کمزور، ناقص، بے اختیار، دوسروں کی انگلیوں کے اشاروں پر
ناچنے والی حکومت سے عوام کی بھلائی کی ، خیر خواہی کی توقع کس طرح کی
جاسکتی ہے۔ حکومت سازی کا اختیار عوام نے نون لیگ کو اس صورت میں دیا تھا
کہ اس کے سربراہ میاں نواز شریف تھے، جو سیاست کا طویل تجربہ ، دوبار وزیر
اعظم ، پنجاب کے وزیر اعلیٰ، وزیر خزانہ رہ چکے تھے، پارٹی کو چلانے کا
طویل تجربہ رکھتے تھے۔ اب جب کہ انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نہ صرف
وزارت اعظمیٰ کے عہدہ کے لیے نا اہل قرار دے دیا بلکہ انہیں پارٹی کے
سربراہی کے حق سے بھی محروم کردیا۔ موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو
عوام نے یہ حق نہیں دیا کہ وہ ملک کے انتظامی امور کی سربراہی کریں، ملک کے
وزیر اعظم ہوں، یہ حق انہیں ایک نا اہل وزیر اعظم نے ، پارٹی کے نا اہل
سربراہ نے سونپا ہے، ایسا شخص جو قانونی طور پر نا اہل ہوچکا ہو اس کے وہ
تمام فیصلے جو اس نے اس دوران کیے کس طرح جائز ہوسکتے ہیں۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ جیسے ہی میاں صاحب پہلی بار نا اہل ہوئے تھے ، عدالت کے فیصلے
کو دل سے قبول کرتے ہوئے عوام کی عدالت میں چلے جاتے ، قبل از وقت انتخابات
کا اعلان کرتے، کیئر ٹیکر حکومت قائم کرتے ، عوام انہیں دوبارہ منتخب کر
لیتے یا مسترد کر دیتے ، چوتھی بار وزارت اعظمیٰ پر براجمان ہوجاتے۔ ’مجھے
کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا‘ کی گردان کر کر کے اپنا مزاق نہ بنواتے۔ لیکن
یہ اقتدار بھی بری بلا ہے۔ انہوں نے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی، ان کا خیال
تھا کہ ادارے دباؤ میں آجائیں گے اور ان کے فیصلے پر نظر ثانی ہوجائے گی
لیکن ایسا نہیں ہوا، انہوں نے پارٹی کے ایک سینئر شخص کو اپنا جانشین مقرر
کردیا جو پارٹی سے مخلص ہے، میاں صاحب کا دو ہزار فیصد وفادار ہے لیکن اس
میں قائدانہ صلاحیتوں کو فقدان ہے، اس میں حکومت کرنے کا تجربہ صفر ہے، وہ
حکومتی باریکیوں سے نہ واقف ہے، اسے اس بات کا احساس اور درد نہیں کہ حکومت
کے سربراہ میں عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے ، وہ جب جہاں
پر عوام پر ظلم یا زیادتی دیکھے فوری طور پر ایکشن لے اور عوام سے ہمدردی
کے دو بول ہی بول دے۔ ایسا وزیر اعظم جو از خود یہ کہتا پھرے کہ میرا وزیر
اعظم میاں محمد نواز شریف ہے تو وہ وزارت اعظمیٰ کیا خاک چلائے گا۔ اس کے
روز و شب تو اسی گردان میں صرف ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ اسے تختیاں لگانے
اور فیتے کاٹنے کے علاوہ ملک کی کوئی فکر نہیں۔ مہینوں ہوگئے ملک کا وزیر
خزانہ ملک سے باہر عدالت اسے اشتہاری قرار دیے چکی۔ وہ بدستور وزیر خزانہ
رہا، وزیراعظم میں اتنی جرت نہیں تھی کہ اس کی جگہ کسی اور کو یہ اہم ذمہ
داری سونپ دیتے۔ بے اختیار وزیر اعظم سے عوام کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
حکومت نے مسلسل ساتویں بار پیٹرول بم گرایاہے ، الزام اوگرا اور نیپرا پر ،
حکومت دودھ کی دھلی ہوئی ، معصوم ، بے اختیارو بے عمل ۔ پھر سوچنے سمجھنے
اور افسوس کی بات یہ کہ ملک کا انتظٖامی سربراہ عوام کی داد رسی بھی نہیں
کر رہا ، اس نے دو الفاظ بول کر عوام کو تسلی و تشفی دینے کی بھی زحمت
گوارانہیں کی۔ مسلسل پیٹرول کی مصنوعات میں اضافے کا اسباب کی وضاحت ہی
کردیتا۔ اس سے زیادہ بے حسی اور لاپروائی اور کیا ہوگی۔ قانونی جنگ آپ
لڑیں، مجھے کیوں نکالا کابیانیہ عوام میں لے جائیں، سب کچھ کریں لیکن جن کو
ملک کے انتظامی امور سونپ دئے گئے ہیں انہیں اپنی تمام تر توانائیاں اس میں
صرف کردینی چاہیے۔ انہیں حکومتی امور پر چوکس رہنا چاہیے ۔ آپ اپنا کام
کریں ، میاں صاحب اور ان کے درباریوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ مانا آپ بھی
اسی ٹیم کا حصہ ہیں لیکن آپ کو ایک اہم ذمہ داری سونپی گی ہے آپ پر لازم ہے
آپ ملک کے انتظامی امور کی کڑی نگرانی کریں۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی
خاقان عباسی صاحب نے قوم کو جو پہلا تحفہ دیا تھا وہ پیٹرل، مٹی کے تیل ،
ہائی اسپیڈ ڈیزل، لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔ اس کے بعد سے یہ
مسلسل تیسری مرتبہ ہے کہ اب پھر اس عمل کو دہراتے ہوئے پیٹرول ، ڈیزل اور
مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی میں انکشاف ہوا ہے کہ
پیٹرلیم مصنوعات پر80فیصد سے زائد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ ایف بی آر کے
اہداف پیٹرل مہنگا کر کے پورے کیے جارہے ہیں، چھ ماہ میں پیٹرول 30روپے تک
کا اضافہ کرکر کے عوام پر مہنگائی کا بم گرادیا گیا ہے۔ حکومت کس کو معلوم
نہیں کہ پیٹرول مصنوعات میں اضافہ سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوجاتی
ہے۔
یہ مہنگائی بم ہے جو اس عارضی چند ماہ کی حکومت نے غریب عوام پر گرایا ہے۔
اسے کیا فکر ، اس نے تو 90 دن بعد چلے جانا ہے ، خاقان عباسی کی ائر لائن
کے جہازوں کے لیے پیٹرول تو مسافروں کی جیب سے جاتا ہے۔ جس قدر پیٹرول
مہنگا ہوا وہ اپنی ائر لائن کا کرایہ بڑھا کر خسارہ پورا کرلیں گے۔ دیدہ
دلیری کی انتہا ، عوام دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔جب پوچھا جاتا ہے تو
حکومتی ذمہ داران فرماتے ہیں کہ یہ اوگرا اور نیپرا کی سفارشات ہیں حکومت
کی نہیں۔پھر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اب بھی قیمتیں بھارت اور بنگلہ دیش
اور ترکی سے کم ہیں۔ عوام کو خوش کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے
پاس جانے کا ارادہ ہے نہ ایمنسٹی اسکیم یا بانڈ لارہے ہیں۔ عوام کی آنکھوں
میں دھول جھونکنا نہیں تو اور کیا ہے ۔کیا اوگرا یا نیپرا حکومتی ادارے
نہیں۔ حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں۔ اس سے پہلے بھی ماضی میں میاں نواز
شریف نے اوگرا کی سفاشات کو کئی مرتبہ واپس کرتے ہوئے ان کی سفارشات کو رد
کیا تھا ۔ موجودہ وزیر اعظم کی آنکھوں پر نہ معلوم کس چیز کی پٹی بندھی ہے
کہ اسے عوام پر ہونے والے ظلم و زیادتی کا احساس ہی نہیں۔ اسی حکومت کے
وزیر خزانہ جن سے شاید اب خزانہ کا قلم دان واپس لے لیا گیا ہے ملک کو
مقروض کر کے رکھ دیا ہے۔ اسحاق ڈار تو تھے ہی قرض لینے کے ماہر ، آئی ایم
ایف اور ورلڈ بنک کو ایسا شیشے میں اتارتے تھے کہ حکام ان پرنہال اور قربان
ہوجاتے ۔قرض ایک الگ موضوع ہے کہ موجودہ حکومت قرض لے گی یا نہیں لیکن جو
