میں نے چیخ کیوں ماری تھی؟ قسط نمبر ۲

خشک و سیاہ ٹہنی پر جگہ جگہ کونپلیں پھوٹی ہوئی تھیں میرا دل قدرت کی اس شان پر اش اش کر اٹھا ۔ میں اس وقت تو وہاں سے واپس آ گئی مگر بعد میں روزانہ یہ بات کسی کے علم میں لائے بغیر میں اپنے طور پر چپکے چپکے اس ٹہنی کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتی رہی چند روز میں پتوں کی بناوٹ نمایاں ہو گئی ۔ وہ دراصل " زخم ِحیات " نامی ایک پودے کی ٹہنی تھی اور یہ پودا قلم سے ہی لگایا جاتا ہے ۔ بےشک اس مردہ سی ٹہنی میں ابھی زندگی کی کوئی رمق باقی تھی جو وہ سازگار ماحول میسر آنے پر پھر سے بارآور ہو اٹھی ۔ اس کے پتّے بڑے ہی سرسبز تروتازہ اور چمکدار تھے میں نے سرخوشی کے عالم میں ایک نسبتاً بڑے پتّے کو پیار سے چُھوا تو یوں لگا جیسے میں نے روئی کے کسی نرم گرم گالے پر ہاتھ رکھ دیا ہو اور اسی وقت یوں محسوس ہؤا جیسے کوئی بچہ قلقاری مار کر ہنسا ہو ۔ میں نے گھبرا کر آس پاس دیکھا بلاشبہ آواز اس پتّے میں سے آئی تھی اگر کوئی بھیانک قسم کی جنّاتی آواز ہوتی تو یقیناً میں پاؤں سر پر رکھ کر بھاگ کھڑی ہوتی مگر وہ آواز کچھ ایسی معصوم اور جادو بھری تھی کہ مجھے ڈر نہیں لگا ۔
اگلے کئی روز تک میں چپکے سے اسی جگہ چلی جاتی تھی اور اس پودے کا جائزہ لیتی تھی جو غیر معمولی رفتار سے نشو و نما پا رہا تھا اور جب میں کسی پتّے کو چھوتی تھی تو وہی بچے کی قلقاری سنائی دیتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے میں نے کسی بچے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ہے اور یہ لمس ہمیشہ دائیں ہاتھ کا ہوتا تھا اور اور مجھے اپنے دائیں ہاتھ پر ہی محسوس ہوتا تھا ۔ میں نے نوٹ کیا کہ جوں جوں پودے کا سائز بڑھ رہا ہے قلقاری کی آواز میں بھی تبدیلی آتی جا رہی ہے اور ہاتھ کا لمس کچھ دبیز ہوتا جا رہا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ پودا اپنے عام قدرتی سائز کے مطابق تناور اور بلند ہو گیا اور اس پر کاسنی رنگ کے بھونپو نما پھول بھی کھل گئے قلقاری کی آواز ایک ہلکی سی ہنسی میں بدل گئی اور نرم سے ننھے مُنے ہاتھ کا وہ لمس ایک مضبوط مردانہ ہاتھ کا لمس بن گیا ۔ اب میں جب بھی کسی پتّے کو چھوتی تو مجھے ایسا لگتا جیسے میں نے اپنا ہاتھ کسی مردانہ ہاتھ پر رکھ دیا ہے ۔ رفتہ رفتہ مجھے اس کھیل میں مزہ آنے لگا میں تقریباً روز ہی وہاں جانے لگی اور جاتے ہی بیتابی کے ساتھ کسی بھی پتّے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیتی تھی پھر بادل نخواستہ واپس آ جاتی تھی چھٹی کا دن بہت بےچین ہو کر گذارتی تھی یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ یہ ساری صورتحال اتنی خاموشی اور صفائی سے واقع ہو رہی تھی کہ اسکول میں کسی بھی ٹیچر یا بچوں کو گمان بھی نہیں ہونے پایا کہ میں روزانہ اسکول کے اس دورافتادہ گوشے میں کیوں جاتی ہوں اور اکیلی وہاں کیا کرتی ہوں ۔

پھر موسم گرما کی دو ماہ کی تعطیلات ہو گئیں یہ تمام عرصہ میں نے کیسے گذارا میرے دل پر کیا گذرتی رہی میری کیا حالت بنی رہی یہ ایک الگ داستان ہے ۔ بس یوں سمجھیں مجھے سوتے جاگتے اس پودے اور اس نادیدہ مردانہ ہاتھ کے لمس کے خواب آتے رہتے تھے ۔ خدا خدا کر کے چھٹیاں ختم ہو گئیں اور اسکول کھل گیا پہلے ہی روز میں کسی طرح موقع نکال کر دوسروں کی نظروں میں آنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اس گوشہء راحتِ جاں میں جا پہنچی جونہی پودے کے قریب ہوئی ایک دھیمی مگر طویل سی آہ کی آواز مجھے سنائی دی ۔ میں نے بیتاب ہو کر ایک پتّے کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر اُسی لمحے پتّہ پھڑپھڑایا اور اس نادیدہ ہاتھ نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا میری کلائی پر اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ خوف سے میری چیخ نکل گئی جو دور ہونے کی وجہ سے کسی نے سنی نہیں بس یہ ہؤا کہ چیخ کے ساتھ ہی میرا ہاتھ اس نادیدہ ہاتھ کی گرفت سے آزاد ہو گیا اور میں بےدم ہو کر نیچے گر پڑی مگر دوسرے ہی لمحے اپنے ہوش و حواس مجتمع کرتے ہوئے اٹھ کر وہاں سے چلی آئی ۔ پھر اگلے کئی روز تک مجھے وہاں جانے کی ہمت نہیں پڑی پھر ایک روز ہمت کر کے میں ادھر چلی گئی اس روز ایک مرتبہ پھر میری آنکھیں حیرت و تعجب سے کھلی رہ گئیں ۔ وہاں نہ اس پودے کا کوئی نام تھا نہ کوئی نشان وہی خشک و سیاہ خمیدہ سی ٹہنی جوں کی توں زمین میں گڑی ہوئی تھی ۔ تب مجھ پر انکشاف ہؤا کہ وہ پودا درحقیقت میرے سوا کسی کو بھی نظر نہیں آتا تھا ورنہ کم از کم اسکول کا چوکیدار جو مالی کے فرائض بھی انجام دیتا تھا وہ تو نوٹ کرتا کہ بےثمر بیری کے ساتھ ایک نیا پودا نمودار ہؤا ہے کہاں سے آیا کس نے لگایا؟ اور بچے بھی جو نئے پھوٹنے والے پودوں کو دیکھنے اور چھیڑنے کے بڑے شوقین تھے وہ بھی بےخبر رہے ۔

بہرحال اس واقعے کے بعد دل ایسا بجھ کر رہ گیا کہ میں نے اسکول کی ملازمت ہی چھوڑ دی دل آج بھی بجھا بجھا سا رہتا ہے یوں لگتا ہے جیسے اپنی حماقت سے کوئی دولت کھو بیٹھی ہوں ۔ اکثر زندگی کے اداس لمحوں میں اس مہربان مگر نادیدہ ہاتھ کا وہ ملکوتی لمس مجھے بہت یاد آتا ہے آنکھیں آنسوؤں کے بوجھ سے دھندلا جاتی ہیں میرا سینہ ہر وقت خالی خالی سا رہتا ہے میری بانہیں کسی ننھے سے وجود کو اپنے سینے میں چھپا لینے کو بےقرار رہتی ہیں میں آج تک نہیں سمجھ سکی کہ یہ کیسا اسرار تھا کیا معمّا تھا جس نے میری زندگی میں اداسیاں بھر دی ہیں وہ جو بھی تھا زندگی سے نکل گیا ہے دل سے نہیں نکلا چاہوں بھی تو میں اسے نہیں بھلا سکتی ۔ آج بھی کہیں کسی " زخمِ حیات " کے پودے پر نظر پڑتی ہے تو میرا دل تڑپ کر سوال کرتا ہے " تُو نے اس روز چیخ کیوں ماری تھی؟ "

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1840833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.