یہود و نصارٰی کی مخالفت کرو

کیا یہ دانشور اتنا بھی نہیں جانتے کہ سکولوں میں پڑھنے کے باوجود کافروں کے ملکوں میں ہزاروں لاکھوں کرائم ہوتے ہیں ان کی سزائیں دی جاتی ہیں کیا روڈ ایکسیڈنٹوں میں چوٹیں نہیں لگتیں کیا بھائی بہنیں رشتے دار آپس میں لڑائی نہیں کرتے کیا دوست کولیگ آپس میں نہیں لڑتے اور پولیس سزا اور جرمانہ نہیں کرتی کیا دولتمند بننے کے لئے خاندان کے خاندان ایک دوسرے کو مار نہیں ڈالتے کیا معمولی باتوں پر خود کشیاں نہیں ہوتیں تو اتنے کرائم روکنے کے لئے اگر مسلمان کوڑے مارنے کی سزا دے دیتے یا ڈنڈے مارنے کی سزا دے دیتے ہیں تو یہ اللہ کے نافرمان ناشکرے بے دین

حدیث پاک میں لکھا ہوا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کرو اس بنیاد پر جو لوگ عیسائی اور یہودی ہیں وہ اسلام قبول کرکے مسلمانوں سے شادیاں کرلیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اپنے پیغمبر کی بات پر عمل کرو کیونکہ ان کا فرمان یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کرو اور پھر یہ حدیث سناتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ عیسائیوں کی عزّت نا کرو تو تم لوگ عیسائیوں کی فلاں فلاں موقع پر عزّت کرتے ہوئے پائے گئے ہو اب بتاو تمھاری کیا سزا ہے اب کیا کیا جائے کہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کی سستی اور کمزوری کی وجہ سے مسلمان بہت تھوڑے رہتے جارہے ہیں ہم تو داڑھیاں اس لئے منڈواتے ہیں تاکہ تم اپنے نبی کی سنّت کے مطابق عمل کر سکو اور داڑھیاں رکھ سکو تو پھر سوچ لو کہ جو لوگ داڑھیاں نہیں رکھتے وہ ہمارے ساتھی ہیں اور جو لوگ داڑھیاں رکھتے وہ مسلمانوں کے ساتھی ہیں چاہے وہ غیر مسلم ہوں یا سکھ ہوں یا عیسائی ہوں اور اسی بات کو لیکر کہا جاتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کرو تو اس حساب سے جو گناہ تمھارے لیے کبیرہ ہیں وہ ہمارے لیے صغیرہ ہوئے اور جو گناہ تمحارے لیے صغیرہ ہیں وہ ہمارے لیے کبیرہ ہوئے تو اب بتاو کہ تمھارے گناہ کبیرہ کون کون سے ہیں فرض کریں اب آپ کا نماز کا ٹائم ہوگیا ہے تو آپ نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں تو جب بھی ملاقات ہوتی ہے ایک دن بعد یا دس دن بعد یا اس زیادہ دن بعد تو آپ لوگ تو بھول چکے ہوتے ہو کہ کیا سوال کیا گیا تھا تو ہم سوال کرتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کون کون سے ہیں تو آپ لوگ اور کی اور باتین کرنے لگ جاتے ہو اور یہی وہ حدیثیں ہیں جن سے ہمیں اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس بات مین مدد ملتی ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں کو کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے پیغبر کی باتوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں جب ہمیں تبلیغ کرنے کوشش کریں گے تو ہماری عزّت کریں گے اور ان کے پیغمبر کی نافرمانی ہو جائے گی -

