کامران یوسف نوجوان کشمیر صحافی ہیں،جن کی بھارت کی غیر
قانونی حراست میں 6ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ ان کا تعلق پلوامہ سے ہے۔ یہشہر
جنوبی کشمیر میں آتا ہے۔ جنوبی کشمیر میں بھارتی قابض فورسز کو عوام کی
جانب سے زبدست مزاحمت کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو 70سال جے
جابرانہ تسلط کے بعد پہلی بار اس قدر سخت عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ بھارت
کے چند یک اخبارات اور نیوز چینلز مقبوضہ کشمیر میں فورسز کے مظالم کی جانب
توجہ دیتے ہیں۔ مقامی صحافیوں کی رپورٹیں سنسر کی جاتی ہیں۔ ایسے میں مقامی
میڈیا پر سخت دباؤ ہے۔ کشمیر کے اخبارات اور صحافی بھارتی انتقام اور
امتیازی سلوک کا شکار بنتے ہیں۔ اگر وہ فورسز کے تشدد اور ریاستی دہشگردی
کو اجاگر کریں تو ان کے اشتہارات بند ہو جاتے ہیں۔ انہیں ہراساں کیا جاتا
ہے اور سنسر شپ سمیت اخبارات بند کر دیئے جاتے ہیں۔ کامران یوسف بھی بھارتی
انتقام کا تازہ نشانہ ہیں۔ چار ستمبر 2017کو پریس فوٹو گرافر کو پلوامہ سے
پولیس نے حراست میں لیا۔ اور اسے بھارت کی بدنام زمانہ ایجنسی این آئی اے
نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس اینسی نے کشمیری آزادی پسندوں کے خلاف
محاز شروع کیا ہے۔ کشمیری تاجر، سول سوسائٹی کے کارکن، بھی اس نے زیر عتاب
لائے ہیں۔ لا تعداد کشمیری اس کی قید میں ہیں۔ جو کہ حبس بے جا ہے۔ 23سالہ
کامران یوسف کو حراست میں لینے کے بعد اس ایجنسی نے کشمیری میڈیا کے لئے من
پسند راہنما اصول پیش کئے۔ یہ اب این آئی اے طے کر رہی ہے کہ کون صحافی ہے
یا نہیں۔ ایجنسی یہ بھی طے کر رہی ہے کہ صحافی کو کیسی اور کس طرح صحافت
کرنی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی اب میڈیا کے ضابطے بنا رہی ہے۔ اگر چہ کامران
یوسف کئی مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا اداروں سے بابستہ ہیں۔ مگر این آئی اے
کشمیری صحافیوں سے تقاجا کر رہی ہے کہ وہ کشمیر میں بھارتی فورسز کا مثبت
کردار اجاگر کریں۔ فوج اگر کسی کشمیر کو قتل بھی کر دے تو اس کی تعریف کی
جائے۔ کشمیریوں کی مزاحمت، پتھراؤ، مظاہروں، کی تشہیر نہ کی جائے۔ کشمیری
پریس فوٹو گرافر کو حراست میں رکھنے پر چارج شیٹ تیار کی گئی۔ اس مین
فوتوگرافر پر الزام ہے کہ وہ صحافی نہیں بلکہ سنگ باز ہے۔ وہ بھارتی فورسز
پر پتھراؤ کرتا ہے۔ وہ پلوں اور سکولں کے افتتاح ، بھارتی فورسز کی مثبت
سرگرمیوں کی تشہیر کے بجائے عوام کی مزاحمت کی تصویر کشی کرتا ہے۔ جس پر
کشمیر کے صحافیوں اور تمام میڈیا تنظیموں نے احتجاج کیا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن
آف جرنلسٹس نے بھی کامران یوسف کی گرفتاری اور حبس بے جا میں رکھنے کی مذمت
کی۔ اسے فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ پریس کونسل آف انڈیا نے بھی مثبت
کردار ادا کرتے ہوئے این آئی اے اور پولیس حکام کو نوٹس جاری کئے اور اس
گرفتاری پر تشویش ظاہر کی۔ این آئی اے کو بھارتی حکومت نے 2008میں تشکیل
دیا ہے۔ جس کو بہت اختیارات دیئے گئے ہیں۔ ان اختیارات کا کشمیر ی آزادی
پسندوں اور میڈیا کے خلاف غلط استعمال ہو رہاہے۔ این آئی اے نے 18جنوری
2018کو کامران یوسف کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کی اس میں صحافیوں کے اخلاقی
فرائض کا تعین کیا گیا۔ چارج شیٹ میں منطق پیش کی گئی کہ اگر کامران یوسف
اصلی صحافی ہوتے تو وہ اخلاقی ڈیوٹی انجام دیتے۔ لیکن انھوں نے بھارتی
