ہم وہ قابلِ تحسین اور قابلِ فخر عقل و دانش کا سرچشمہ
ہیں جن کو گزشتہ 15 سال سے یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ پاکستان کی بقاء کے لئے
اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے ہم نے کیا کرنا ہے؟ ہمارے بین الاقوامی سطح
پر روابط کیسے ہونے چاہئیے؟ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی کیا ہو اور اس کی
باگ ڈور سنبھالنے والا کون ہو؟ ہم اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کب تک
ورلڈ بنک اور یہود و نصاری کی غلامی کریں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سے ابھی تک ہماری حکومتی مشنری بالکل لاعلم
ہے اور وہ تالاب کے مینڈک کی طرح ٹر ٹر ٹر کرتے ہوئے ورلڈ بنک اور امریکی
غلامی میں ملک دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے ازلی
دشمن بھارت نے اپنی سفارتی گراؤنڈ کو ہموار کرتے ہوئے امریکہ ، اسرائیل،
برطانیہ، بنگلہ دیش، ایران، روس ، سعودیہ، متحدہ عرب امارات ، جرمنی ،
فرانس اور دیگر کئی ممالک سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے اور اپنی ملکی
معیشت کو مضبوط کیا اور اسی وجہ سے وہ امریکہ کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے
اور ایشیا کا ڈون بننے کی خواہش میں ہر سہ ماہی میں کئی چکر امریکہ کے
کاٹتا ہے اور افغانستان میں اپنا ہولڈ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو
مشرق و مغرب سے مرعوب کر سکے ۔ امریکی آشیرباد کی وجہ سے بھارت گزشتہ سات
دہائیوں سے کشمیر پر غاصبانہ تسلط قائم رکھے ہوئے ہے اور اقوامِ متحدہ کی
قراردادوں کو پس پشت ڈال کر ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔
مودی اپنی الیکشن مہم میں کشمیر کو انڈیا کا حصہ بنانے کے لیے ڈھٹائی
دکھاتا رہا جس کی وجہ سے وہ الیکشن جیت گیا۔
اس کے برعکس پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو کہ جس نے
کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہہ کر الیکشن لڑا ہو اور بعد میں اس پر عملی
اقدامات کیے ہوں۔
موجودہ حکومت نے پچھلے چار سال تک وزیر خارجہ کی تقرری نہیں کی۔ جب کہ اس
کا خمیازہ ہمیں اب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اپنی خامیوں کو چھپانے اور اپنے یہودی
و نصرانی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ہم نے اپنے ہی گلشن کی کلیوں کو مسلنا
شروع کر دیا۔ ہماری اس نااہل حکومت نے بغیر کسی ٹھوس خواہد اور ثبوت کے ملک
کے محافظوں اور پاکستان کے پاسبانوں پر محض اس لئے قدغن لگا دیا کہ اقوام
متحدہ کی جانب سے ان پر پابندی عائد ہے۔ جب ہماری عدلیہ نے اس غیر آئینی
اقدامات کو رد کر دیا تو پھر انہوں نے صدارتی آرڈیننس جاری کر کے شاہ سے
زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت دیاہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس
میں پاکستان نے بہت زیادہ اقدامات کیے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی مزید
اقدامات کرنے کے لیے تین ماہ کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے جس پر پاکستان کی دنیا
بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ ہماری کمزور خارجہ پالیسی
اور اغیار کی غلامی ہے۔ اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی خارجہ
پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا اور جارحانہ انداز میں اقوامِ متحدہ کے یک طرفہ
فیصلوں کو تسلیم کرنے کی بجائے تردید کرنا ہو گی ورنہ وہ دن دور نہیں جب
یہی اقوام متحدہ ہماری فوج پر پابندی عائد کرے گی اور ہمارے ایٹمی اثاثوں
کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کرے گی۔
ہمیں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے خالصتاً اسلامی خارجہ پالیسی
اپنانا ہوگی۔ دشمنوں کے ساتھ میدان سجانا ہوں گے۔ اپنی معیشت کو مستحکم
کرنے کے لیے غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرنا ہوگا۔ اپنے مقبوضہ علاقوں کو
آزاد کرانا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ محب وطن شخصیات اور تنظیموں کو کام
کرنے کی آزادی دینا ہوگی۔ جہاد ریاست کا حق ہے اس حق کو بھی حقداروں تک
پہنچانا ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد آئے گی۔ ملکی معیشت مستحکم
ہو گی ۔ ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے نوری ملائکہ آئیں گے اور یہ مدینہ
ثانی پاکستان پوری دنیا کے لیے پیغام امن بن کر جاۓ گا جیسا کہ آج سے
تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل مدینہ منورہ سے پیغام دنیا کے کونے کونے میں
پہنچا تھا ۔
اس طرح ہم مودی کی ڈھٹائی کا دندان شکن جواب دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں
اور پاکستان کو دنیا بھر میں جگ ہنسائی سے بچایا جا سکتا ہے۔ |