پاکستانی سیاست میں آج تک ان ہی سیاستدانوں کو بہت تیزی
کے ساتھ شہرت ،عزت اور کامیابی حاصل ہوئی ہے جنہوں نے ہر طرح کے لسانی ،قومی
اور مذہبی تعصب سے بالا تر ہوکر پاکستانیت کے جذبے کو فروغ دینے کے لیئے
وفاقی طرز سیاست کو اپنایا۔خوش قسمتی سے پاکستان میں لسانیت ،قومیت اور
مذہبی گروہ بندی سے بالا تر ہوکر سیاست کرنے والوں میں 3 مارچ 2016 کو ایک
اور دبنگ سیاستدان کا اضافہ ہوا ہے جسے لوگ مصطفی کمال کے نام سے جانتے ہیں
،آج 3 مارچ 2018 کو انہیں نئی پہچان اور نئے طرز سیاست کے ساتھ کام کرتے
ہوئے دو سال مکمل ہوگئے ہیں ،ان دوسالوں کے دوران مصطفی کمال کا نظریہ ،فلسفہ،طرز
سیات اوران کی کہی گئی باتوں کی سچائی لوگوں پربہت کھل کر عیاں ہوچکی ہے ۔ان
کا شاندارماضی اورروشن حال قوم کے سامنے ہے جبکہ ان کے مستقبل کا اندازہ
گزشتہ دو سال کے دوران ان کی برق رفتار سیاسی سرگرمیوں سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے۔
3 مارچ 2016 کو پاکستان واپس آکرمتحدہ قائد کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے
کراچی کی سیاست میں بھونچال پیدا کردینے والی شخصیت مصطفی کمال سے کون واقف
نہیں کہ جب لوگوں نے پرویز مشرف کے زمانے میں کراچی کے منتخب ناظم کی حیثیت
سے مصطفی کمال کو کراچی کی تعمیر وترقی کے لیے دن رات کام کرتے ہوئے دیکھا
تو متحدہ کے مخالف بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ
مصطفی کمال نے کراچی جیسے بڑے شہر کے مئیر کے طور پرہر طرح کے لسانی ،قومی
اور پارٹی مفادات سے بالا تر ہوکرکراچی کے تقریباً تمام علاقوں میں پینے کے
صاف پانی کی فراہمی اور ٹریفک کی روانی کے لیئے جو دوررس عملی اقدامات کیئے
اور جس طرح نہایت تیزی کے ساتھ کراچی کی تباہ حال سڑکوں کو نئے سرے سے
بنانے کا بیڑہ اٹھایا،سیوریج کے نظام کو درست کیا اورپھر کراچی میں فلائی
اوور ز کاجو جال بچھایا اس نے ان کو کراچی میں بسنے والے ہر باشندے کا ہیرو
بنادیا ۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ مصطفی کمال کراچی کے باشندوں کی نمائندہ
جماعت کہلائی جانے والی سیاسی پارٹی ایم کیو ایم سے ایک طویل عرصہ تک
وابستہ رہے اور اس پارٹی میں رہ کر انہوں نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کا
لوہا منواتے ہوئے کئی اہم پارٹی اور حکومتی عہدوں پر فائز رہ کر اپنی
نمایاں کارکردگی سے عوام الناس میں عزت اور شہرت حاصل کی ۔
سید مصطفی کمال 27دسمبر1971 کو کراچی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے
،1987 کے بلدیاتی انتخابات سے انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا
جبکہ 1988 میں وہ باقاعدہ ایم کیوایم کے کارکن بنے ۔انہوں نے کوالا لمپور
یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ٹوٹل کوالٹی مینجمنٹ پر تھیسس لکھ
کر ماسٹر کیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے کچھ عرصہ یہاں
ملازمت کرنے کے بعد کاروبار کے لیئے شارجہ چلے گئے۔2001 میں اپنے والد اور
والدہ کی شدید علالت کی وجہ سے پاکستان واپس آئے ۔ 2002 میں مصطفی کمال رکن
قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت ملی.