قرض لیا ہوا ہے اس کی قسط تو واپس کرنا ہی ہوگی ، یہ حکومت تو قرض کی قسط
دینے کے لیے بھی قرض لیتی رہی ہے۔ پہلے جب پیٹرول مصنوعات کی قیمتیں بڑھی
تھیں اس وقت مفتاح اسماعیل نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے قیمتوں میں
اضافے کو جائز قرار دیا تھا ۔ اب ایک اور حکومتی عہدیدار ڈاکٹر رانا افضل
نے قومی اسمبلی میں اقرار کیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیٹرلیم
مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ضروریات زندگی میں بھی اضافہ ہوگا۔ یکم مارچ
2018 میں منگائی کی شرح اور اس اضافے کے بعد پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں می
اضافے کی صورت کچھ اس طرح سے ہوگئی ہے۔
پیٹرول: اضافہ 3.56 ہوا جس سے اب پیٹرول88.7فی لیٹر ہوگیا،پہلے پیٹرول
83.51روپے تھا۔
لائٹ ڈیزل: 64.30 روپے تھا ایک روپے اضافے کے ساتھ 65.30فی لیٹر کر دیا
گیاہے۔
ہائی اسپیڈ ڈیزل: 95.83 روپے فی لیٹر سے 3.56کے اضافے کے ساتھ98.45فی لیٹر
کر دیا گیا۔
مٹی کا تیل : قیمت70.26 روپے سے بڑھا کر 6.28 روپے کے اضافے کے ساتھ 76.46
کر دی گئی۔
پیٹرلیم مصنوعات پر حکومتی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ پیٹرول پر17فیصد اور
ہائی اسپیڈ ڈیزل پر25فیصد سیلز ٹیکس برقرار رکھا، مٹی کے تیل پر اسے
7فیصدسے بڑھا کر 17فیصد اور لائٹ ڈیزل آئل پر سیلز ٹیکس کی شرح 7.50فیصدسے
بڑھا کر17فیصد کرنے کے اقدامات کو یکم مارچ کو ہونے والے پیٹرلیم مصنوعات
کی قیمتوں کے اس اضافے کی وجہ قرار دے رہی ہے۔ فروری کے مہینے میں حکومت نے
پیٹرلیم مصنوعات میں جو اضافہ ہوا تھا ، اس کے نتیجے میں بعض اشیاء کی
قیمتیں تو فوری بڑھ گئیں تھیں لیکن ٹرانسپورٹرز سے تاحال حکومت کی گفت
وشنید چل رہی تھی، مزید اضافے سے ٹرانسپورٹرز اپنا مطالبے کو اور زیادہ
طاقت سے اٹھائیں گے اور ٹرانسپورٹ میں اضافے کے اثر برائے راست غریب عوام
پر پڑتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں گیس میسر نہیں
اور وہ مٹی کا تیل استعمال کرتے ہیں۔ مٹی کے تیل میں قیمتوں کے بڑھ جانے سے
وہ غریب عوام برائے راست مہنگائی سے شدید متاثر ہوں گے۔ حکومتی جو جواز پیش
کرتی ہے ان میں کسی قسم کی منطق سمجھ سے بالا تر ہوتی ہے۔ دراصل پیٹرولیم
مصنوعات پر ٹیکس حکومت کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں
کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہورہا ہے اس کا اثر تیل
استعمال کرنے والے ممالک پر پڑتا ہے لیکن پاکستان کی حکومت تیل پر جو شرح
منافع عوام سے حاصل کررہی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حکومت کو اپنے ذرائع آمدنی
دیگر مدو سے حاصل کرنی چاہیے۔ اپنے اخراجات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان میں
کمی لانی چاہیے۔ وی آئی پیز کی سیکیوریٹی پر بے جا اخراجات ، بیرون ممالک
کے دورے، اشتہارات اوردیگر ذرائع میں کنٹرل کرنے سے حکومت کی آمدنی میں
خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس کی وصولی میں اور ٹیکس کے دائرے
کار کو وسیع کرنے میں حکومت کے اقدامات نا کافی ہے ان میں اضافہ بھی حکومت
کی آمدنی میں اضافہ کا باعث ہوں گے۔ ہر 15دن بعد عوام پر پیٹرول بم گرانا
کسی صورت مناسب نہیں۔ |