قدرتی وسائل سے مالا مال اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا
سب سے بڑا صوبہ بلوچستان کا مسئلہ ویسے تو بہت پرانا ہے مگر گزشتہ ایک
دہائی سے اس میں مسلسل تیزی آتی جارہی ہے۔ معدنی وسائل سے بھرپور بلوچستان
کے شاہی جرگے اور میونسپل کمیٹی کوئٹہ کے اراکین نے عوامی امنگوں کی
ترجمانی کرتے ہوئے 3جون 1947ء کوبھارت کے مقابلے میں پاکستان سے الحاق
کافیصلہ کیا۔ لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے بھی شاہی جرگہ
اورمیونسپل کمیٹی کوئٹہ کی تقلیدمیں پاکستان سے الحاق جبکہ خان آف قلات میر
احمد یار خان نے مارچ 1948ء میں پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔ 1955میں
ون یونٹ بننے کے بعد برٹش بلوچستان کا نام کوئٹہ ڈویژن رکھ دیا گیا اور
بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام ’’قلات ڈویژن‘‘ قرار دیا گیایہ دونوں علاقے
مغربی پاکستان صوبے کا حصہ بن گئے۔ 1958ء میں اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز
خان نون نے عمان سے کامیاب مذاکرات کرکے گوادر کو پاکستان میں شامل کرایا۔
1969ء میں جب ون یونٹ کاخاتمہ ہوا اور پاکستان کے چار صوبے بنے تو قلات
ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن اور گوادر کو ملا کر موجودہ صوبہ بلوچستان کا قیام عمل
میں آیا۔ جغرافیائی محل و وقوع اور نواب و سرداری نظام نے عام لوگوں کے
حقوق آزادی ملنے کے بعد بھی سلب کرکے رکھے۔ نوابوں اور سرداروں نے اپنے
ذاتی مفادات، عیش و عشرت اور اقتدار و طاقت کو برقرا رکھنے کیلئے عام لوگوں
کو بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا۔ سہولیات تو درکنار بلوچستان کی کئی فیصد
آبادی آج بھی پینے کے صاف پانی، دو وقت کی روٹی، صحت اور تعلیم سے بھی
محروم ہیں۔ نوابوں اور سرداروں کے تسلط اور اجارہ داری کیلئے ہونے والے آئے
روز کے قبائلی جھگڑوں میں صرف عام بلوچ ہی مارا گیا اور یہ سلسلہ آج سے
نہیں کئی دہائیوں سے اسی طرح جاری و ساری ہے۔ ریاست نے جب بھی بلوچستان کے
عام لوگوں کو زندگیاں سدھارنے اور انہیں سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات
کئے تو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کے نواب اور سردار بنے۔ اسی سبب وہ
برسر اقتدار آنے والی ہر سیاسی جماعت کی آنکھ کا تارا بنتے رہے۔چیف آف بگٹی
قبائل نواب اکبربگٹی،سابق وزیراعظم پاکستان میر ظفراﷲ جمالی،سردار عطاء اﷲ
مینگل، نواب خیربخش مری،میر ذوالفقارخان مگسی،سرداراختر مینگل،نواب ثناء اﷲ
زہری،محمود خان اچکزئی،غوث بخش بزنجو،میر حاصل بزیجو،نواب آف ساراوان نواب
اسلم رئیسانی،سردارسرفرازبگٹی سمیت دیگر تقریباً ہرقبیلے کے نواب
اورسردارماضی وحال کی حکومتوں کا حصہ رہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے
کہ برسراقتدارآنے والے نواب اور سرداروں نے حکومتی وسائل اور فنڈز کا
استعمال صرف اور صرف اپنی ضروریات پر کیا جس سے مسائل میں گھیرے بلوچستان
کا عام شہری مزید کسمپرسی کی حالت میں چلا گیا۔ اس صورت حال کے بعد نوابوں
اور سرداروں کے استحصال کے شکار قوم پرست گروہوں نے تقویت پکڑنا شروع کی
جنہیں ملک دشمن قوتوں نے بھرپورطریقے سے خوش آمدید کرتے ہوئے حقوق کے نام
پرپاکستان کے خلاف نام نہادجدوجہدکیلئے اسلحہ، رقم سمیت تمام سہولیات مہیا
