کل تم بن دیکھے سودا کر رہے تھے۔آج بذات خود دیکھ کر آئے ہو۔

خلیفہ ہارون الررشید کے زمانہ میں ایک بزرگ حضرت بہلول دانا تھے جو ہمیشہ مجزوبانہ کیفیت میں رہتے۔
وہ اکثر ریت کے ڈھیر پر بیٹھے رہتے اور بچوں کی طرح چھوٹے چھوٹے گھر وندے بناتے پھر انھیں اچانک گرادیتے۔
ایک دفعہ ہارون الررشید اور اس کی پاک طینت اور وفاشعار بیوی زبیدہ خاتون سواری پر سوار سیر کرتے کرتے ادھر آنکلے ۔
ہارون الررشید نے دیکھاکہ حضرت بہلول حسب معمول ریت کے گھروندے بنا بنا کر ڈھا رہے ہیں۔
اس نے قریب جا کر ازراہ مذاق حضرت بہلول سے پوچھا،
حضرت کیا کر رہے ہیں؟
حضرت بہلول نے نے بڑی بےنیازی سے جواب دیا:
جنت میں محل بنا رہا ہوں۔
ہارون الررشید نے کہا:
حضرت کیا آپ یہ محل فروخت کریں گے؟
حضرت بہلول نے جواب دیا :
ہاں ضرور فروخت کروں گا۔
ہارون الررشید نے پوچھا کتنے کا؟
حضرت بہلول نے کہا:
ایک درہم کا۔
ہارون الررشید نے اس پر قہقہہ لگایا اور چلنے کا حکم دیا۔
اتنے میں اس کی بیوی زبیدہ خاتون نے اپنی جیب سے ایک دینار نکالا اور حضرت بہلول کی طرف پھینک دیا۔
حضرت بہلول نے ایک لکڑی اٹھائی اور ایک گھروندے کے گردخط کھینچتے ہوئے فرمایا:
بیٹی ! جنت میں تمہارا ایک محل تیار ہوگیا ہے۔
زبیدہ خاتون اس یقین کی خوشی میں سرشار ہوگئی کہ اسے جیتے جی جنت میں محل مل گئی۔
رات کو ہارون الرشید نے خواب دیکھا کہ وہ ایک جنگل میں ہرن کا شکار کرتے کرتے بہت دور نکل آیا ہے اور مارے بھوک اور پیاس سے اس کی طبیعت انتہائی نڈھال ہورہی ہے۔
اتنے میں اس نے اچانک دیکھا کہ سامنے سونے اور چاندی کابنا ہوا ایک نہایت وسیع وعریض اور خوبصورت محل ہے۔
ہارون الرشید گھوڑے پر بھاگم بھاگ محل کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے دروازے پر زوبیدہ خاتون کا نام لکھا ہوا ہے۔
ہارون الررشید بےحد خوش ہوا اور محل کے اندر جانے لگا۔
اس پر محل کے پہرہ داروں اور دربانوں نے اسے روک لیا اور کہا کہ تم محل کے اندر داخل نہیں ہوسکتے۔
ہارون الررشید نے کہا زوبیدہ خاتون میری بیوی ہے۔
پہرہ داروں نے کہا کہ یہاں کوئی رشتہ کام نہیں آتا۔
جس کا محل ہے وہ ہی اس کا مالک ہے۔
کسی دوسرے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
ہارون الررشید مایوس اور بددل ہوا۔
اس عالم میں اس کی آنکھ کھل گئی۔
بقیہ رات بڑی بیقراری اور کرب میں گزری۔
علٰی الصباح حکم دیا کہ سواری تیار کی جائے۔
ہاتھی پر سوار ہارون الررشید حضرت بہلول کے پاس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضرت حسب معمول اپنے کام میں مصروف ہیں۔
یعنی ریت کے گھروندے بنا بنا کر ڈھا رہے ہیں۔
ہارون الررشید نے پوچھا:
حضرت کیا کر رہے ہیں؟
حضرت بہلول نے کہا :
جنت میں محل بنا رہا ہوں۔
ہارون الررشید نے کہا :
حضرت بیچو گے؟
حضرت بہلول نے جواب دیا،
ہاں۔
ہارون الررشید نے پوچھا:
حضرت کتنے کا؟
حضرت بہلول نے کہا:
تیری پوری سلطنت۔
ہارون الررشید پرسکتہ طاری ہوگیا۔
بڑی مشکل سے اپنے حواس پر قابو پایا اور لڑکھڑاتی زبان سے پوچھا :
حضرت ! کل تو محل کی قیمت ایک درہم تھی؟
حضرت بہلول نے بڑے پرُاعتماد لہجے میں فرمایا:
"کل تم بن دیکھے سودا کر رہے تھے۔
آج بذات خود دیکھ کر آئے ہو۔"

Kamran Buneri
About the Author: Kamran Buneri Read More Articles by Kamran Buneri: 92 Articles with 259398 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.