2005میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی اور
مصطفی کمال کو کراچی کے ناظم کے طور پر نامزد کیا گیا انہوں نے کراچی کا
مئیر بنتے ہی شہر کراچی کا ماسٹر پلان ترتیب دیااور ترقیاتی کاموں کا آغاز
کردیا۔۱ور کراچی کی تعمیر وترقی کے لیئے بہت سے قابل ذکرو قابل تعریف
منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جن کی وجہ سے انہیں ملک گیر سطح پر شہرت
اور عزت حاصل ہوئی بلکہ ان کی کراچی کے ناظم کے طور پر شاندار کارکردگی کی
وجہ سے ان کا نام دنیا کے بہترین مئیرز کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا
۔2008 کے انتخابات میں مصطفی کمال کی کارکردگی ایم کیو ایم کی انتخابی مہم
کا ایک اہم نعرہ بن کر سامنے آئی اور مصطفی کمال ایک ایسی پارٹی کا سافٹ
امیج بن کر ابھرے جو سیاست میں تشدد اور جرائم میں ملوث ہونے کی زد میں رہی
ہے۔2013 میں مصطفی کمال اچانک بیرون ملک چلے گئے ان کے جانے کے بعد ایم کیو
ایم اور ان کے درمیان اختلافات کے حوالے سے باتیں ہونے لگیں لیکن ان کی
جانب سے مکمل خاموشی رہی جس کی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتوں میں ان کی
شمولیت کے حوالے سے افواہیں بھی گردش کرتی رہیں لیکن 3 مارچ2016 کو وہ 3
سال بعد کراچی میں اچانک منظر عام پر آئے اور ایک دھواں دار پریس کانفرنس
کرکے نہ صرف ایم کیو ایم متحدہ سے تعلق ختم کرنے کا اعلان کیا بلکہ ایم کیو
ایم کے قائد الطاف حسین پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے اپنی ایک
نئی سیاسی پارٹی قائم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔
اگر مصطفٰی کمال جیساتعلیم یافتہ قابل ،فعال اور پاکستانیت کے جذبے سے
سرشار رہنما اخلاص کے ساتھ پاکستانی عوام کو ایک اچھی اور صاف ستھری قیادت
دینا چاہتا ہے تو اس پر بے جا تنقید کرنے کی بجائے اس کے ہاتھ مظبوط کرنے
چاہئیں کہ اﷲ تعالیٰ ایسے مواقع بار بار فراہم نہیں کرتا ۔مصطفی کمال نے
نہایت بے خوفی کے ساتھ کراچی میں واپس آنے کے بعد3 مارچ 2016 کو اپنی پہلی
پریس کانفرنس سے لے کر آج تک اپنی تقریروں ،بیانات اور ٹی وی انٹرویوز میں
کھل کرجو باتیں کیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ طویل جدوجہد اور بیشتر وقت ہر
حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہنے کے باوجود ایم کیوایم نے اپنے چاہنے
والوں ،ووٹرز اور کارکنوں کو کیا دیا؟ہڑتالیں ،جلاؤ گھیراؤ ،شور شرابے اور
ڈراما بازیوں سے بھرپور سیاست کے لیئے تو اردو بولنے والوں نے ایم کیوایم
کو ووٹ نہیں دیے تھے ؟۔اردو بولنے والوں کی نمائندگی کا دعوی ٰ کرنے والی
سیاسی جماعت متحدہ کے نام نہاد عوامی قائدین نے اپنا تمام عرصہ اقتدار ذاتی
مفادات اورحکومتی مراعات کے حصول میں گزارا یہی وجہ ہے کہ ہوس اقتدار اور
دولت کے انبار لگانے کے جنون میں مبتلا ایم کیوا یم کے آج تین دھڑے بن چکے
ہیں ،ایک ایم کیو ایم لندن ،دوسرا ایم کیو ایم پی آئی بی اور تیسرا ایم کیو
ایم بہادر آباد اور یہ سارے گروپ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کرنے
کی بجائے صرف ذاتی مفادات اورذاتی اختلافات میں مصروف نظر آتے ہیں اور ان
تینوں گروپوں کے ٹوپی ڈرامے دیکھ دیکھ کر کراچی کے باشندے تنگ آچکے ہیں اور
وہ اتنے کنفیوز ہوچکے ہیں کہ انہیں یہ ہی پتہ نہیں چل رہا کہ ان کے ساتھ
ایم کیو ایم کا کون سا گروپ مخلص ہے اور کون سا گروپ مفادات کا اسیر بنا
ہوا ہے یہی وہ زمینی حقائق ہیں جن کی وجہ سے کراچی کی سیاست میں مصطفی کمال
اور انیس قائم خانی کی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی بہت تیزی کے ساتھ
مقبولیت حاصل کررہی ہے۔
لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر اندھی عقیدت اور لسانی تعصب کی عینک اتار کر
دیکھا جائے تو متحدہ کی 30 سالہ سیاست میں سے اگر مصطفی کمال کے5 سال نکال
دیئے جائیں تو جو کچھ باقی بچتا ہے وہ بھتہ خوری ،بدامنی ،خوف و دہشت کا
راج ،بوری بند لاشیں ،ٹارچر سیلز ،سیاسی مخالفوں کی ٹارگٹ کلنگ اورنت نئے
سیاسی ڈرامے ہیں جن سے لوگ اس قدر تنگ آئے ہوئے ہیں کہ غیر تو غیر اب تو
متحدہ کے اپنے لوگ بھی ان کے طر زسیاست سے بیزار دکھائی دیتے ہیں جس کا
واضح ثبوت ایم کیو ایم کا تین دھڑوں میں بٹ جانا ہے جن میں سے ایم کیو ایم
لندن کی قیادت آج بھی الطاف حسین کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ایم کیو ایم ( پی
آئی بی گروپ) کی قیادت فاروق ستار کر رہے ہیں اور ایم کیو ایم(
بہادرآبادگروپ ) کی قیادت عامر خان کے ہاتھوں میں نظرآتی ہے ، کراچی کی
سیاست میں گزشتہ چند ماہ سے ایم کیو ایم کے پاکستان میں موجود دونوں دھڑوں
کی جانب سے جس طرح کے ٹوپی ڈراموں کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے اس نے کراچی
میں بسنے والے اردوبولنے والی کمیونٹی کوبری طرح مایوس کردیا ہے اورچونکہ
اردو بولنے والوں کی ایک اور نمائندہ جماعت پاک سرزمین پارٹی کی صورت میں
تقریباً دو سال قبل وجود میں آکر اب کراچی کی ایک مقبول سیاسی پارٹی بن چکی
ہے لہذا اردو بولنے والے ووٹرز کے پاس PSP کی شکل میں ایک بہترین متبادل
موجود ہے ،یہی وجہ ہے کہ اب اردو بولنے والے کھلم کھلا یہ باتیں کرتیں ہوئے
نظر آتے ہیں کہ اردو اسپیکنگ کمیونیٹی کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار
متحدہ قومی موومنٹ نے اردو بولنے والوں کے لیئے کو ن سا ایسا قابل فخر کام
کیا ہے جس کی وجہ سے لوگ آنکھیں بند کرکے ان کا ساتھ دیتے رہیں۔؟
ایم کیو ایم کے قیام سے قبل اردو بولنے والے پاکستان کے کسی بھی صوبے میں
جاکر آباد ہوتے تھے تو ان کو عزت اور احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا
لیکن ایم کیو ایم بننے کے بعد اس جماعت میں شامل سیاسی دہشت گردوں کی
مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے اردو بولنے والوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے
لگا۔ہر اردو بولنے والے کی طرح اس بات کا قلق مصطفی کمال کو بھی تھا جس کا
اظہار انہوں نے متحدہ سے بغاوت کے بعد3 مارچ 2016 کو اپنی پہلی ہی پریس
کانفرنس میں کھل کر کیا ۔درحقیقت مصطفی کمال نے یہ سب باتیں کرکے اردو
بولنے والی خاموش اکثریت کی ترجمانی کی ہے جو خوف ودہشت کی وجہ سے اپنے
خیالات کا اظہار کرنے سے ہچکچاتی رہی لیکن آفرین ہے مصطفی کما ل پر جس نے
نہایت بے خوفی اور بہادری کے ساتھ متحدہ کے قائد کے خلاف دل کھول کر سچ
بولااور بہت سے پوشیدہ حقائق اردو بولنے والوں کے سامنے رکھے۔مصطفی کمال ،انیس
قائم خانی،ڈاکٹر صغیر،وسیم آفتاب،رضا ہارون،افتخار عالم، انیس خان ایڈوکیٹ
اور افتخار عالم وغیرہ کی متحدہ اور اس کے قائد سے کھلم کھلا بغاوت یہ بات
ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کی شخصیت اور ان کی
قائم کردہ سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے طرز سیاست میں کچھ تو ایسی متنازع
بات ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ 30 سال سے زائد عرصہ گزارنے والے لوگ ایک
ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑ کر مصطفی کمال کی پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔
کراچی میں رہنے والوں کے لیئے 2018 میں ہونے والے عام انتخابات وہ سنہری
موقع ہے جس سے انہیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے اورمصطفی کمال کی باتوں پر
لبیک کہتے ہوئے کراچی سے خوف ،دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسی
لعنتوں کے خاتمے کے لیئے مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کا ساتھ دے کر
کراچی کے دیرینہ مسائل کو حل کروائیں۔کراچی کو دہشت گردوں کے چنگل سے
نکالنے کی سنجیدہ کوشش عمران خان نے بھی کی تھی اورانہیں کچھ کامیابی بھی
حاصل ہوئی لیکن اردو بولنے والوں کی اکثریت نے اردو بولنے والے لیڈروں کو
ووٹ دینے کی روایت برقرار رکھی جس کے نتیجے میں عمران خان کو بہت زیادہ
کامیابی حاصل نہ ہوسکی کہ وہ اردو اسپیکنگ نہیں ہیں لیکن اب تو مصطفی کمال
کی صورت میں لوگوں کو ایک اردو بولنے والا لیڈر مل گیا ہے جو صرف کراچی کی
نہیں بلکہ پورے ملک کی فلاح وبہبود اور ترقی کی باتیں کررہا ہے۔خوش آئند
بات یہ ہے کہدیر آید درست آید کے مصداق آخر کار کراچی کی خاموش اکثریت کو
ہوش آہی گیا ہے اور ان میں اس بات کا شعور پیدا ہورہا ہے کہ ان کے نام پر
ووٹ لے کر کس طرح ایم کیو ایم کے لیڈروں نے اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات کے
لیے کام کرتے ہوئے کراچی کے عوام کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوئی
سنجیدہ کوشش نہیں کی اور مصطفی کمال کی اصل طاقت یہی خاموش اکثریت ہے جو
ایک طویل عرصہ سے دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں یرغمال
بنی ہوئی تھی اور بہت خاموشی کے ساتھ سب کچھ برداشت کررہی تھی لیکن اسے جس
مسیحا کا انتظار تھا وہ شاید اﷲ تعالیٰ نے مصطفی کمال کی صورت میں بھیج دیا
ہے ۔
مصطفی کمال کو ایک نئی پہچان کے ساتھ کراچی کی سیاست میں دبنگ انٹری دیے
ہوئے آج 2 سال پورے ہوگئے ہیں اور ان دو سالوں کے دوران مصطفی کمال اور ان
کے ساتھیوں نے جس برق رفتاری کے ساتھ کراچی کے عوام میں سیاسی شعور کو
بیدار کرکے انہیں صحیح اور غلط کا فرق جس اخلاص کے ساتھ سمجھایا ہے اس کے
بعد امید تو یہ ہی ہے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد کراچی کے حالات میں بہت
سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی اور یہ شہر ایک بار پھر ترقی اور استحکام کے
راستے پر گامزن ہوکر تمام مقامی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرکے ایک بار پھر
حقیقی طور پر امن وامان کا گہواہ اور روشنیوں کا شہر بن جائے گا۔
پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے بعد مصطفی کمال،انیس قائم خانی اور ان کے دیگر
ساتھیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ32 سال تک تو آپ لوگوں کا ضمیر سویا
ہوا تھا اب کیسے جاگ گیا ؟ واہ کیا سوچ ہے یعنی اگر ایک شخص لاعلمی، مجبوری
یا گمراہی کی وجہ سے غلط لوگوں کا ساتھ دیتا رہا اور پھر اس کے ضمیر نے
ملامت کی اور وہ راہ راست پر آگیا تو اس سے کہا جاتا ہے کہ بھائی تم کیوں
صحیح راستے پر آگئے ان ہی جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ رہتے جن کے ساتھ اب تک
رہتے آئے ہو۔بہت ہی کمال کا طرز عمل ہے اس قوم کا۔ جس کا ضمیر جاگ جائے اس
میں کیڑے نکالنے کے بجائے اس کی باتوں کو غور سے سننا چاہیئے کہ وہ اپنے
ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر عام طور پر سچ ہی بول رہا ہوتا ہے اور اگر کوئی
ضمیر جاگنے کا صرف ڈرامہ کرتا ہے تو وقت اسے بھی سب کے سامنے لے آتا ہے بس
ذرا صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے ،وقت سب سے بڑا منصف ہے ۔ اچھوں کی اچھائی
اور بروں کی برائی ایک دن ضرورسامنے آتی ہے جیسا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران
بہت سے سیاست دانوں کے چہروں سے نقاب اتر تے چلے جارہے ہیں ۔حال ہی میں ایم
کیوا یم کے اختلافات نے فاروق ستار اور عامر خان گروپ سے تعلق رکھنے والے
سیاسی رہنماؤں کے اصلی عزائم کو قوم پر عیاں کردیا ہے۔
کراچی کی سیاست میں مصطفی کمال جیسے محب وطن رہنمانے آکر وہ سب کچھ کہہ
ڈالا جو کراچی میں رہنے والے تقریباً ہرمحب وطن دل کی آواز تھی ۔مصطفی کمال
کی متحدہ سے کھلی بغاوت سے قبل ایم کیوایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد،پی ٹی
آئی کے سربراہ عمران خان ،پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ سندھ
ذوالفقار مرزا اور متحدہ کے صولت مرزا نے بھی متحدہ قیادت کی منفی سرگرمیوں
کو بے نقاب کیا لیکن ان کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جو مصطفی کمال کو آتے
ہی حاصل ہوگئی جس کی وجہ ان کااردو اسپیکنگ ہونا، ایم کیو ایم کا سب سے
زیادہ قابل اور نیک نام سابق رہنما ہونا ،ایمانداری ،کراچی کے سٹی ناظم کے
طور پر ان کی جانب سے کیے گئے بلاامتیاز ترقیاتی کام اور ان کی بہادری و
سچائی تھی جس کی وجہ سے مصطفی کمال نے بہت تیزرفتاری کے ساتھ کراچی کی
سیاست میں وہ مقام حاصل کرلیا جس کا ہر سیاست دان خواب دیکھتا ہے۔
3 مارچ 2016 کوکراچی کی سیاست میں دھماکہ خیز انٹری کے دن سے لے کر آج 2
سال مکمل ہونے کے دوران مصطفی کمال کے دو ٹوک نظریے ،فلسفے ، خوف سے پاک
اور سچائی سے بھرپور طرز سیاست نے خوف کا بت توڑتے ہوئے بڑوں بڑوں کے ہوش
اڑادیئے ہیں اور 2018 کے انتخابات کے بعدآنے والا وقت پاکستان اور کراچی کی
سیاست میں ان کے نام اور مقام کا تعین بھی کردے گا لہذا ان کے حامیوں اور
مخالفوں کو ذرا صبر کے ساتھ آنے والے وقت کا انتظار کرنا چاہیئے ۔جب کراچی
والے 32 سال تک MQM کے طرز سیاست کو برداشت کرسکتے ہیں تو مصطفی کمال کو
بھی تھوڑا وقت دیں کہ وہ جو دعوے اور وعدے کر رہے ہیں ان پر عمل کرکے دکھا
سکیں ،مصطفی کمال جیسے محب وطن سیاستدان کی کہی گئی باتوں اور ان کے پیش
کردہ منشور کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سیاست کی دنیا میں اکثر انقلاب
باغی ہی لے کر آئے ہیں اور باغی بھی مصطفی کمال جیسا جس کواپنی جان سے
زیادہ مرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونے کا خوف ہے اور اسے اس
بات کا ڈرتھاکہ کہیں وہ3 مارچ 2016سے قبل ایم کیو ایم اور اس کے قائد کے
حوالے سے قوم کو سچ بتائے بغیر مر نہ جائے کہ اگر وہ سچ بولے بغیر اور
متحدہ کے قائد کا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کرنے سے پہلے مر گیا تو وہ
اﷲ تعالی کو کیا منہ دکھائے گا؟ لہذا مصطفی کمال کا3 مارچ 2016 کو انیس
قائم خانی کے ساتھ پاکستان واپس آکر میڈیا کے سامنے سچ بولنے کے بعد یہ
کہنا کہ’’ آج ہم کامیاب ہوگئے اب اگر ہم مار بھی دیے جائیں توہمیں کوئی غم
نہیں کہ ہم اب اپنے اﷲ کے سامنے سرخ رو ہوکر جائیں گے‘‘ ۔ان کی نیت کو ظاہر
کرتا ہے اور مذہبی لحاظ سے تما م اعمال کے صحیح یا غلط ہونے کا دارومدارنیت
پر ہی ہوتا ہے لہذامصطفی کمال کی باتوں میں کسی سازش کی بو تلاش کرنے اور
اسے اسٹیبلشمنٹ کا لایا ہوا سیاستدان قرار دینے کی بجائے اس کی باڈی
لینگویج ،چہرے اور قول وفعل سے عیاں ہوتی ہوئی اس کی باتوں میں سچائی کی جو
خوشبو رچی بسی ہوئی ہے اس کو سمجھا جائے کہ دھن دولت نام ونمود اور عہدوں و
مراعات کو لات مار کر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قوم کے سامنے سچ اور حق
بات کرنے والے مصطفی کمال جیسے بہادر اور محب وطن لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے
ہیں،ایسے سچے انسانوں کی قد کرنی چاہیے کہ ایسے لوگ ہی کسی بھی قوم اور وطن
کی آبرو ہوتے ہیں۔
3 مارچ 2016 سے لے کر آج 3 مارچ 2018 تک مصطفی کمال کے 2 سال عزم وہمت ،حوصلے،خلوص
اور پرامن جدوجہد کی وہ روشن مثال ہیں جنہیں کراچی کی سیاست کے حوالے سے
ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ مصطفی کمال اور ان کے مخلص ساتھیوں نے صرف 2 سال
کے اندر جس فلسفے ،نظریہ اور منفردطرز سیاست کا مظاہر ہ کرکے پاک سرزمین
پارٹی کو ایک مقبول پارٹی بنایا ہے اورجس برق رفتاری کے ساتھ عوام کے دلوں
میں اپنی جگہ بنائی ہے اس کی کوئی مثال ہمیں موجودہ دور سیاست میں دور دور
تک دکھائی نہیں دیتی۔پاکستانیت کے جذبے سے سرشار لیڈر مصطفی کمال کے انداز
سیاست کو دیکھتے ہوئے پاکستانی سیاست میں ان کے روشن اور تابناک مستقبل کی
پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔آخرمیں اپنے اس کالم کوکراچی والوں کے نام اس پیغام
کے ساتھ ختم کر تا ہوں کہ خدارا ! 2018 کے الیکشن میں آنکھیں کھول کر ایسے
نمائندوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجیں جو اس شہر کے دیرینہ مسائل کو
حل کرنے کا ارادہ ،صلاحیت اور قابلیت رکھتے ہوں،بار بار کے آزمائے ہوئے
کرپٹ سیاست دانوں کو نظر انداز کریں کہ ووٹ ڈالتے وقت آپ کا درست فیصلہ ہی
آپ کے شہر اور ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے ورنہ جھوٹے وعدوں اور دعووں کے
جھانسے میں آکر تو آپ ایک طویل عرصہ سے ووٹ کاسٹ کرکے غلط نمائندوں کو
اسمبلیوں میں بھیج کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتے چلے آرہے ہیں بس اس بار
ذرا سوچ سمجھ کر ووٹ دیں اور اپنے آنے والے کل کو بہتر بنائیں۔ |