پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی

پاکستان کا نام FATFمیں شامل کرلیا گیا اس کی تصدیق دفتر خارجہ نے بھی کردی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا ہے کہ جی ہمارا نام FATFمیں آگیا ہے، جون میں اس کو باقاعدہ شامل کرلیا جائے گا۔ ترجمان نے مزید انکشاف کیا کہ ہم نے اس حوالے سے پہلے ہی تیاری کرلی تھی لیکن بلیک لسٹ میں نہیں آئے گا ۔بہت شکریہ ،حکومت پاکستان کا کہ اس نے پہلے ہی تیاری کرلی تھی اور تیاری تو کرنی تھی کیونکہ پچھلے 4سال سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا وہ تو ہمارے اعمالوں کی وجہ سے ہمیں 2013ء میں ایسا وزیر اعظم مل گیا تھا جس نے اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھ لیا تھا ۔اسی خود اعتمادی نے ان کونا اہل بھی کروادیا اور ملک کو دوبارہ سے گرے لسٹ میں شامل کروادیا ۔پاکستان کو سفارتی ناکامی صرف FATF میں نہیں ہوئی ہے بلکہ کئی اور اہم ایشوز پر پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام رہی ہے ۔سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ہندوستان نے CPECکے خلاف دنیا بھر میں پاکستان مخالف مہم چلا رکھی ہے ۔اس بھارتی مہم میں پاکستان کی بعض ایسی تنظیموں کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنا تھا جو ہندوستان میں ہونے والے مظالم پر پاکستان میں احتجاج کرتے تھے بلکہ دنیامیں کسی دہشت گردی میں بھی ملوث نہیں تھے ،جیسے موضوعات شامل تھے۔ ہندوستان نے دنیا میں جب بھی پاکستان کے خلاف مہم چلائی ،وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر ،وہ کامیاب رہا ۔جب پاکستانی حکومت کو ہوش آیا اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا تھا ۔پاکستانی حکومت سوائے دنیا کوسمجھانے کے اور کچھ نہیں کر پاتی ۔پاکستان کو مشرف ادوار کے بعد جتنی سفارتی محاذ پر ناکامی ملی ہے شاید تاریخ میں کبھی بھی اتنی شرمندگی کا سامنا نہیں ہوا ہوگا۔

چین نے پاکستان میں اگر سرمایہ کاری کی ہے ،اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے اپنے مفادات ہیں ورنہ چین مذہبی اعتبار سے پاکستان سے زیادہ ہندوستان کے قریب ہے ۔گوادر دنیا کے لیے ایک ْغیرتراشیدہ ہیرے کی مانند ہے۔ ہر ملک کی نظر اس وقت گوادر پر ہے، یہاں تک کہ ہندوستان بھی بلوچستان میں ہونے والے ہر دہشت گردی کے منصوبے میں شامل ہے۔ اس کا اعتراف ہندوستان کے آفیسر کل بھوشن یادیو نے خود کئی مرتبہ اپنے ویڈیو اعترافی بیانات میں کیا ہے۔ ہندوستان کی حکومت بھی اس بات کو مانتی ہے کہ وہ ہمارا آفیسر ہے لیکن پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے ابھی تک ہم اس کو دنیا میں اس طرح نہیں پیش کرسکے جس طرح ہندوستان نے ممبئی حملے میں گرفتار اجمل قصاب کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا ۔ممبئی حملے کی حقیقت بھی ایک جرمن لکھاری نے اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ ممبئی حملہ ہندوستان اور امریکا کا خود ساختہ تھا ،جس کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا تھا ۔
جرمنی کے صحافی نے کتاب لکھ کر پاکستان کے حق میں بات کی ،مگرافسوس کہ ہمارے دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد کو شاید اس کتاب اور اس لکھاری کے انکشافات کو بنیاد بنا کر دنیاسے کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا ۔ہماری حکومتیں پچھلے دس سال سے اپنی کرپشن اور گناہوں کو مٹانے میں لگی ہوئی ہے،ملک کی اس کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں ہونے والے نا اہل سیاست دان نواز شریف ان کو نہ ہی اپنی حکومت میں پاکستان کے حوالے سے کوئی فکر تھی اور نہ اب ہے۔ ان کا ہر مرتبہ ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا ؟ لیکن ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میرا ان سے یہ سوال ہے کہ آپ نے اپنے ادوار میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسی بنائی تھی کہ آج پاکستان پوری دنیا میں سفارتی محاذ پر اکیلا ہے ۔ان سے پہلے ادوار میں زرداری صاحب کی پالیسی یہ تھی کہ ان کے دور حکومت میں ایک ایسے شخص کو امریکا میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا تھا جس نے پاکستان کے کئی قیمتی راز امریکا کے حوالے کردیئے اور پھر پاکستانی عدالت سے ضمانت پر امریکا فرار ہوگئے ۔اب وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ہندوستان سے مل کر بھر پور مہم چلا رہے ہیں۔ اس بات پر نہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی کوئی ندامت کہ ان کی نظر میں پاکستان سے زیادہ ان کی سیاست اہم ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کو کون سمجھائے کہ اگر یہ ارض وطن ہے تو تمہاری سیاست ہے ورنہ جن کو تم اپنا دوست سمجھ رہے ہو وہی تمہارے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔

اس نازک صورت حال میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ خاموش تماشائی نہ بنے بلکہ اس پر کوئی اقدام لے ورنہ پاکستانی سیاست دان اپنے خاندانی مسائل ہی حل کرتے رہیں گے اور پاکستان دنیا بھر میں اسی طرح سفارتی ناکامی کا سامنا کرتا رہے گا۔ ابھی سی پیک کا آغاز ہے۔ اگر اسی طرح کی سفارتی مہم چلتی رہی تو پاکستان کے سی پیک پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں ۔پاکستان میں نہ ہی کسی انقلاب کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی معجزے کی ،اگر ضرورت ہے تو بیداری کی اور وہ جب ہی ممکن ہے جب ہر فرد اپنی ذمہ داری نبھائے اورملک کیلئے کام کرے ۔

Muhammad Asif
About the Author: Muhammad Asif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.