کیں جس کے بعد بلوچستان میں لسانی، علاقائی اور مذہبی طرز کے پرتشدد واقعات
رونما ہونے لگے۔ ریاست کی رٹ چیلنج ہونے لگی توریاستی ادارے بھی حرکت میں
آئے جس کے نتیجے میں 26اگست 2006ء کو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا واقعہ پیش
آیا۔ اس واقعے کو بنیاد بناکردشمن قوتوں نے علیحدگی پسند تنظیموں کے نیٹ
ورک کو مزید فعال کیا۔ سرداروں اور نوابوں کے ایک طویل جبر اور دو وقت کی
روٹی،پانی،تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم سادہ لوح بلوچ
نوجوانوں کو وطن کے خلاف لڑنے کیلئے پر کشش مراعات کی پیشکش کی گئیں۔
کسمپرسی کی حالت میں مبتلا ان پڑھ اور سادہ نوجوانوں کے ’’برین واش‘‘ کرکے
انہیں بندوقیں تھمادی گئیں۔ پھر بلوچ ڈانسی، سجی، بلوچی پگ، گھیرے دار
شلوار سمیت منفرد سوغات کے حوالے سے مشہور بلوچستان ’’نوگو ایریا‘‘ بن گیا۔
وہاں عرصہ دراز سے رہنے والے غیر مقامی افراد کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ آئے
روز حملے اور بم دھماکے معمول بن گئے۔ مگر جب علیحدگی پسندوں نے 15جون
2013ء کو بانی پاکستان کی رہائش گاہ ’’زیارت ریذیڈنسی‘‘ پر حملہ کیا تو قوم
کے جذبات بھڑک اٹھے۔ عوامی سطح پر بلوچستان کی دن بدن ابتر ہوتی صورت حال
پر سخت ردعمل آیا تو سیاسی جماعتوں نے بھی سرجوڑ لئے، بلوچستان کے سرداروں
اور نوابوں کی باہمی مشاورت سے علیحدگی پسند پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف
آپریشن میں مزید شدت آئی۔ اس وقت صوبے میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان
ریپبلکن آرمی (پجار(، بلوچستان ریپبلکن آرمی (محی الدین) ،بلوچستان لبریشن
فرنٹ، لشکر بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ، بلوچستان مسلح دفاع
تنظیم، بلوچستان بنیاد پرست آرمی، بلوچستان وجہ لبریشن آرمی، بلوچستان
یونائٹیڈ آرمی، بلوچستان ریپبلکن پارٹی آزاد، بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی،
بلوچستان اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آزاد، یونائٹیڈ بلوچ آرمی سمیت کئی دیگر چھوٹے
گروہوں کے خلاف آرمی ، ایف سی اور پولیس کے جوانوں نے بھرپور کارروائیاں
کیں اور ان کے زیر تسلط کئی علاقوں میں ریاست کی رٹ قائم کی۔ علیحدگی پسند
گروہوں کے زیر تسلط علاقوں میں پاکستان کا نام لیناجرم قراردیا، اسکولوں
میں قومی ترانے کی ممانعت جبکہ قومی پرچم لہرانے پر سخت پابندی عائد تھی۔
آرمی، فرنٹیئرکانسٹیبلری (ایف سی) اور پولیس کے بہادر و جانباز جوانوں نے
جرات اور بہادری کے ساتھ بلوچ جنگجوؤں سے علاقے خالی کرائے اور اسکولوں کو
دوبارہ سے آباد کیا۔ قومی ترقی کا ضامن سمجھا جانے والا عظیم الشان ’’پاک
چائنا اکنامک کوریڈور‘‘ CPECمنصوبے کے اعلان کے بعد پڑوسی ملک نے کھل کر
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی معاونت شروع کردی تاکہ CPEC منصوبہ اپنے
منطقی انجام تک کسی بھی صورت نہ پہنچ سکے۔ سادہ لوح بلوچ نوجوانوں کو گمراہ
کن حقائق کے ذریعے اس عظیم منصوبے کے خلاف اکسانے کی ناپاک سازشیں کی جارہی
ہیں جبکہ ان کے مذموم مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ قانون نافذ کرنے
والے اداروں کے اہل کار و افسران ان کو انہوں نے اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔
گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق سال میں 300سے زائد دہشت گرد حملے کئے
گئے جن میں مجموعی طور پر264سے زائد افراد جاں بحق اور573سے زائد زخمی ہوئی۔
جن میں 110سے زائد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار و افسران بھی
شامل ہیں جبکہ 205سے زائد اہلکار و افسران زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں 63سے
زائد حملے FCپر ہوئے جن میں 27ایف سی اہلکار شہید اور 83زخمی ہوئے جبکہ
پولیس پر 18حملے ہوئے جن میں 52اہلکار شہید اور 83اہلکار و افسران زخمی
ہوئے۔ گزشتہ برس ہونے والے حملوں میں ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکیشن حامد شکیل،
ایس ایس پی قلعہ عبداﷲ ساجد خان مہمند، ایس پی قائد آباد کوئٹہ مبارک شاہ،
ایس پی انویسٹی گیشن سٹی کوئٹہ محمد الیاس، DSPعمر الرحمان، CTDانسپکٹر
عبدالسلام بنگلزئی سمیت کئی افسران و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ
پاک فوج پر چار دہشت گرد حملے ہوئے جن میں کیپٹن سمیت19اہلکار جاں بحق اور
35زخمی ہوئے۔ اسی طرح لیویز پر دس حملے ہوئے جس کے نتیجے میں12اہلکار جاں
بحق ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں نو خودکش سمیت37بم دھماکے جن
میں مسیحی برادری کے چرچ پر حملے سمیت دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ جاں
بحق افراد اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی تھی مگر قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے جانباز جوانوں نے دہشت گردوں کو کنٹرول کئے رکھا۔ صوبے
کے جغرافیائی محل وقوع کے باعث ایف سی پولیسنگ کا کام انجام دے رہی ہے۔
جہاں ایک جانب فرنٹیئرکانسٹیبلری (ایف سی) دہشت گردوں کے خلاف نبردآزما ہے
وہیں دوسری جانب دہشت گردوں سے خالی کرائے گئے علاقوں میں معمولات زندگی
معمول پر لانے کی بھی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسی سلسلے میں اسکولز، میڈیکل
سینٹرز، میڈیکل کیمپس، صاف پانی کی فراہمی کیلئے آراوپلانٹس سمیت دیگر
عوامی فلاحی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہے۔اطلاعات ہیں کہ13سے15 نومبر
2017ء کو بھارت وافغان گٹھ جوڑ کے ذریعے بٹگرام ایئر بیس افغانستان میں ہوا
جس میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملافضل اﷲ، منگل
باغ،عبدالولی،براہمداغ بگٹی کے زیراثرکام کرنے والی بلوچستان کی علیحدگی
پسنددہشتگردتنظیموں کے20 کمانڈروں،را سمیت دیگر غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے
اہلکارو شریک تھے ۔اس اجلاس کا مقصدسی پیک منصوبے کوکسی بھی قیمت پرناکام
بنانے ،بلوچستان کی ہزارہ برادری،اقلیتی برداری،آرمی ،ایف سی اور پولیس
کونشانہ بنانے کافیصلہ کیاگیا۔جس کیلئے ملافضل اﷲکو25ملین ڈالرز(ڈھائی ارب
روپے سے زائد)دیئے گئے جنہیں دیگر دہشتگرد گروہوں میں تقسیم کرنے کی ذمہ
داری بھی ملافضل اﷲ کو سونپی گئی۔اس اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ دہشتگرد
حملے اورقانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں اورافسران کی ٹارگٹ کلنگ
بلوچستان سب نیشنلسٹز(BSNs) کے نام سے علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں کریں گی
