے اسے ایک تقریب میں دیکھا اور اسے ماڈلنگ کی پیشکش کی۔ اریبہ نے فوراً ہامی بھر لی۔ ماں باپ نے بہت روکا، بہت سمجھایا، لیکن اس کا دل تو جیسے ایک طوفانی ہوا کے جھونکے میں آ گیا تھا۔ وہ جھونکا جو کسی منزل کا پتہ نہیں دیتا، صرف بہا لے جاتا ہے۔

چند مہینوں میں وہ شہر کی مشہور ماڈلز میں شمار ہونے لگی۔ نت نئے فیشن شو، اشتہارات، مہنگی گاڑیاں، برانڈڈ لباس، اور پارٹیوں کی چمک — سب کچھ اس کی جھولی میں آ گرا۔ وہ جس چیز کو انگلی سے اشارہ کرتی، وہ اس کے قدموں میں آ جاتی۔ اب وہ اُس اریبہ سے بہت دور تھی جو ایک چھوٹے گھر کی خاموش فضا میں والدہ کے ہاتھ کی چائے پیا کرتی تھی۔

لیکن پیسے کا نشہ سب سے تیز ہوتا ہے، اور حسن کا ساتھ جب پیسے کو مل جائے، تو انسان کو زمین پر چلنا بھی مشکل لگنے لگتا ہے۔

ایک روز، ایک ارب پتی تاجر، فرحان ملک، اُس کی زندگی میں آیا۔ وہ چالیس کے پیٹے میں تھا، لیکن دولت کی ریل پیل نے اسے ہر جوان چیز کا طلبگار بنا دیا تھا۔ اس نے اریبہ کو نہ صرف قیمتی تحائف دیے، بلکہ ایک فلیٹ، گاڑی، اور کریڈٹ کارڈ بھی۔ اریبہ کو لگا کہ شاید اب اس کی قسمت مکمل ہو گئی ہے۔

مگر یہ سب زیادہ دیر نہ چلا۔

چند سالوں بعد، ایک نئی ماڈل منظرِ عام پر آئی — نازش۔ وہ جوان تھی، خوبصورت تھی، اور وہی جھونکا بن گئی جو کبھی اریبہ تھی۔ فرحان ملک بھی ایک نئی مایا کے پیچھے چل پڑا۔ اریبہ کے کریڈٹ کارڈ بند ہو گئے، فلیٹ خالی کرانے کا نوٹس آ گیا، اور دعوتوں میں بلانا بند ہو گیا۔

وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے چہرے کو غور سے دیکھتی۔ وہی نقوش تھے، مگر اُن میں وہ چمک، وہ تازگی، وہ جوانی نہیں رہی تھی۔ یہ احساس سب سے تلخ تھا کہ حسن ایک لمحہ ہے — اور لمحہ گزرتے دیر نہیں لگتی۔

چند مہینوں میں وہ پرانی ہو گئی۔ جیسے اخبار کا پرانا صفحہ، جو کسی کونے میں پڑا رہتا ہے، بس جلانے کے کام آتا ہے۔

اب اریبہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی تھی، جو اُس نے ماڈلنگ کے دنوں میں خریدا تھا۔ وہ اکثر سوچتی تھی — "کیا یہ سب خواب تھا؟ یا فریب؟"

ایک دن پارک میں بیٹھی، ایک لڑکی کو دیکھا جو سیلفی لینے میں مصروف تھی۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی کبھی وہ تھی — حسین، خود اعتماد، اور مغرور۔ اریبہ کے لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ آئی، لیکن آنکھوں میں نمی بھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ لڑکی بھی ایک دن اُسی ہوا کے جھونکے میں اڑ جائے گی جس میں وہ خود کبھی اُڑی تھی۔

اسی لمحے ایک چھوٹی سی بچی اس کے پاس آئی اور بولی:
"آنٹی، آپ بہت پیاری ہیں، آپ کی کہانی سچی لگتی ہے، آپ نے کبھی فلم میں کام کیا ہے؟"

اریبہ نے پیار سے اس کے بال سنوارے اور کہا:
"بیٹا، میں نے زندگی کی فلم میں کام کیا ہے، اور سیکھا ہے کہ جو چیز نظر کو بھاتی ہے، وہ ہمیشہ ساتھ نہیں دیتی۔"

بچی ہنس کر چلی گئی، لیکن اریبہ کی آنکھوں میں ایک سکون سا آ گیا۔ شاید اس نے پہلی بار خود کو پہچانا تھا — نہ حسن کی دیوی، نہ فیشن کی رانی، بس ایک عام عورت، جس نے مایا کے فریب میں سب کچھ پایا، اور سب کچھ کھویا۔