اسی وجہ سے جب میں کسی عیسائی کو دعوت دینے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ تم نے مجھے بھائی صاحب کیوں کہا عقل کرو نالے بھائی تے نالے صاحب مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ تم نے کرنی ہی تبلیغ ہے اس لیے تم غیب نہیں جانتے اور ہم غیب جانتے ہیں ایک مرتبہ لاہور کام کے دوران میں ایک دکان پر کھڑا تھا تو ایک آدمی نے بتا یا کہ جس فیکٹری میں تم کام کرتے ہو اس میں ایک لڑکا کام کرتا ہے وہ لوگوں کو ایک الگ کلمہ پڑھاتا ہے وہ کلمہ یہ ہے کہ ہم تو پھانسی والے مسلمان ہیں اس طرح سے ملک پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں ایسے مسلماں پیدا ہوچکے جو غدّاری کے پیسے کھا کر گواہیاں بکتی ہیں اس میں اہم باتیں یہ ہورہی ہیں کہ قرآن پاک کی توہین کے ڈر سے کہ فوج کو قرآن اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے کہ جب خدا نخواستہ وہ فوجی دستہ ہندووں کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا تو ہندو قرآن پاک کی توہین کر دیں گے اور اس کے علاوہ مسجدوں کو تالے لگا دئیے جاتے ہیں کہ کہیں کوئی نشئی اندر داخل ہو کر قرآن پاک کی توہین نا کر دےاور کہیں کوئی بم دھماکہ نا کردے تو کیا مسجدیں ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں خطرہ ہے باقی ساری جگہیں محفوظ ہیں اور جواب یہ دیا جاتا ہے کہ بھائی زیادہ سے زیادہ یہ ہی ہوگا کہ ہم مارے جائیں گے لیکن قرآن پاک کی توہین تو نہیں ہوگی اسلئے ہم قرآن پاک دکانوں پہ کارخانوں میں اور دفتروں میں نہیں رکھتے ہیں یہ باتیں نواز شریف اور زرداری جیسے بڑے بڑے سیاست دانوں کی اولادیں کرتی ہیں کہ مسجدوں کو تالے لگاو کیوں کہ مولوی مسجدوں میں بیٹھے رہتے ہیں کہیں جاکر جہاد کریں یا کام دھندہ کریں ان باتوں کو ان کاموں کو انجام دینے کے لئے پیسے دئیے جاتے ہیں

اور سکولوں میں جہاد کی بات کرنا منع کیا جاتا ہے اور دڑایا جاتا ہے کہ افغانستان نے جہاد کیا اور عراق نے جہاد کیا تھا امریکہ نے ان پر کارپٹ بمباریاں کی اور ان کے لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا اور وہاں پر سکول کی تعلیم کو چالو کیا تو ہم امریکہ اور اتّحادیوں سے مار کھانے سے پہلے ہی سمجھ جائیں اور چپ چاپ ان کی تعلیم کو حاصل کریں جئیں اور جینے دیں اور امریکہ اور برطانیہ کے کہنے پر چائلڈ لیبر کا کام کرنے والے بچّوں کے والدیں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیں یا ان کو پاگل خانوں میں داخل کرائیں یا ان کو ہاتھ پاوں کاٹ کر اندھا کرکے بھیک مانگنے پر مجبور کریں کہ بچّوں سے کام کیوں کراتے ہو کیوں امریکہ کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہو کہیں وہ ہمیں بھی افغانستان کی طرح اورعراق کی طرح تباہ ناکردیں اور اسی طرح سے بچّوں کو پڑھنے میں زیادہ سے زیادہ پڑھنے کے لئے ٹیوشن اور اور اس طرح کی اور بہت سی مصروفیات دے دی جاتی ہیں کہ بچّے کہیں کھیل کے میدانوں کا رخ نا کرلیں کہ کھیلتے کھیلتے ان میں جہاد کا جذبہ پیدا ہوگیا تو بھی امریکہ کے ساتھ نمک حرامی ہوجائے گی ان سیاست دانوں کی اور اداکاروں کی اولادوں نے یہاں تک پاکستان میں امریکہ کے کہنے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں کہ حدیث کے مطابق کہ جب بچّہ بڑا ہو جائے اور سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز سکھانے کے لئے مسجد میں ساتھہ لے کر جائیں اور جب بچّہ 10 سال کا ہو جائَے تو اس کو نماز نا پڑھنے پر اس کی پٹائی کریں اور مار مار کر نماز پڑھائیں تو اس حدیث کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ دین میں زوروزبردستی نہیں ہے اس لئے مارنے کی ضرورت نہیں ہے بچّہ کو سمجھاتے رہیں جب اس کو اللہ ہدایت دے گا وہ خود ہی نماز شروع کردے گا کیونکہ حضور پاک نے اپنے چچا ابوطالب کو ترلے منتیں کرکے دعوت ہی دی تھی لیکن انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا کہ دوسرے سردار دیکھ رہے ہیں اس لئے ثابت ہوا کہ اسلام میں زور زبردستی نہیں ہے اس طرح سے مذاق آڑانے والے مذاق اڑاتے ہیں لیکن جب یہ خبریں سنتے ہیں کہ اسلام کا قانون نافذ کرنے کےلئے دو چار دس ڈنڈے مارنے کا قانون یا تعزیر شروع ہو گئی تو اس کو ختم کرنے کے لئے کارپٹ بمباریاں ہوئیں اور میزائل حملے ہوئے لاکھوں لوگ مارے گئے لاکھوں لوگ زخمی ہوئے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے یہ ناتو دہشت گردی ہے اور نا ہی زورو زبردستی ہے -

