میں نے چیخ کیوں ماری تھی؟ قسط نمبر ۱

یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے تعلیم سے فراغت کے بعد ایک مقامی پرائیویٹ اسکول میں ملازمت اختیار کر لی جو کہ ایک خاصے بڑے پلاٹ پر واقع عمارت میں قائم تھا ۔ یہ اسکول کسی کی بھی ذاتی ملکیت نہیں تھا بلکہ کچھ علم دوست حضرات نے بلدیہ کی طرف سے عوامی فلاح و بہبود کے لئے مختص قطعہ زمین کو اسکول کے قیام کے لئے منظور کرایا اور ایک پسماندہ دیہی علاقے میں ایک قدرے بہتر کنڈر گارٹن طرز کے تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالی ۔ تمام سٹاف خواتین اساتذہ پر مشتمل تھا اور گورنمنٹ پرائمری اسکول ہی کی طرح ہر کلاس کو صرف ایک ہی استانی پڑھاتی تھی ۔ میرے حوالے تیسری کلاس کی گئی اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ کلاس میں کچھ بچے بہت ذہین کچھ نہایت کند ذہن اور کچھ درمیانی قابلیت رکھتے ہیں تو یہاں بھی یہی صورتحال تھی ۔ بچیاں تعداد میں ذرا کم اور پڑھائی میں بچوں کے مقابلے کافی بہتر تھیں ۔ مگر ان تمام بچوں میں بشمول بچیوں کے ایک قدر مشترک تھی سب کے سب بچے انتہائی شریر اور جھگڑالو تھے آپس میں لڑتے جھگڑتے اور منہ ماری کرتے رہتے تھے بعض تو اتنے منہ زور تھے کہ میری موجودگی میں ہی آپس میں دست و گریباں ہو جاتے تھے یہ میرے لئے اچھا خاصا امتحان تھا دیہاتی ماحول میں پلے بڑھے اور گورنمنٹ اسکولوں سے مائیگریٹ کرا کے آئے ہوئے ان دبنگ بچوں کے والدین نے تو کہہ رکھا تھا کہ ہڈیاں ہماری گوشت تمہارا ۔ میں نے زبانی کلامی انہیں پیار سے اور ڈانٹ کر بھی سمجھایا وہ وقتی طور پر باز آ جاتے اس کے بعد پھر وہی سرکشی ۔ انہیں قابو میں رکھنے اور دھمکانے کے لئے مجھے ڈنڈا منگوانا پڑتا تھا مگر اس کے استعمال کی نوبت کم ہی آتی تھی بچے ڈنڈا دیکھتے ہی سہم کر دبک جاتے تھے اور کچھ نسبتاً بڑی عمر کے داداگیر قسم کے بچے ازخود پوری کلاس کی نمائندگی کرتے ہوئے معافی طلب کرتے تھے اور آئندہ شرارتیں نہ کرنے کی یقین دہانی کراتے تھے ۔ میں کون سا سچ مچ ان پر سختی کرنا چاہتی تھی تھوڑی سی سرزنش کے بعد مسکرا کر انہیں معاف کر دیتی تھی اور حتی الامکان ان کی بہتر تعلیم و تربیت کی کوشش میں لگی رہتی تھی مگر بچے بڑے ستم ظریف تھے ایک دو دن کے بعد پھر وہی ہنگامہ آرائی ۔ اور مجھے ڈنڈا اٹھانے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی مگر ان بچوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا تھا آئے دن ڈنڈا غائب کر دیتے تھے اور لاکھ پوچھنے پر کوئی بچہ قبولتا نہیں تھا کہ ڈنڈا اس نے چھپایا ہے ۔