اس دن وہ دیر تک پارک میں بیٹھی رہی۔ ہوا کے جھونکے اُس کے بالوں کو چھو کر گزر رہے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ یہ جھونکا کبھی مستقل نہیں ہوتا۔ جیسے جوانی، جیسے پیسہ، جیسے حسن — سب کچھ ایک لمحہ ہے، جو گزر جاتا ہے، پیچھے صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔

اور یہ یادیں، اگر ہوش میں رکھی جائیں، تو اگلی نسل کے لیے سبق بن جاتی ہیں۔

خلاصہ:
یہ کہانی اریبہ کے کردار کے ذریعے ہمیں دکھاتی ہے کہ جوانی، پیسہ اور حسن سب مایا ہیں — وقتی، فانی، اور فریب زدہ۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے انسان اکثر اپنی اصل منزل، سکون، سادگی اور خودی کو بھول جاتا ہے۔ لیکن جب حقیقت کا پردہ ہٹتا ہے، تب پتہ چلتا ہے کہ اصل زندگی کیا تھی — اور اکثر تب تک بہت کچھ گنوا دیا جا چکا ہوتا ہے۔

اگر آپ چاہیں تو اس کہانی کو پی ڈی ایف یا کسی اور فارمیٹ میں بھی دے سکتا ہوں، یا اسی پر مبنی ایک نظم یا ڈراما سین بھی لکھ سکتا ہوں۔







عنوان: ہوا کا جھونکا

شہر کے بیچوں بیچ ایک شاندار فلیٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، اریبہ کی نظریں اس بےرحم دنیا پر جمی تھیں، جس نے اسے سب کچھ دیا اور پھر سب کچھ چھین بھی لیا۔ روشنیوں کی چمک، گاڑیوں کا شور، اور عمارتوں کی اونچائی اُسے اب کچھ نہیں کہتی تھی۔ وہ صرف سوچ رہی تھی — "کیا یہ سب مایا تھی؟"

اریبہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے والد ایک اسکول ٹیچر اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ لیکن اریبہ میں قدرتی حسن ایسا تھا جو لوگوں کی نگاہیں کھینچ لاتا۔ لمبے سیاہ بال، پرکشش آنکھیں اور نازک نقوش — وہ جہاں جاتی، لوگ پلٹ کر دیکھتے۔

جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اریبہ کو احساس ہونے لگا کہ اس کے حسن کا اثر مردوں پر کسی نشے سے کم نہیں۔ کالج کے لڑکے، اساتذہ، یہاں تک کہ گلی کے دوکاندار بھی اُس سے متاثر نظر آتے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اس کے دل میں ایک خیال نے جنم لیا — "اگر حسن ہے تو دنیا کو مٹھی میں کرنا کیا مشکل ہے؟"

اس کے خواب اونچے تھے، اور اُن خوابوں میں نہ کوئی اصول تھا، نہ منزل کی اخلاقی شرط۔ ایک دن ایک ماڈلنگ ایجنسی کے ایجنٹ نے اسے ایک تقریب میں دیکھا اور اسے ماڈلنگ کی پیشکش کی۔ اریبہ نے فوراً ہامی بھر لی۔ ماں باپ نے بہت روکا، بہت سمجھایا، لیکن اس کا دل تو جیسے ایک طوفانی ہوا کے جھونکے میں آ گیا تھا۔ وہ جھونکا جو کسی منزل کا پتہ نہیں دیتا، صرف بہا لے جاتا ہے۔

چند مہینوں میں وہ شہر کی مشہور ماڈلز میں شمار ہونے لگی۔ نت نئے فیشن شو، اشتہارات، مہنگی گاڑیاں، برانڈڈ لباس، اور پارٹیوں کی چمک — سب کچھ اس کی جھولی میں آ گرا۔ وہ جس چیز کو انگلی سے اشارہ کرتی، وہ اس کے قدموں میں آ جاتی۔ اب وہ اُس اریبہ سے بہت دور تھی جو ایک چھوٹے گھر کی خاموش فضا میں والدہ کے ہاتھ کی چائے پیا کرتی تھی۔

لیکن پیسے کا نشہ سب سے تیز ہوتا ہے، اور حسن کا ساتھ جب پیسے کو مل جائے، تو انسان کو زمین پر چلنا بھی مشکل لگنے لگتا ہے۔