یہ فلسفہ ہے اس ہستی کا جس کا نام ہے حسن نثار اور پھر جب یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ مسلمانوں پر اتنا ظلم ہورہا ہے کہ ڈرون حملے کیے جارہے ہیں میزائل حملے کیے جارہے ہیں گرفتاریاں کی جارہی ہیں جیلوں میں بند کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بچّوں کے جہاز بھر بھر کر غلام بنا کر یورپ ملکوں میں لے جائے جارہے ہیں اور گاجر مولی اور بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹا جارہا ہے تو یہ اسلام اور ملک کے دانشور کہتے ہیں کہ جو درحقیقت غدّار ہیں بدترین منافق اورمکروہ ترین چہرے لئے ہوئے لواطت اور مردوں کی مردوں سے شادی اور عورتوں کی عورتوں سے شادی اور ایک عورت ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتی ہے بیک وقت اور عراق اور افغانستان میں قانون ہی یہ بن گیا ہے کہ جو یہ سب کرے گا اس کو ہم امن پسند مانیں گے تو پھر ان بےغیرت لاکھوں کروڑوں انسانوں کے قاتلوں کا یہ بیان ہوتا ہے کہ جب مسلمان برسراقتدار تھے تو وہ یہ سب کرتے تھے قتل وغارت کرتے تھے اس لئے یہ اقوام متحدہ والے حق رکھتے ہیں جہالت کو ختم کرنے کے لئے وہ یہ سب کر رہے ہیں اور مسلمانوں کا طریقہ جہالت کو ختم کرنے کا نماز اور دیگر اعمال صالحہ ہیں اور مسلمان اپنے ارکان اسلام پر عمل کرانے کے لئے دوچار دس ڈنڈے مار لیں یہ دہشت گردی اور ایکسٹریم ازم اور انتہا پسندی ہے یہ کہاں کا انصاف ہے یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ مسلمانوں کی جہالت ختم کرنے اور سکول کالج اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کےلئے اتنا بڑا لاشوں کا کاروبار ہی شروع کرلیا جاَئے یہ ان کا حق ہے یہ دانشوری رہ گئی ہے حسن نثار اور اس جیسے بے عقل نام نہاد دانشوروں کے لئے دوچار بچّوں کو بنیادی عبادت میں سستی پر دس کوڑے مارنے کی سزا بہت ہی زیادہ ہے اور مسلمانوں کو زبردستی سیکولر اور غیر مسلم بنانے کے لئے ملکوں کے ملک کھنڈرات میں تبدیل کرا دئے جائیں کیا یہ دجالیت نہیں ہے اور ہمارے دانشور اللہ کے نازل کردہ دین کو چھوڑ کر دجالیت کے پیروکار نہیں بن گئے ؟