فورسز کے اچھے کام یا حکومت کے کاموں کو جاگر نہ کیا۔ اس لئے وہ حقیقی
صحافی نہیں۔ بھارتی این آئی اے کی یہ کشمیر صحافی کے خلاف چارج شیٹ ہے کہ
اس نے حکومت کی ترقیاتی سرگرمیوں کو اجاگر نہ کیا۔ جس کی اسے سزائے قید دی
گئی۔ ابھی بھی کامران یوسف بھارتی ٹارچر سیل میں ہے۔ این آئی اے کی قید
آزادی سحافت اور آزادی اطہار رائے پر نئی بھارتی قدغن ہے۔ کشمیری کس طرح کی
صحافت کریں، یہ اب بھارت کی بدنام زمانہ انٹلی جنس ایجنسی طے کر رہی ہے۔ یہ
بھارتی ڈکٹیشن تمام میڈیا اسولوں اور ضوابط کے منافی ہے۔ یہ سمجھا جا سکتا
ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا میڈیا کس طرح انتقام اور امتیاز کا شکار بنایا جا
رہا ہے۔ کس طرح بے بنیاد الزامات لگا کر کشمیری صحافی کو 6ماہ سے دہلی کے
ٹارچر سیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جمہوریت کی علمبرادری کا
دعویدار بھارت کس طرح کشمیریوں کے بنیادی حقوق بھی پامال کر رہا ہے۔
کشمیریوں کی غلامی اور لاچاری و بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان مظالم کو
70سال سے سہہ رہ ہیں۔ اور بھارت کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دینے کے
بجائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے کے بجائے
کس طرح سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی مہم چلا رہا ہے۔ اور کس طرح دنیا
کے بعض ممالک بھارت کی حمایت کا سوچ رہے ہیں۔
کامران یوسف کی بے بنیاد الزامات اور حراست کی میڈیا تنظیموں کی مذمت اور
فوری رہائی کے مطالبے کو بھاترت کسی کاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ انسانی حقوق
کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کامران یوسف کی گرفتاری کی مذمت
کی۔ اس کی غیر مشروط رہائی کے لئے فوری ایکشن کی اپیل بھی جاری کی۔ مگر
بھارت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ کامران یوسف کی گرفتاری کے تین ماہ بعد سرینگر
میں ایک فراسیسی صحافی پال کومیتی کو پولیس نے گرفتار کیا۔ وہ سرینگر میں
10دسمبر2017کو فلم بندی کر رہے تھے۔ جو بھارت مخالف مطاہرے کی تھی۔ پولیس
نے بھارت مخلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے پر اسے حراست میں لیا مگر فوری بیان
جاری کیا کہ صحافی کو ویزاہ قانون کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ بھارت
کو یورپی صحافی کی بھارت مخالف مظاہرے کی فلم بندی پر اعتراض نہیں مگر
کشمیری فوٹوگرافر کی فوٹو گرافی پر اعتراض ہے بلکہ یہ قابل سزائے قید جرم
ہے۔ فرانسیسی سفارتخانے نے مداخلت کی اور اپنے شہری صحافی کو گرفتاری کے
فوری بعد رہا کرا کر لے گئے مگر کشمیری صحافی چھ ماہ سے بھارتی تارچر سنٹر
میں قید ہے۔ یورپ کے صحافی پال نے رہائی کے بعد ساف طور پر کہا کہ بھارت
مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور سچ چھپانا چاہتا
ہے۔ اس لئے انٹرنیشنل میڈیا کو کشمیر میں داخلے کی اجازت نہیں۔ مقامی میڈیا
کو سچ اجاگر کرنے پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارت کا کشمیری
صحافیوں کے ساتھ یہ سلوک ہے جو کامران یوسف کی قید سے ظاہر ہوتا ہے۔ دنیا
جان سکتی ہے کہ بھارت کا ایک مظلوم کشمیری اور آبادی کے ساتھ کیسا سلوک اور
رویہ ہو سکتا ہے۔ توقع ہے کہ پاکستان اور امن پسند دنیا، آزادی صحافت کے
علمبردار، انسانی حقوق کے تحفظ کے دعویدار ،بھارت کو کشمیر میں جارحیت اور
مظالم سے روکنے میں کردار ادا کریں گے۔ |