تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
کسی ایک ملک کے بادشاہ کو اُس کے وزیر اطلاعات نے اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ
آپ کی عوام نفسا نفسی کا شکار ہو کر نہ صرف حرام و حلال کی تمیز کھو چکی ہے
بلکہ بے حسی کا اس قدر شکار ہو چکی ہے کہ اگر خدا نخواستہ کسی دشمن ملک نے
آپ کے ملک پر حملہ بھی کر دیا تو یہ خا موش تماشائی کا کردار ادا کرے گی یہ
سن کر بادشاہ سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ جس عوام کو میں
ہمیشہ ملک وقوم پرست اور انسانیت کا علمبردار سمجھتا تھا آج وہ اس قدر بے
حسی کا شکار ہو کر رہ گئی ہے قصہ مختصر بادشاہ اپنی عوام کا جائزہ لینے
کیلئے ایک دن اپنے دربار سے نکل کر شہر کے ایک معروف چوک پر پہنچ گیا جہاں
پر بادشاہ نے دیکھا کہ وہاں پر ہر شخص نفسا نفسی کا شکار اُس کی موجودگی کی
پرواہ کیے بغیر ادھر اُدھر دوڑ رہا ہے جن کو اس حالت میں دیکھ کر بادشاہ
افسردہ ہو کر واپس اپنے محل میں پہنچ گیا کافی سوچ بچار کے بعد بادشاہ نے
محض اس لیئے اپنی عوام کے اشیائے خوردنوش پر ٹیکس لگا دیا کہ شاید میری
عوام اس ناانصافی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرے گی لیکن افسوس کہ بے حس عوام
بادشاہ کی اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے خاموش تماشائی کا
کردار ادا کرتی رہی ان حالات کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے اپنی عوام کی سوئی
ہوئی غیرت اور جرات کو جگانے کیلئے عوام کے تمام بنیادی حقوق نہ صرف غصب کر
لیئے بلکہ عوام کے تمام آنے جانے والے راستوں پر بھی ٹول ٹیکس قائم کر کے
عوام سے جگا ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا لیکن عوام بددستور بے حسی کا شکار
رہی جس کے نتیجہ میں بادشاہ نے غصے میں آ کر شہر کے تمام راستوں پر پولیس
چوکی قائم کروا دی جس کا عملہ پولیس ہر آ نے جانے والے شخص سے جگا ٹیکس
وصول کرنے کے ساتھ ساتھ چھترول کر دیتا یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ اسی
دوران چند ایک افراد کا وفد بادشاہ کے حضور پیش ہو کر عرض کر نے لگا کہ
بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو کہ جو آپ نے پولیس چوکی پر عملہ تعنیات
کر رکھا ہے اُ س کی تعداد کم ہے جس کے نتیجہ میں ہمیں چھترول کھاتے ہوئے
دیر ہو جاتی ہے لہذا آپ مہربانی فر ما کر وہاں پر عملہ پولیس کی تعداد اس
قدر بڑھا دے جو جلد از جلد ہمیں چھترول مار کر فارغ کر دیا کرے اگر آپ نے
ایسا کر دیا تو یہ آپ کا عوام پر احسان عظیم ہو گا بالکل یہی کیفیت ہمارے
ضلع جھنگ کے عوام کی ہے جو نفسا نفسی اور بے حسی کا شکار ہو کر ضلع جھنگ کو
1947سے لیکر آج تک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کر نے کے بجائے پسماندگی
کی راہ پر گامزن کر نے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں آپ
یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ضلع جھنگ کی عوام دو
کلو خربوزے خریدتے وقت تو چھابڑی فروش کے تمام خربوزے سونگھ کر خریدتی ہیں
لیکن اپنے ضلع کی باگ دوڑ سنبھالنے والے سیاست دانوں کی بغیر سوچے سمجھے
بیعت کر لیتی ہے جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ جو پیارو محبت امن و امان اور
بھائی چارے کا گہوارہ تھا آج ان مفاد پرست سیاست دانوں جو اے اور بی ٹیم کے
نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں کی جانب سے لگائی گئی مذہبی آگ کی وجہ سے
دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے جس کا بھر پور فائدہ یہ مفاد پرست سیاست
دان اُٹھا رہے ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو یہاں پر ان مفاد
پرست سیاست دانوں کی سر پرستی قانون کی نہیں بلکہ قانون شکن عناصر کی
حکمرانی ہے جس کے نتیجہ میں یہاں پر عدل و انصاف کا ملنا تو بس ایک دیوانے
کا خواب ہے در حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں کے مفاد پرست سیاست دان ہر گلی ہر
محلہ کے علاوہ ہر بازار اور سڑکوں پر لا قا نو نیت کا ننگا رقص کرنے میں
مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ تباہ و بر باد ہو کر ایک لاوارث
ضلع بن کر رہ گیا ہے جس کی سرکاری و غیر سر کاری زمینوں کو یہ مفاد پرست
سیاست دان اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر ہڑپ کرنے میں مصروف عمل ہیں یہاں یہ
امر قابل ذکر ہے کہ ان مفاد پرست سیاست دانوں کے خوشامدی کارندے جو کبھی
بھکاریوں کی زندگی گزار رہے تھے آج راجے مہاراجوں کی طرح بڑی عیش و آ رام
سے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ضلع جھنگ کی بے حس عوام یہ سب کچھ
جاننے کے باوجود الیکشن کے دوران بس ایک ہی نعرہ مارنے میں مصروف عمل ہو کر
رہ جاتی ہے کہ جان رب دی اور ووٹ ساڈے لیڈر دا افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ
ضلع جھنگ کی بے حس عوام کو لیڈر اور سیاست دان میں فرق ہی نظر نہیں آ تا
حالانکہ لیڈر ملک وقوم کی بگڑی ہوئی تقدیر کو بدل دیتا ہے جبکہ سیاست دان
اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خا طر ملک وقوم کو بھکاری بنا دیتا ہے جس کا
واضح ثبوت یہ ہے کہ آج ان مفاد پرست سیاست دانوں کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجہ میں
ہمارا ملک بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے جبکہ یہاں کا ہر فرد غیر
مسلموں کا مقروض بن کر رہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں ملک وقوم کا وقار ہر جگہ
پر مجروح ہو رہا ہے تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ ایک شخص
نیو یارک کے سنٹرل پارک کے بینچ پر بیٹھا تھا کہ وہاں پر موجود ایک کتے پر
اچانک پاگل پن کا دورہ پڑا اور اُس نے پاس بیٹھے ایک نوجوان پر حملہ کر دیا
جس پر بینچ پر بیٹھے بہادر شخص نے انسانیت کے تقاضے کے پیش نظر اپنی جان کی
پرواہ نہ کرتے ہوئے کتے کو قابو کر کے اس کے جبڑے چیرتے ہوئے نوجوان کو اس
کی ظالمانہ اور خونخوار گرفت سے آ زاد کروا کر کتے کو جہنم رسید کر دیا
ہونی شامت یا پھر خوش قسمتی سے یہ واقع نیو یارک ٹائمز کا رپورٹر بھی دیکھ
رہا تھا جو فوری طور پر اس بہادر شخص کا انٹرویو لینے آ گے بڑھا اور سب سے
پہلے اس شخص کو مردانہ وار مقابلے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ کل میں
اپنے اخبار میں یہ خبر اس شہ سر خی کے ساتھ لگاؤں گا کہ ایک بہادر نیو یارک
کے رہائشی شخص نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک نوجوان کی جان بچا لی
جس پر اُس شخص نے بتایا کہ میں تو نیو یارک کا رہائشی نہیں ہوں یہ سن کر
رپورٹر نے کہا کہ یہ کیسا رہے گا کہ ایک امریکی ہیرو نے یہ سن کر اُس شخص
نے کہا کہ میں امریکی بھی نہیں ہوں جس پر رپورٹر نے کہا کہ آ خر تمھارا
تعلق کس ملک سے ہے جس پر اُس شخص نے رپورٹر کو بتاتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق
پاکستان سے ہے اگلے دن اخبار میں یہ خبر چھپی کہ سنٹرل پارک میں ایک بنیاد
پرست مسلمان نے کتے کو ہلاک کر دیا ایف بی آئی تحقیقات کر رہی ہے چونکہ
مذکورہ شخص کا القاعدہ سے تعلقات کا شبہ ہے بس یہی وقار ہمارا غیر مسلم
ملکوں میں ہے ہاں تو میں بات کر رہا تھا ضلع جھنگ کے مفاد پرست سیاست دانوں
کی جو عرصہ چار ساڑھے چار تک ایسا رویہ اپناتے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم
اچھوتوں کے ساتھ لیکن الیکشن کے قریب آتے ہی چار پانچ سال قبل وفات پا جانے
والے شخص کے ورثا کو افسوس کرنے اُن کے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں اگر اس
دوران انھیں کسی بڑے خاندان کا معصوم بچہ خستہ حال گلی اور ابلتے ہوئے
گٹروں کے درمیان کھیلتا ہوا مل جائے تو یہ مفاد پرست سیاست دان اُسے بغیر
کسی حیل و حجت کے گودی میں بٹھا کر یہ کہتے ہوئے پیار کرتے ہیں او میرا
شہزادہ او میری جان او میرا ہیرو او میرے دل کی دھڑکن او میرا منا او میرے
چاچا کا بیٹا او میرا سو ہنا قصہ مختصر کہ ایسے لا تعداد کلمات ادا کرتے
ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک دفعہ یہاں کے ایک مفاد پرست
سیاست دان کے ایک دوست نے اُس سے پوچھا کہ آپ نے ہمیشہ ضلع جھنگ کو
پسماندگی کی راہ پر گامزن رکھا ہے اس کے باوجود تم الیکشن میں جیت جاتے ہو
جس پر مفاد پرست سیاست دان نے اپنے دوست کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن
کے قریب نالی گلی اور چند ایک روپے یہاں کی عوام کی یادداشت کو کمزور کر
دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں میری جیت یقینی ہو جاتی ہے بحرحال اس کا فیصلہ تو
عوام نے 2018 کے الیکشن میں کرنا ہے کہ وہ اپنی بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہیں
یا پھر
ہمیشہ جگمگاتے سورج پر نظر رکھتا ہوں
تم سمجھتے ہو کہ ستاروں سے بہل جاؤں گا |