کیا یہ دانشور اتنا بھی نہیں جانتے کہ سکولوں میں پڑھنے کے باوجود کافروں کے ملکوں میں ہزاروں لاکھوں کرائم ہوتے ہیں ان کی سزائیں دی جاتی ہیں کیا روڈ ایکسیڈنٹوں میں چوٹیں نہیں لگتیں کیا بھائی بہنیں رشتے دار آپس میں لڑائی نہیں کرتے کیا دوست کولیگ آپس میں نہیں لڑتے اور پولیس سزا اور جرمانہ نہیں کرتی کیا دولتمند بننے کے لئے خاندان کے خاندان ایک دوسرے کو مار نہیں ڈالتے کیا معمولی باتوں پر خود کشیاں نہیں ہوتیں تو اتنے کرائم روکنے کے لئے اگر مسلمان کوڑے مارنے کی سزا دے دیتے یا ڈنڈے مارنے کی سزا دے دیتے ہیں تو یہ اللہ کے نافرمان ناشکرے بے دین سیکولرازم کے ٹھیکیدار اپنی قوم مسلمانوں کے اتنے بڑے قاتل اس لئے نہیں بن گئے کہ ان کو مسلمانوں نے کسی گناہ کی سزا کے طور پر یا بے گناہی میں ہی اگر ڈنڈے تھپّڑ کوڑے وغیرہ مار لیتے ہیں تو اس میں ان ظالموں کا کیا نقصان ہوتا ہے پھر کہتے ہیں کہ یہ مسلمان حکمرانی کے لائق ہی نہیں ہیں اس لئے یہ سزائیں دینے کا کیا حق رکھتے ہیں سزائیں تو وہ لوگ دینے کا حق رکھتے ہیں جو مسلمانوں کو قرضہ دیتے ہیں حالانکہ وہ قرضہ نہیں ہوتا بلکہ مسلمانوں کے اصل اموال کی کرنسی ہوتی ہے اس کو ان کے ہی پیسے دے کر باقی قوم کے پیسےاپنے پاس رکھہ کر مروا رہے ہیں کیا فوج کو یہ نہیں چاہیے کہ ایسے لوگوں کے اوپر پابندیاں لگائیں اور ساری آبادیوں کے اوپر کنٹرول کرکے سب کو یرغمال بنا کر ان سے کام کرایا جائے اور جہاد کے لئے تیار کیا جائے کیا اس وقت یہ سب کرنے کی اشد ضرورت نہیں ہے کیا کرنسی نوٹ کی ہی حکمرانی چلے گی اور آرڈر کافروں کا ہی چلے گا کیا مسلمان آرڈر نہیں چلا سکتے کیا ایسی تقریروں اور تجزیہ نگاریوں پر پابندیاں نہیں لگائی جاسکتیں جو فرعونیت اور دجّالیت کو مسلمانوں پر مسلّط کر چکے ہیں وہ ان کو گوارہ ہے کہ کافر مسلمانوں کی لاشیں گرائیں اور مسلمانوں کا آپس میں معمولی مسئلوں پر جھگڑنا بھی جائز نہیں کہ کشتی لڑتے لڑتے اگر دوچار تھپڑ پڑ گئے یا بچّے کو آوارگی سے روکنے کے لئے دوچار ڈنڈے مار دئے کیا یہ ظلم ہے نہیں بلکہ امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے-

اس لئے افواج پاکستان کو سکولوں پر قبضہ کرنا ہوگا اور فوجی مشقیں شروع کرنی ہوں گی اور بچّوں کو جس طرح موٹر سائیکل کار ویں یا بس اور ٹرک وگیرہ جیسے سکھایا جاسکتا ہے اسی طرح سے اسلحہ بھی سکھایا جاسکتا ہے اور توپوں اور میزائلوں اور دیگر فوجی گاڑیوں کو صاف کرنے پر بچّوں کو معمور نہیں کیا جاسکتا کیا دوسر ےمحکموں میں آفس ورکنگ اور فیلڈ ورکنگ میں ساتھ نہیں لے جایا جاسکتا ہے اور بچّوں کو ویل ٹرینڈ اور نمازی اور قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکتا ہے یقیناّّ بنایا جاسکتا ہے مگر فوج کو سکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جوانوں کو نہیں بھیجنا چاہیے یقیناّّ بھیجنا چاہیے تاکہ افواج پاکستان کی تعداد لاکھوں کی بجائے کروڑوں میں ہو جائے اور ہر وقت تعداد کی قوّت اور اسلحہ کی تربیّت کی قوّت اورڈسپلن کی قوتوں میں اضافہ ہو بلا رنگ و نسل بلا قومی اور لسانی فرقے بندیوں اور پارٹی بازیوں کے ایک ایسا صحت مند معاشرہ بنایا جاسکے جس میں بیرون ملک سے لوگ آئیں اور ہمارے لئے بھی کمائیں اور اپنے لئے بھی کمائیں اور اور اپنے بال بچّوں کے لئے بھی کما کر گھر بھیجتے رہیں اور اسلام کو قبول کر کے افواج اسلام میں شامل ہوکر دنیا بھر سے ظلم کے خاتمے لئے بڑی تیاری کریں تاکہ مسلمانوں سے ظلم کرنے والے ڈریں اور مسلمان طویل عرصے سے کئے گئے ظلموں کا بدلہ لیں یہی صورتیں ہیں جن سے مسلمانوں کو افغانستان عراق اور شام میں اپنے اوپر ہونے والے ظلموں سے خلاصی مل سکتی ہے سقوط ڈھاکہ کی طرح پاکستان بھی ہندووں اورعیسائیوں اور یہودیوں اور بدھ متوں سے بنگلہ دیش کی طرح چھن جانے کے واضع آثار ہیں ان خطرات سے نمٹنا بھی ضروری ہے اور دوسرے اسلامی ملکوں مین امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے--------------------جاری ہے

محمد فاورق حسن
About the Author: محمد فاورق حسن Read More Articles by محمد فاورق حسن: 108 Articles with 138776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.