اﷲ رب العزت کی جتنی بھی مخلوق ہیں ان سب میں انسان کو
اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں ہوا کہ ہر
انسان اچھا ہو گا۔انسان اچھے برے سبھی طرح کے ہوتے ہیں۔برا انسان بھی اپنے
برے کاموں کوا چھا سمجھ کر ہی کرتا ہے۔ غلط کام اُس وقت ہوجاتا ہے جب وہ
پکڑا جاتا ہے۔اس کے بعد اس کی دیدہ دلیری چلتی ہے، اپنے کو بے گناہ ثابت
کرنے کے لیے پورا زور لگاتا ہے، اچھے سے اچھا وکیل کرتا ہے بہت اچھے رسوخ
نہ ہوئے تو مقدمہ ہارتا ہے اور جیل جاتا ہے۔نہیں تو حکومت کی مہربانی سے
امت شاہ بن کر محافظوں کے گھیرے میں گھومتا ہے۔
بھکتوں کی گھٹّی میں دلت و مسلم دشمنی چلی آرہی ہے بالخصوص مسلمانوں سے تو
ایک طرفہ ہی ہے۔میرے بچپن کی بات ہے یعنی ساٹھ پینسٹھ سال پہلے ضلع بہرائچ
میں ضلع ادھیکاری کے بنگلہ میں ایک چھوٹی سی پرانی مسجد تھی جسمیں کلکٹریٹ
کے وکیل اور عملہ نماز ادا کرتے تھے۔ایک دن پتہ چلا کی رات میں مسجد کے
آنگن میں کسی بھگوان کی اچانک مورتی پرکٹ ہو گئی۔اور وہاں بھجن کیرتن شروع
ہو گیا، نماز بند ہوگئی،بہرائچ کی فضاء خراب۔تقریباً دس پندرہ سال نماز بند
رہی پھر منصف افسران کی مہربانی سے نماز شروع ہوئی اور اب بہت شاندار مسجد
تعمیر ہو ئی ہے۔نماز شروع کرانے سے لیکر مسجد کی تعمیر تک انصاف پسند ہندو
افسران کے احکامات ہی شامل حال رہے اور اس بیچ انصاف پسند ہندو برادران وطن
نے بھکتوں کو خرافات کرنے نہیں دیا۔
پچھلی پانچ کی دہائی میں رمداس پورہ، جالندھر سے ’بھیم پترکا‘ نام کا ایک
اردو ماہانہ نکلتا تھااس میں ’داس ویراگی‘ کا ایک مضمون شا ئع ہوا تھا جس
کا عنوان تھا ’براہمنوں کا بودھوں سے بیر‘۔اس کے ایک پیراگراف کی کچھ
لائنیں محض قارئین کی معلومات کے لیے پیش کی جا رہی ہیں کہ بھکت لوگ صرف
مسلمانوں کے ہی مخالف نہیں ہیں بلکہ بودھوں سے بھی مخالفت نبھاتے چلے آ رہے
ہیں۔’ویراگی ‘ جی لکھتے ہیں:
’’سمراٹ اشوک کو مشہور انگریز مصنف ایچ․جی․ویلز نے دنیا کے چھہ بڑے انسانوں
میں سے مانا ہے جن میں سے ایک افلاطون ہے لیکن ہمارے ہم وطن براہمنوں
نے’’پریہ درشین‘‘ کہلانے والے اشوک کو ’مورکھ‘ اور ’’بے وقوف‘‘ کہا ہے۔
اشوک مگدھ میں راج کرتے تھے ، براہمن ہر اُس چیز کو برا سمجھتے تھے جس کا
تعلق بُدھ دھرم سے ہو۔ اس لیے یہ مشہور کر دیا گیاتھا کہ جو مگدھ میں مرے
گا، نرک میں جائے گا اور نرک میں جا کر بھی گدھا بنے گا۔ مہاتما کبیرؔجو
اپنے وقت کے سب سے بڑے باغی سنت تھے صرف اس اعتقاد کے خلاف بغاوت کرنے مگدھ
گئے تھے۔تاریخ کے چند اوراق اُلٹ کر کچھ سو برس آگے آئیں تو بھی دیکھنے میں
آتا ہے کہ براہمنوں کے دلوں میں وہ نفرت اور تعصب بدستور سابقہ زندہ تھا۔‘‘
اور بھکتوں کی مہربانی سے یہ ابھی بھی زندہ ہے۔بودھوں (دلتوں) کے علاوہ
مسلمانوں کوبھی اپنے نشانے پر لا کر کھڑا کر لیا ہے۔مسلمانوں اور دلتوں میں
اتنا فرق چھوڑ رکھا ہے کہ انتخابات کے زمانے میں دلتوں کو ہندوں مان لیتے
