یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طالب علموں کے لیے امتحان ایک
سخت آزمائش ہوتی ہے اور اس میں اچھے نمبرز لے کر کامیابی حاصل کرنا ہر
نوجوان کی خواہش ہوتی ہے ۔لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاکسی بھی طالب
علم کی قابلیت کا معیار صرف نمبرز سے لگانا ہی درست ہے یا پھر اس میں اور
بھی عوامل اثر اداز ہوتے ہیں ۔ اکثر والدین یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی
اولاد امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل کرے ۔ اور اگر نتیجہ ان کی توقع سے کم
آیا تو بس پھر بچے کی خیر نہیں۔ اسے تمام گھر والے، رشتہ دار اور دوست
احباب طعنے دے دے کر اس کی حوصلہ شکنی کرنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نسل نو
کے لیے قابلیت سے زیادہ ڈگری اورنمبرز اہمیت رکھتے ہیں۔ دوران کلاس بھی ان
کی توجہ سبق یا لیکچر پر نہیں ہوتی بلکہ انہیں صرف حاضری سے سروکار ہوتا ہے۔
طلبہ و طالبات صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کی کوشش کر رہے ہوتے
ہیں جبکہ ذہانت یا قابلیت ان کی ترجیح نہیں ہوتی۔ ہمار ے اساتذہ بھی بچوں
کو زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کے طریقے سکھاتے ہیں کہ کس طرح امتحانی پرچے
میں ممتحن کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب تعلیمی اداروں کا رخ علم حاصل کرنے، قابلیت بڑھانے اور
شخصیت نکھارنے کی طرف ہوتا تھا لیکن اب صرف ڈگری لینے کی طرف ہے ۔ ٹیوشن
سنٹرز کی بھاری فیسیں جمع کرنے اور معروف تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرنے
کو تعلیم سمجھ لیا گیا ہے ۔ کتابیں بند اور لائبریریاں مقفل کرنے کے نئی
عصری عوامل سامنے آگئے ہیں۔ متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے
والدین بے بسی کی مورت بنے نظر آتے ہیں ۔ جب بورڈ کا رزلٹ آتا ہے تو بہت سے
طلبا ستر، اسی فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود بھی مایوسی کا شکار نظر آتے
ہیں کیونکہ وہ والدین کی پسند کے عین مطابق نوے فیصد نمبر حاصل کرنے میں
ناکام ہوتے ہیں۔ ماضی میں یہ صورت حال نہ تھی اور نہ ہی کوچنگ سینٹرز میں
مہنگی فیسیں لے کر امتحان میں نوے فیصد نمبرز کی گارنٹی دی جاتی تھی۔ طالب
علموں کو ریس کا گھوڑا نہیں انسان سمجھا جاتا تھا۔ ساٹھ ستر فیصد نمبر لینے
والوں کو کند ذہن نہیں کہا جاتا تھا اس لیے نسل نو میں مایوسی، ذہنی تناؤ
اور عدم برداشت جیسی ذہنی بیماریاں بھی نہیں پنپتی تھیں۔
زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کی اس دوڑ نے ہمارے طلبہ و طالبات کے اندر ایک
سراسیمگی پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے کتابیں پڑھنے، لائبریریوں سے استفادہ
کرنے اور دیگر تعلیمی قابلیت بڑھانے کے ذرائع کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اب
طلبہ و طالبات کی ترجیح بنے بنائے ماڈل پیپرز، کثیرالانتخابی سوالات اور
دیگر معروضی سوالات ہیں۔ نمبروں کی یہ دوڑ ہمارے طلبہ و طالبات میں جہاں
نقل کرنے اور امتحانی عمل کو دھوکہ دینے کی راہ راہ ہموار کر رہی ہے وہیں
اس سے طلبہ و طالبات میں مسابقت کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ ساتھی طلبا ایک
دوسرے سے چیزیں چھپاتے اور ایک دوسرے سے ہر جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ
نمبرز لینے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔
آج کل ہر کوئی یہ شکوہ تو کرتا نظر آتا ہے کہ دور حاضر کے نوجوان مایوسی کا
شکار ہیں ، اپنے خول میں رہتے ہیں لیکن کوئی اس کے تدارک کی کوشش نہیں کرتا
۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں اتنے مگن رہتے
ہیں کہ متوقع نتیجہ نہ آنے پر ذہنی کوفت و پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس
موقع پر اساتذہ اور گھر والوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو سمجھائیں کہ نوے یا
پچانوے فیصد سے کم نمبر آنے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔ دنیا ایسے لوگوں
کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جن کی تعلیمی کارکردگی تو متاثر کن نہیں تھی
مگر آگے جا کر انہوں نے بہت نام کمایااوربڑے بڑے کام کیے۔
بلا شبہ اچھے گریڈز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ ہر طالب علم کو تعلیمی
کارکردگی بہتر بنانے اور زیادہ نمبرز لینے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے
لیکن اس کا نصب العین حصول علم ہونا چاہیے۔ ڈگری حاصل کرنے کے لیے نہیں
قابل بننے کے لیے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ رٹا سسٹم نے بھی بگاڑ پیدا کرنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن امتحان میں رٹہ لگا کر نمبرز حاصل کرنا قطعاً
قابلیت کی نشانی نہیں ہے ۔ نصابی عمل اور نصابی سرگرمیوں سے بھرپور استفادہ
کرنے والا طالب علم ہی قابلیت کا محور ہوتا ہے جو سمجھ کر پڑھتا اور
کامیابیاں اپنے نام کرتا ہے۔ یہ رٹہ کلچر کا ہی نقصان ہے کہ بورڈ کے امتحان
میں نوے فیصد نمبرز حاصل کرنے والے اکثر طلبا جامعات کے انٹری ٹیسٹ میں فیل
ہو جاتے ہیں ۔ انٹری ٹیسٹ میں طلبا کا فیل ہونا نصاب و کتاب سے دوری کا
شاخسانہ ہے ۔ جب تک علم نمبروں میں مقید رہے گا تب تک ہم کبھی ترقی نہیں کر
سکیں گے۔ لہٰذا اساتذہ اور والدین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ زیادہ نمبرز
ذہانت جانچنے کا پیمانہ نہیں ہیں ۔ نصاب میں انہماک اپنی جگہ مگر نوٹس رٹنے
سے علمی خصائل اور مضمرات حاصل نہیں کیے جا سکتے ۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے
کہ جہاں اسناد بکتی ہوں ، تعلیمی اداروں کے مالکان کروڑوں کے بزنس سے معتبر
ٹھہرتے ہوں وہاں نوجوانوں کو تعلیم، کتاب کی بجائے ڈگریوں میں ہی نظر آتی
ہے۔ |