سارے اسکول کا یہی حال تھا بچے ڈنڈا غائب کر دیتے تھے پھر مجھے بچہ باہر بھیج کر ڈنڈا منگوانا پڑتا تھا ۔ ایک دن پھر میری کلاس میں ذرا سی دیر کو غیر موجودگی میں بچوں نے خوب اودھم مچایا میں غصے سے بےقابو ہو گئی میں نے کہا آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی تمہاری ہڈی پسلی ایک کروں گی فوراً ڈنڈا حاضر کرو ۔ ایک بچہ کلاس سے باہر چلا گیا اور کچھ دیر بعد خالی ہاتھ واپس آیا اور بتایا کہ پورے اسکول میں کوئی ڈنڈا موجود نہیں ہے ۔ میں نے غصے سے کہا میں کچھ نہیں جانتی ڈنڈا باہر سے لے کر آؤ ۔ بچہ اسکول سے باہر چلا گیا اور کچھ دیر بعد آیا تو اس کے ہاتھ میں کسی درخت کی ایک پتلی سی سوکھی ہوئی ٹہنی تھی جو تقریباً ڈیڑھ فٹ لمبی اور درمیان سے قدرے خمیدہ تھی بہت پرانی ہونے کی وجہ سے سیاہ پڑ چکی تھی ۔ میں نے وہ ٹہنی ہاتھ میں لے کر لہرائی اور بچوں سے کہا آج میں تمہاری وہ ٹھکائی لگاؤں گی کہ ساری زندگی یاد رکھوگے اب تیار ہو جاؤ ۔ بچے دم بخود ہو کر بیٹھ گئے کچھ تو پٹنے پہلے ہی رونا شروع ہو گئے اور وہی چند تیز قسم کے بچے فوراً اٹھ کر گڑگڑانے لگے اور میری منت سماجت اور وعدے کرنے لگے کہ کہ آئندہ شرارت نہیں کریں گے اور دل لگا کر پڑھیں گے ۔ بچے جیسے بھی تھے مجھے بےحد عزیز تھے میں کون سا دل سے انہیں سزا دینا چاہتی تھی میں ان بچوں سے بہت محبت کرتی تھی ۔ ویسے بھی اس دوران میرا غصہ کافی کم ہو گیا تھا بچوں کی معصومیت پر میرا دل پگھل کر رہ گیا میں نے انہیں لکھنے کا کچھ کام دیا اور بالکل خاموشی سے انسانیت کے ساتھ کرنے کی تلقین کر کے وہ ٹہنی ہاتھ میں پکڑے پکڑے کمرے سے باہر نکل آئی ۔

ہم ٹیچرز اکثر بچوں کو کام دے کر باہر نکل آتی تھیں اور اسکول کے صحن میں ٹہلتی پھرتی تھیں اور ہمارے اسکول کی چاردیواری کے ساتھ ساتھ کیاریاں بنی ہوئی تھیں جن میں کہیں کہیں قدرے فاصلے سے پودے اور پیڑ وغیرہ لگے ہوئے تھے کیونکہ شریر بچے کھیلتے کودتے ہوئے پودوں کو نقصان پہنچاتے تھے اس لئے کیاریاں مکمل ہری بھری ہونے ہی نہیں پاتی تھیں ۔ کافی دور ایک گوشے میں ایک بانجھ بیری کا درخت لگا ہؤا تھا بیر نہ ہونے کی وجہ سے بچے اس طرف کم ہی آتے تھے بلکہ آتے ہی نہیں تھے ۔ میں ٹہلتی ٹہلتی اس طرف نکل گئی دراصل ایک بات میرے ذہن میں آ گئی تھی میں نے وہاں پہنچ کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹہنی بیری کے تنے اور ساتھ والی دیوار کی درمیانی خالی جگہ میں زمین میں گاڑ دی ۔ کیاری میں پودوں کو دیا جانے والا پانی بہتا ہؤا یہاں بھی پہنچتا تھا اس لئے زمین نرم اور گیلی تھی ٹہنی بہت آسانی سے زمین میں گڑ گئی ۔ پھر میں یہ سوچتی ہوئی وہاں سے واپس ہو لی کہ اب پھر بچوں کی ٹھکائی کی ضرورت پڑی تو یہ ٹہنی آ کر نکال لوں گی جو تقریباً دو حصے زمین کے باہر تھی اور ایک حصہ زمین کے اندر ۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک قدرے امن رہا بچوں کو تھوڑی بہت شرارتوں سبق یاد نہ کرنے یا ہوم ورک نہ کرنے پر میں نے چھوٹی موٹی نرم سزائیں ضرور دیں مگر ایک روز اس ٹہنی کے استعمال کی ضرورت پیش آ گئی ۔ میں بچوں کو دھمکاتی ہوئی کلاس سے باہر نکلی اور سیدھی اسی گوشے میں بیری کے درخت کے پاس چلی گئی اور چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر ٹہنی نکال لوں مگر میں نے جو دیکھا اس سے میری آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جاری ہے (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 235 Articles with 1876813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.