ہیں اور وہ بھی ساتھ میں تالی بجانے لگتے ہیں۔لیکن مسلمان اور مسلمانوں سے
جڑی ہوئی ہر چیزہمیشہ بھکتوں کے نشانے پر رہتی ہے۔
’تاج محل‘ پیار اور محبت کی علامت ہے اور اسی لیے بھارت میں انگریزی حکومت
کے دوران انگلینڈ سے جب بھی کوئی نیا شادی شدہ جوڑا بھارت آتا تھا تو یہیں
تاج محل کے مہمان خانہ میں ٹھہرتا تھا جسے یوگی جی نے بھارت کی تہذیب کے
خلاف بتایا ۔یہ غنیمت رہا کہ انھوں نے’ کھجوراہو‘ کوبھارت کی تہذیب نہیں
بتلائی ورنہ شاید بات بہت دور تلک جاتی۔
’ سنگیت سوم جی‘ میرٹھ کے سردھنا حلقہ سے ایم․ایل․اے․ہیں۔ان کی پیدائش موضع
عالمگیر،فریدپور میں ۱؍جنوری ۱۹۷۸ کو ہوئی تھی۔مجھے تعجب ہے کہ بی․جے․پی․
کا ایک دبنگ شخص اپنی جائے پیدائش عالمگیر فرید پور کوابھی تک کیسے برداشت
کیے ہوئے ہے۔ہمیں تو اس میں بھی مغلوں کی سازش لگتی ہے کہ عالمگیر فرید پور
کو کسی مندر یا آشرم پر قبضہ کر کے نہ بسایا گیا ہو۔ایودھیا میں ۱۴؍ مندر
ایسے ہیں جن کے مہنتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ رام جی کی پیدائش ان کے ہی مندر
میں ہوئی تھی۔ لیکن بھکت لوگ رام جی کی پیدائش مسجد میں مان رہے ہیں۔’تاج
محل ‘ کے لیے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ تاج محل شیو مندر پر بنایا گیا ہے،
بابری مسجد رام جنم بھومی پر بنی ہے۔
سرکس کے جوکرجو پروگرام پیش کرتے ہیں اس کو پہلے سے تیار کرتے ہیں اور
ریہرسل بھی کرتے ہیں۔بھکت لوگوں نے منہ کھولا او رجو منہ میں آیا بول دیا۔
کچھ کہنے کے لیے جب تک ہوم ورک اور ٹیبل ورک نہیں کریں گے ہمیشہ غلط بولیں
گے۔بولنے والے کو سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے ورنہ اس کے منہ کی بدبو دور دور
تک محسوس کی جاتی ہے۔سچا ڈیرا سودا کا قیام ۱۹۴۸ء میں سرسا میں ہوا تھاجس
کا رقبہ سات سو ایکڑ کا ہے۔محض ۶۹؍ سال پہلے ہریانہ صوبہ میں اتنی بڑی زمین
ڈیرے کے لیے موجود تھی۔اور 492سال پہلے بابر کے زمانے میں اتنی زمین نہیں
تھی کہ بابر کو مندر گرا کر مسجد بنوانی پڑی۔اُس بابرپر یہ الزام جس نے
اپنے بیٹے‘ہمایوں‘ کو یہ وصےّت کی تھی کہ ’’اگر بھارت پرحکومت کرنا ہو گا
توبرادران وطن کے مذہبی جذبات کااحترام کرتے ہوئے گؤ کشی پر پابندی رکھنا‘‘
اور یہ پابندی پورے مغل دور میں رہی۔یہی بابر کے بیٹے ہمایوں نے چتّوڑ کی
رانی کرما وتی کی راکھی کے دھاگوں کا احترام کرتے ہوئے اس کے دشمن بہادر
شاہ پرفوج کشی کر کے کرما وتی کے حکومت کی حفاظت کی تھی۔اس طرح کی سوچ
رکھنے والے مغلوں سے کیا یہ امید کی جا سکتی ہے مندر گرا کر اس پر مسجد
تعمیر کرے گا۔جب کہ اس وقت آبادی بھی اتنی نہیں رہی ہوگی ہر طرف زمین ہی
زمین رہی ہوگی اس وقت برادران وطن سے ہمدردی رکھنے والے مغل کسی مندر کوگرا
کر مسجدکی تعمیرکی بات صرف بیوقوف اندھ بھکت ہی کرسکتے ہیں۔ مسلمامان جانتا
ہے کہ کوئی بھی مسجد خریدی ہوئی زمین پر ہی تعمیر ہو سکتی ہے۔زوروذبر دستی