جبکہ خودکش دہماکے داعش کے نام سے لشکرجھنگوی،نتظیم الاحرار ودیگرجہادی
گروپ انجام دیں گے۔ اس کے بعد 17دسمبر2017ء کوکوئٹہ کے چرچ پر خودکش حملہ
کیا گیا جس کی ذمہ داری ISISداعش نے قبول کی تھی۔ اب کوئی دو رائے نہیں کہ
پاکستان بالخصوص صوبہ بلوچستان میں جاری عام لوگوں کے خون کی ہولی کے ذمہ
دارکالعدم دہشتگردجماعتیں،نام نہادعلیحدگی پسند جنگجو،را سمیت دیگرملک دشمن
قوتوں مل کر کھیل رہی ہیں اگر انہیں جلد نہ روکا گیا تو ملک کے دفاع
اورپاکستان سے محبت کرنے والے سپاہی،جوان اورعام لوگ بھینٹ چڑھتے رہیں
گے۔کالعدم دہشتگردجماعتیں،نام نہادعلیحدگی پسند جنگجو،را سمیت دیگرملک دشمن
قوتوں کے گٹھ جوڑکا مقابلہ قومی جذبے سے سرشارہوکر اتحاداوریگانگت سے کرنا
ہوگا۔ملک کی تمام سیاسی ،مذہبی جماعتوں اورریاست کے تمام ستون کو مشترکہ
جدوجہدکے ساتھ پاکستا ن کے دشمنوں کوشکست دینی ہوگی۔بلوچستان کے زمینی
حالات کومدنظررکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے استحصال اوربنیادی سہولیات سے
محروم عوام کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔بلوچستان کے حالات
کاسدھاراس وقت ممکن ہوپائے گا جب امن وامان کے قیام کے ساتھ وہاں کے عوام
کی حالت زارمیں بھی تبدیلی آئے گی۔عرصہ دارزسے جاری صوبے کے حقوق کا مطالبہ
اور وسائل کے درست استعمال کویقینی بنایاجائے ۔ دہشتگردوں کے مقامی سہولت
کاروں اور ہمدردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن کا آغازکرکے پاکستان کے خلاف
گمراہ کن ’’مائنڈسیٹ ‘‘کا خاتمہ ممکن بنایاجائے ۔شہروں اورحساس علاقوں کی
سیکورٹی کومزیدموثرکیا جائے۔سیکورٹی اداروں کو مزیداپ گریڈ،ایف سی ،پولیس
اورلیویزاہلکاروں کو جدیدترین اسلحہ ودیگرسازوسامان سے لیس اورنفری بڑھائی
جائے۔قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کی سرزمین پر اب پاک چین اقتصادی
راہداری منصوبے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے ۔اس عظیم الشان منصوبے سے
پاکستان بالخصوص بلوچستان کی خوشحالی کے سفرکاآغازہوگا ۔ضرورت اس امر کی ہے
ریاست کے تمام ستونوں باہمی مشاورت سے بنیادی سہولیات سے محروم اوردہشتگردی
کے شکاربلوچستان کے عوام کے لئے ’’خوشحال بلوچستان ‘‘کے نام سے خصوصی پیکج
کا اعلان کریں تاکہ ماضی میں بلوچستان کی غریب عوام کے ساتھ سے ہونے والی
زیادتیوں کا ازالہ ہوسکے۔نام نہادحقوق کے جنگ کے نام پر ہتھیاراٹھائے بھٹکے
ہوئے بلوچ نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ’’عام معافی‘‘ کا اعلان کیا
جائے۔قوم کی ترقی کے ضامن سی پیک منصوبے کے تحت نوجوانوں کوہنرمندبنانے
کیلئے اور انہیں چائنیززبان سکھانے کیلئے ٹریننگ سینٹرزکا قیام عمل میں
لایاجائے اور نوجوانوں کوسی پیک کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کی جائے تاکہ
وہ اس سے مستفید ہوسکیں اورصوبے میں جاری بیروزگاری کاخاتمہ بھی ممکن ہو
سکے۔ قوم کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک کا ہرفرد اس چمن کی آبیاری
کیلئے اپناکردارادا کرے ۔ ملک وقوم کی خوشحالی اور ترقی کے اس لازوال سفر
کا آغازخوشحال بلوچستان سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ پرامن،ترقی یافتہ اور
خوشحال بلوچستان ہی درحقیقت خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔ |