لکھنے کے لیے کوئ بہت اعلی درجے کا زبان پر عبور ہونا بھی
ضروری نہیں ہوتا اور مناسب واقفیت بھی کافی ہے اگر بات سچی موڈ اچھا سوچ
گہری جُھکاو کچا یقین پکا تو بات بن جاتی ہے اور عام سی بات کہہ دی جاتی ہے
اور بات سُن لی جاتی ہے اور تنقید سہہ لی جاتی ہے اور تعریف سُن لی جاتی ہے
اور بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور برسوں کی جمی پگھلتی جاتی ہے اور کبھی
لکھنے بیٹھو تو لکھی نہ جاے اور کبھی ایسا کہ قلم چلتا چلا جاۓ اور سنبھلتا
چلا جاۓ علم ذہن سے نکلتا چلا جاۓ کسی کے دل میں ڈھلتا چلا جاے تو کسی کو
کَھلتا چلا جاۓ اور کوئ خوشی میں پھولتا اور پھلتا چلا جاۓ-
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
کوئی واقعہ کوئی کیفیت ہی آپ سے لکھواتی ہے اور اس میں بھی خزاں کا موسم
بھی آتا ہے اور پرانی سوچ سوکھے پتّوں کی طرح جھڑتی ہے اور اصلاح کرتی ہے
اور پھر موسم بہار کی طرح تازہ آمد شروع ہوتی ہے
شاعری اور نثر کا بھی الگ الگ وقت ہوتا ہے اور کوئ وقت ہوتا ہے اور ہر چیز
کا ایک وقت ہوتا ہے اور تحریر کا انداز کبھی نرم اور کبھی سخت ہوتا ہے اور
کبھی تختہ اور کبھی تخت ہوتا ہے اور اثر کرے نصیحت جس پر وہ نیک بخت ہوتا
ہے اور جس کا بُرا بھی اچھا لگے وہ جگر کا لخت ہوتا ہے - |