سے حاصل کی گئی زمین پر مسجد تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔جب کہ آج بھکتوں کا یہ
حال ہے جہاں بھی خالی جگہ دیکھی ایک پتھر رکھ کر مندر کی دوکان سجا لی۔
آج کے زمانے میں جتنے بھی بھکت ہیں ان میں سے کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے
کہ وہ تلسی داس جی سے بڑا رام بھکت ہے ؟تلسی داس جی نے ’رام چرت مانس‘ اکبر
کے زمانے میں لکھی تھی۔انھوں نے مندر گرائے جانے کا کچھ بھی اشارہ نہیں
دیا۔ کیا تلسی داس جی ہندو مذہب کے ساتھ اتنا بڑا ظلم برداشت کر سکتے
تھے؟کیااکبر مہان اتنا ظالم تھا کہ اس کے دربار میں فریاد نہیں کی جا سکتی
تھی۔ بات یہ ہے کہ انگریزوں کے چاپلوسوں اورگوڈسے کی اولاد کو جھوٹ کی رسّی
بٹنے کی عادت پڑ چکی ہے اور وہ اپنی اس عادت سے مجبور ہیں۔بھکتوں کے بقول
مسلمان بادشاہ اُسی جگہ پر قطب مینار ،بابری مسجد، ہمایوں کا مقبرہ،تاج محل
بنواتے تھے جہاں پرکوئی مندر ہوتا تھا۔اگر مغل ایسا ہی کرتے تو سب سے پہلے
کھجوراہوں سے نپٹتے۔
لیکن آج بھارت کی بد قسمتی یہ ہے آج بد عنوان لوگ کالا دھن ختم کرنے کی بات
کر رہے ہیں، سبزی خور گوشت کھانے کا پروگرام طے کر رہے ہیں، برہمچاری لوگ
بچہ پیدا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں،انتخاب میں ہارے لوگ وزیر بن رہے ہیں،
آزادی کی لڑائی نہ لڑنے والی تنظیم ملک سے وفاداری کا سبق سکھا رہی ہے۔
سوشل میڈیاکی ایک جانی مانی شخصیت جناب گوپال راٹھی صاحب نے لکھا’’2003میں
بھارت میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی اور جمو کشمیر میں بی․جے․پی․ کے
پسندیدہ گورنر ایس․کے․سنہاجی تھے۔مسلم اسکالر ذاکر نائک کو کشمیر بلایا گیا
تاکہ وہ نو جوانوں کے دِل سے دہشت گردی کو نکال کر امن کی طرف لے جانے والا
راستہ دکھائیں۔گورنر سنہا صاحب نے ’راج بھون ‘ میں ڈاکٹر ذاکر نائک کا خیر
مقدم کیااور وہیں انھوں نے قیام کیااور صوبہ میں کئی پروگرام کیے۔
2013میں منموہن سنگھ کی حکومت میں ڈاکٹر ذاکر نائک کوسردار ولّبھ بھائی
پٹیل نیشنل پولیس اکاڈمی، حیدر آبادمیں ’جہاد اور دہشت گردی‘ کے عنوان
پرخطاب کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ لکچر آئی․پی․ایس․ اور آئی․ایف․ایس․
افسران کے لیے تھا۔
جو شخص کشمیر میں نوجوانوں کو دہشت گردی سے دور کرنے کے لیے بی․جے․پی․
حکومت کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے اُسی شخص پربنگلا دیش میں دہشت گردی کو
بڑھاوا دینے کا الزام لگایا جاتا ہے وہ بھی محض ایک شخص کے مشتبہ بیان پر۔
ڈاکٹر ذاکر نائک ایسا مسلمان ہے جس نے برادران وطن کوویدپڑھنے کی ترغیب دی
ورنہ پنڈتوں نے تو یہی بتایا تھا کہ کوئی مرے یا پیدا ہو، شادی ہو یا کسی
کی برسی ہو، تیرہی ہو ، ان مواقوں پرپنڈتوں کو بھر پیٹ کھانا کھلانا اور
دان دکشنا دینا ہی ثواب کے کام ہے اور یہی ہندو مذہب ہے۔ |