ژاں ژاک روسو جسے انقلاب فرانس کا ’’روحانی باپ‘‘
کہا جاتا ہے حکمرانی اور حکمرانوں کے بارے بہت خوبصورت باتیں کہتا ہے۔روسو
کے بقول جو کام ایک سو چیدہ افراد کے ہاتھوں اچھی طرح انجام پا سکتا ہے اسے
بیس ہزار آدمی خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے سکتے۔روسو کے بقول ایک کام جس
قد ر زیادہ آدمیوں کے سپرد کیا جائے گا اسی اعتبار سے اس کی انجام دہی میں
زیادہ خلل واقع ہو گا اور حزم و احتیاط پر زیادہ زور دینے کا نتیجہ اکثر یہ
ہوتا ہے کہ قسمت پرکچھ بھی اٹھا نہیں رکھا جاتا، مواقع ہاتھ سے کھو دئیے
جاتے ہیں اور حد سے زیادہ غور و فکر کی بدولت اکثر غور و فکر کا ثمر ہاتھ
سے جاتا رہتا ہے۔عمال کی کثرت حکومت کو کمزور کرتی ہے۔
روسو کی کہی ہوئی یہ سادہ سی بات ہمارے حکمرانوں کے فہم سے بہت بالا
ہے۔یہاں تو چھوٹی سی شکایت کے ازالے کے لئے ایک پورا ادارہ وجود میں آ جاتا
ہے او ر پھر اس ادارے کی نگرانی کے لئے ایک اور نیا ادارہ وجود میں آتا ہے
اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے ۔یوں ہمارے حکمران اپنے کٹھ پتلی سیاسی
ورکرز کو کھپانے کا سامان کر لیتے ہیں۔وہ نئے ادارے اورنئے بھرتی شدہ نا
اہل لوگ پرانے اداروں کی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔کبھی ہم نوحہ کرتے تھے کہ
اداروں میں بگاڑ بڑھ رہا ہے اس لئے کہ ہر شاخ پر الو بیٹھاہے مگر آج قحط
الرجال کا یہ عالم ہے کہ اب الو بھی نایاب ہیں۔جس شعبے پر نظر ڈالو، وحشت
ہوتی ہے۔کام چوری، نا اہلی، رشوت ، جوڑ توڑ، کوئی میرٹ نہیں۔ میرٹ ہے تو
فقط حوالہ، کاسہ لیسی، اقربا پروری، جی حضوری۔جب اوپر اس قماش کے سیاست دان
آ جائیں کہ جو سیاسی دنیا سے باہر چپڑاسی بھرتی بھی نہ ہو سکتے ہوں۔ جن میں
بہتوں کی ڈگریاں جعلی ہوں یا جعلسازی سے حاصل کی ہوں اور کچھ کہیں کہ ڈگری
ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی کیوں نہ ہو۔تو ملک کا ہر ادارہ تو فن کاروں اور
جعلسازوں کا اجتماع بن جائے گا۔ اتنی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تو ظاہر ہے۔
سبھی ادارے کھنڈروات ہونگے اور اوپر بیٹھے سربراہ گدھ۔
ساری عمر تعلیم کے شعبے میں گزری ہے ۔ جب میں طالبعلم تھا تو طلبا کی
بھرپور نمائندگی کی۔ اب پچھلے پنتالیس (45) سال سے پڑھا رہا ہوں ۔ اس دوران
بھی اساتذہ کے نمائندے کی حیثیت سے بہت عرصہ مصروف عمل رہا ہوں۔اساتذہ کی
فلاح اور تعلیمی اداروں کی آزادی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا ہوں۔ایک وقت تھا
کہ تعلیمی ادارے نامور اساتذہ کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ وہ اساتذہ پڑھانا
جن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔جنہیں تنخواہ کو حلال کرنا آتا تھا۔د وچھٹیاں ہو
جائیں اور وہ نہ پڑھا سکیں تو پریشان ہو جاتے۔ان کی عظمتوں او ررفعتوں کو
کوئی چھو نہیں سکتا تھا۔ وہ اساتذہ کہ جن کا نام آج بھی سن کر لوگ احترام
دیتے ہیں ،نہیں ملتے۔اب تعلیمی ادارے ایسے لوگوں سے محروم ہیں۔ اساتذہ
ریسرچ کے نام پر عیش کرتے ہیں سیاست کرتے ہیں۔آرام کرتے ہیں۔ کاغذی
کاروائیاں حد سے زیادہ مگر عملی طور پر کچھ نہیں۔ اپنے طلبا پر ان کی گرفت
بہت کمزور ہے۔ اداروں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت کی وجہ بھی اساتذہ کی
کمزور تدریس کے علاوہ کچھ نہیں۔
کوئی وقت تھا ہماری پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں بڑی آزادی سے کام کرتی تھیں۔ ہر
یونیورسٹی میں درجنوں ڈیپارٹمنٹ تھے اور ہر ایک شعبے میں انتہائی سینئر اور
قابل اساتذہ کی بڑی تعداد موجود تھی ۔یونیورسٹی کا نظم و نسق ہو یا اکیڈمک
کی بات ہو۔یہ اساتذہ تمام امور بڑی خوش اسلوبی پایہ تکمیل کو پہنچاتے
تھے۔وہ لوگ آزاد تھے۔ یونیورسٹی کی پالیسیاں بنانے میں بھی اور نظم و نسق
کے حوالے سے بھی ۔ان اساتذہ کا علم مستند تھا اور مستند ہے۔ ماضی میں اسی
بنا پر ان جامعات کو پوری آزادی حاصل رہی ہے ۔یہ استاد اس معاشرے کے سب سے
زیادہ پڑھے لکھے اور معتبر لوگ ہیں۔ ہمیشہ انہی میں سے سینئر شخص وائس
چانسلر ہوتا رہا ہے۔مگر آج صورت حال ایسی نہیں ۔ سیاسی مداخلت ہے کہ بڑھتی
جا رہی ہے۔ حکومت وائس چانسلر بھی اوپر سے نازل کرتی ہے۔نسبتاًبہت زیادہ ان
پڑھ سیاسی لوگوں کا ملک کی انتہائی پڑھی لکھی کمیونٹی کے لیڈر کا انتخاب
کرنا افسوس ناک ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔
وہی انتظامی آزادی جو برسوں ان جامعات کو میسر رہی، آج بھی ان جامعات کی
ضرورت ہے۔مگر کوئی اس بات کو محسوس نہیں کرتا۔ مشرف دور میں ہائر ایجوکیشن
کمیشن نے حد سے زیادہ مداخلت کی اور ان جامعات کی آزادی کو برباد کیا۔ گو
جامعات کو فنڈ تو پہلے سے زیادہ ملے مگر اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ
ہوا۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو شتر بے مہار بنانے کی ناکام سعی نے
کہیں اور تو کچھ نہیں کیا ، صوبوں میں نئے بننے والے ہائر ایجو کیشن کمیشن
کی مدد سے جامعات کی آزادی کو مزید سلب کیا ا ور اب ہائر ایجوکیشن کی
منسٹری نے تو جامعات کو پوری طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ وزیر ہائر ایجوکیشن
جامعہ کے ملازمین سے ذاتی ملازموں کی طرح پیش آتے اور جامعات کو جاگیر
سمجھتے ہیں۔ اصل میں یہ ان کا اتنا قصور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کی ہمارا سیاسی
کلچر ان لوگوں پر مشتمل ہے کی جو تمیز اور بد تمیزی ، اچھائی اور برائی،
جائز اور نا جائزکے فرق ہی سے نا آشنا ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز جو ان کے
مفاد میں ہے جائز ہے اور جہاں ان کے مفاد کا ٹکراؤ ہو وہ چیز ان کے ہی نہیں
آئین اور قانون کے بھی خلاف ہے، گویا آئین اور قانون ان کے گھر کی باندیاں
ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں قانون اور آئین
کی سمجھ بوجھ ہی نہیں اور جنہیں ہے وہ اسے موم کی ناک سمجھتے ہیں۔
ماضی میں یونیورسٹی سنڈیکیٹ اور سینٹ آزاد ادارے تھے۔ وائس چانسلر کی صدارت
میں یونیورسٹی کے ممبر اساتذہ تمام فیصلے خود کرتے تھے۔ اب سیاسی مداخلت کا
یہ عالم ہے کہ نئے یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق وزیر ہائر ایجو کیشن سنڈیکیٹ