ایک روز، ایک ارب پتی تاجر، فرحان ملک، اُس کی زندگی میں آیا۔ وہ چالیس کے پیٹے میں تھا، لیکن دولت کی ریل پیل نے اسے ہر جوان چیز کا طلبگار بنا دیا تھا۔ اس نے اریبہ کو نہ صرف قیمتی تحائف دیے، بلکہ ایک فلیٹ، گاڑی، اور کریڈٹ کارڈ بھی۔ اریبہ کو لگا کہ شاید اب اس کی قسمت مکمل ہو گئی ہے۔

مگر یہ سب زیادہ دیر نہ چلا۔

چند سالوں بعد، ایک نئی ماڈل منظرِ عام پر آئی — نازش۔ وہ جوان تھی، خوبصورت تھی، اور وہی جھونکا بن گئی جو کبھی اریبہ تھی۔ فرحان ملک بھی ایک نئی مایا کے پیچھے چل پڑا۔ اریبہ کے کریڈٹ کارڈ بند ہو گئے، فلیٹ خالی کرانے کا نوٹس آ گیا، اور دعوتوں میں بلانا بند ہو گیا۔

وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے چہرے کو غور سے دیکھتی۔ وہی نقوش تھے، مگر اُن میں وہ چمک، وہ تازگی، وہ جوانی نہیں رہی تھی۔ یہ احساس سب سے تلخ تھا کہ حسن ایک لمحہ ہے — اور لمحہ گزرتے دیر نہیں لگتی۔

چند مہینوں میں وہ پرانی ہو گئی۔ جیسے اخبار کا پرانا صفحہ، جو کسی کونے میں پڑا رہتا ہے، بس جلانے کے کام آتا ہے۔

اب اریبہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی تھی، جو اُس نے ماڈلنگ کے دنوں میں خریدا تھا۔ وہ اکثر سوچتی تھی — "کیا یہ سب خواب تھا؟ یا فریب؟"

ایک دن پارک میں بیٹھی، ایک لڑکی کو دیکھا جو سیلفی لینے میں مصروف تھی۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی کبھی وہ تھی — حسین، خود اعتماد، اور مغرور۔ اریبہ کے لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ آئی، لیکن آنکھوں میں نمی بھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ لڑکی بھی ایک دن اُسی ہوا کے جھونکے میں اڑ جائے گی جس میں وہ خود کبھی اُڑی تھی۔

اسی لمحے ایک چھوٹی سی بچی اس کے پاس آئی اور بولی:
"آنٹی، آپ بہت پیاری ہیں، آپ کی کہانی سچی لگتی ہے، آپ نے کبھی فلم میں کام کیا ہے؟"

اریبہ نے پیار سے اس کے بال سنوارے اور کہا:
"بیٹا، میں نے زندگی کی فلم میں کام کیا ہے، اور سیکھا ہے کہ جو چیز نظر کو بھاتی ہے، وہ ہمیشہ ساتھ نہیں دیتی۔"

بچی ہنس کر چلی گئی، لیکن اریبہ کی آنکھوں میں ایک سکون سا آ گیا۔ شاید اس نے پہلی بار خود کو پہچانا تھا — نہ حسن کی دیوی، نہ فیشن کی رانی، بس ایک عام عورت، جس نے مایا کے فریب میں سب کچھ پایا، اور سب کچھ کھویا۔

اس دن وہ دیر تک پارک میں بیٹھی رہی۔ ہوا کے جھونکے اُس کے بالوں کو چھو کر گزر رہے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ یہ جھونکا کبھی مستقل نہیں ہوتا۔ جیسے جوانی، جیسے پیسہ، جیسے حسن — سب کچھ ایک لمحہ ہے، جو گزر جاتا ہے، پیچھے صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔

اور یہ یادیں، اگر ہوش میں رکھی جائیں، تو اگلی نسل کے لیے سبق بن جاتی ہیں۔


یہ کہانی اریبہ کے کردار کے ذریعے ہمیں دکھاتی ہے کہ جوانی، پیسہ اور حسن سب مایا ہیں — وقتی، فانی، اور فریب زدہ۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے انسان اکثر اپنی اصل منزل، سکون، سادگی اور خودی کو بھول جاتا ہے۔ لیکن جب حقیقت کا پردہ ہٹتا ہے، تب پتہ چلتا ہے کہ اصل زندگی کیا تھی — اور اکثر تب تک بہت کچھ گنوا دیا جا چکا ہوتا ہے۔



















 

امبر فاطمہ
About the Author: امبر فاطمہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.