کتاب دوستی
A Room without a Book is Like a Body without a Soul.
کچھ پڑھنے اور لکھنے کا شوق انسان کو قدیم زمانے سے ہے، پتھر کے ادوار میں انسانوں کی نقش و نگاری جو آج ہم کو آثار قدیمہ کے ذریعے مل رہی ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نے ہمیشہ اپنی تخلیق کو اجاگر کرنے کیلئے ہمیشہ لکھنے کا سہارا تلاش کیا، کبھی پتھروں پر نقش و نگار بنا کر تو کبھی پتھر کی سلوں پر لکھ کر۔
قلم اور کاغذ کی ایجاد شاید دنیا کی وہ سب سے بڑی ایجاد کہ جس نے دنیا میں لکھنے کے فن کو کمال عروج پر پہنچایا۔
قدیم زمانے کے صحیفہ آج اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ انسان کو لکھنے اور پڑھنے کا شوق شروع سے ہے۔
اگر ہم پاکستان میں کتب بینی کا جائزہ لیں تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک میں لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ بچوں کی کتاب سے دوری ہے اور بچوں کی یہ عادتیں عام طور پر زندگی بھر تبدیل نہیں ہوتی اور کتابوں سے دلچسپی بھی نہیں رہتی۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں تعلیم اور تربیت سے زیادہ ڈگری کی اہمیت ہے، گویا ہم تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ڈگری یافتہ نسل تیار کر رہے ہیں۔
کتاب انسان کی بہترین دوست مانی جاتی ہے، یہ نا تھکتی ہے اور نا ہی شکایت کرتی ہے۔
کتابیں انسان کو نئے خیالات، نظریات اور تجربات سے روشناس کراتی ہیں۔
مطالعہ انسان کو گہرائی سے سوچنے اور درست فیصلہ کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ اچھی کتابیں انسان کو اخلاق، مزاج اور رویئے میں مثبت تبدیلی لاتی ہے۔
جب کوئی ساتھ نا ہو تو کتاب ایک خاموش اور سمجھدار دوست بن جاتی ہے اور مطالعہ انسان کے تخیل، سوچ، زبان اور اظہار کو نکھارتا ہے۔
بدقسمتی سے آج کے دور میں کتابوں سے دوری بڑھتی جا رہی ہے، خصوصاً سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل مصروفیات اس کی ایک بنیادی وجہ بھی ہے، اور اس کے نتائج ہمارے سامنے واضح ہیں کہ لوگ مختصر معلومات پر اکتفا کرتے ہیں جس کی وجہ سے گہرائی سے سوچنا اور سمجھنا کم ہو گیا ہے۔
کتاب نا پڑھنے سے زبان کی خوبصورتی اور لفظوں کا ذخیرہ کم ہوتا جارہا ہے۔ کتابیں نا پڑھنے والا معاشرہ جلد تعصب، افواہوں اور کم علمی کا شکار ہو جاتا ہے جو جلد ہی کی تنزلی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
انسان کی کتابوں سے دوری ان کی تخلیق کرنے کی جستجو بھی ختم کردیتی ہے اور وہ صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کرنا شروع کردیتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں سے 75 فیصد لوگ کتاب بلکل نہیں پڑھتے اور باقی کبھی کبھار کتاب کو پڑھتے ہیں
حکومت کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہروں میں کتابوں کی نمائش کا انتظام کریں اور اسی طرح ہر اسکول میں لائبریری کا قیام انتہائی ضروری ہے۔
کتابوں کی مہنگی قیمت ایک عام قاری کو اس سے بہت دور کردیتی ہے، حکومت اور پبلیشر حضرات اس پر فوری توجہ دیں اور ہنگامی بنیادوں پر کتابوں کی کم قیمت اشاعت پر توجہ دیں۔
کتابوں سے دوستی دراصل زندگی سے دوستی ہے، جو قومیں کتابوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ ترقی کرتی ہیں اور جو کتابوں سے دور ہوتی ہیں وہ اندھیروں میں گم ہوجاتی ہیں۔
اپنے گھر کے مہمان خانوں یعنی ڈرائنگ روم میں ایک چھوٹا بک شلف اپ کے ذوق کی نشاندہی کرے گا۔
فیاض حفیظ - 2 دسمبر 2025 |