اور سینٹ کے اجلاس کی صدارت کریں گے اور یوں اپنے سیاسی ساتھیوں کے مفادات
کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کو سیاسی اکھاڑا بنانے میں اہم کردار
ادا کریں گے۔ہر ایم این اے اور ہر ایم پی اے کی خواہش ہے کہ سیاسی نعرے کے
طور پر اس کے حلقے میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے یا کم از کم یونیورسٹی
کا اعلان ہو کر اس کا بورڈ کسی عمارت پر آویزاں ہو جائے۔ چنانچہ اب ساہیوال
یونیوسٹی اور جھنگ یونیورسٹی اور بہت سی دوسری یونیورسٹیاں وجود میں آگئی
ہیں۔ اگر کھمبیوں کی طرح یونہی یونیوسٹیاں پیدا ہوتی رہیں تو عنقریب لاہور
سے ملتان تک بھائی پھیرو یونیورسٹی، پتوکی یونیورسٹی ، رینالہ خورد
یونیورسٹی، عارف والہ یونیورسٹی ،بورے والہ یونیورسٹی ا ور بہت سی
یونیورسٹیاں نظر آئیں گی ۔ مگر صرف ایک بورڈ کی حد تک۔ یہی صورت حال لاہور
سے راولپنڈی جاتے ہوئے نظر آئے گی۔ موجودہ حکومت اگر برقرار رہی تو پنجاب
میں تھانے کم اور یونیورسٹیاں زیادہ ہو جائیں گی۔
ساہیوال یونیورسٹی کی بات چلی تو یاد آیا کہ یہاں اصل میں بہاؤ الدین
یونیورسٹی ملتان کا سب کیمپس تھااور بہت خوش اسلوبی سے اس علاقے کے طلبا کو
تدریس کی سہولتیں فراہم کر رہا تھا۔ کسی سیاستدان کی حماقت کہ حکومت پر
دباؤ ڈال کر اسے ساہیوال یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ اس نئی یونیورسٹی
کے پہلے وائس چانسلر کا چارج وقتی طور پر ایجو کیشن یونیورسٹی کے وائس
چانسلر جناب روف اعظم کو دیا گیا، بغیر کسی فنڈ، بغیر کسی اختیار ، بغیر
کسی عملے اور بغیر کسی تعاون انہوں نے چھ ماہ گزارے۔ بعد میں وہ چارج وہاں
کے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کو دے دیا گیا۔اب وہ بہاؤالدین یونیورسٹی کے سب
کیمپس کے طور پر چلنے والا خوبصورت ادارہ تباہ ہو چکا۔اب اس کیمپس میں الو
بولنے والا سماں ہے۔ لگتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیم کونا اہل
ہاتھوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کے لوگ نا اہل حکمرانوں اور
حکومت کے لئے امرت د ھارے سہی مگر یونیورسٹیاں چلانا ان کے بس میں نہیں۔
حکومت اگر تعلیم کی اصلاح چاہتی ہے تو اسے پبلک یونیورسٹیوں کو مکمل آزادی
دینا ہو گی۔ وائس چانسلر باہر سے امپورٹ کرنے کی بجائے آرمی کی طرز پر
سینیئرز میں سے کسی کا انتخاب کرکے تعینات کیا جائے۔ جب تک کسی بھی شہر میں
اساتذہ کی مطلوبہ تعداد میسر نہ ہو وہاں کسی نئی یونیورسٹی کی بنیاد نہ
رکھی جائے ۔ سینئر اساتذہ کی موجودگی میں کسی نا بالغ وزیر کایونیورسٹیوں
کے معاملات میں دخل دینا ایک معیوب عمل ہے اور اسے معیوب ہی سمجھا جانا
چاہیے۔بیوروکریسی کا تعلیمی معاملات کوئی دخل نہ رکھا جائے۔ماسوائے فنڈنگ
کے اکیڈمک اور نظم و نسق کے معاملات میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پبلک
یونیورسٹیوں کی بجائے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے معاملات کنٹرول کرنا زیادہ
مناسب اور وقت کی ضرورت ہے۔پبلک یونیورسٹیوں کوتمام سرکاری اداروں کی دست
برد سے بچانا حکومت کا مطمع نظر ہونا چائیے۔ |