کوئی بھی تحریک اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے وقت وقت
پر اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت مختلف طریقے استعمال کرتی ہے۔جن میں کچھ
پرانے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اور کبھی کبھار نئے طریقوں کو اپنایا جاتا
ہے ۔جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے یہ دورِ حاضر کی سب سے پرانی
تحریک ہے ۔اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے اس تحریک میں شامل لیڈروں اور افراد
نے کئی سو سال پر پھیلی اس تحریک میں قسم قسم کے طریقے اختیار کئے تاکہ
مخالف ریاستوں کو تنگ کر کے یادباؤ قائم کر کے مسئلے کے حل کے لئے مجبور
کیا جا ئے ۔1339ء میں شاہ میر جو پہلا کشمیری حکمران تھا کے بعد مغلوں نے
کشمیر پر 1586ء سے لیکر1751ء تک پھرافغانستان کے درانیوں نے 1819ء تک حکومت
کی ۔پھرسکھوں نے 1847ء تک اور ان کے بعد پوری ایک صدی تک جموں کے ڈوگروں نے
ایک معاہدے کے تحت انگریزوں سے ریاست خرید کر اس پر حکومت کی۔انگریزوں نے
قبضہ کر کے ہمیں اپنی ہی ریاست کے ظالم اور متعصب ترین ہندو خاندان کے
ہاتھوں فروخت کردیا جنہوں نے مظالم میں سکھوں کے تمام ریکارڈ توڈ دیئے
۔کشمیری ہر دور میں بیرونی جارحیت کے خلاف برسرِ پیکار رہے اور ڈوگروں کے
مظالم کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلند کی۔1947ء میں جب پورا برصغیر انگریزوں
کی غلامی سے آزاد ہواتو پہلے سے آزاد کشمیریوں کی ریاست کو تین حصوں میں
تقسیم کر کے علاقائی طاقتوں نے اس کی شناخت ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔
اس جارحیت کے خلاف وقفے وقفے سے آزادکشمیر سے لیکر جموں و کشمیر تک بغاوتیں
اور ہنگامے ہوتے رہے مگر کشمیر یوں کو وہ آزادی نصیب نہیں ہوئی جس کے لئے
طویل انتظار کرتے کرتے ان کی آنکھیں تھک چکی ہیں ۔بدقسمتی سے جموں و کشمیر
کی ریاست تین ایٹمی علاقائی طاقتوں میں منقسم ہے اور ہر ملک کا دعویٰ ہے کہ
وہ جس پر قابض ہے اس کا جائز حصہ ہے اس کے خلاف کشمیری بحیثیت مجموعی
برسرجدوجہد ہیں مگر 1990ء سے اس تحریک کا مرکز وادیٔ کشمیر ہے جبکہ باقی
حصوں میں اس حوالے سے سرگرمی نا کے برابر ہے ۔شہید مقبول بٹ نے 1966ء میں
عسکری جدوجہد کا آغاز کیا۔ہندوستان سے لیکر پاکستان تک گرفتاریوں اورجیل سے
فرارکے طویل کوششوں کے بعدآخری گرفتاری کے بعد بلا آخر11فروری1984ء کو
پھانسی دیکر قتل کر دیا گیا۔1990ء میں پھر انتہائی منظم اندازمیں عسکری
جدوجہد کا آغاز کیا گیا ۔شاہ میر کے بعد کشمیریوں نے کئی مرتبہ بغاوت کی
مگر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ ناکام ہو ئیں ۔اسی بیچ سیاسی جدوجہد بھی جاری
رہی ۔ہم کویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کے خلاف تحریکیں ہر وقت کامیاب
نہیں ہوتی ہیں سوائے اس کے کہ خود اس ریاست کے وجود میں کچھ کمزوریاں
آجائیں ۔بھارت 1947ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے ہی تقسیم کے المیے سے
دوچار ہوگیا اور ہندوستان میں ہندوذہنیت غالب آگئی ۔آزادی سے پہلے کشمیریوں
کی طویل جدوجہد جاری ہی تھی کہ پوری ریاست ِ جموں و کشمیر تقسیم کے المیے
سے دوچار ہوگئی ۔ہندوستان نئے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور انھوں نے
پوری قوت کے ساتھ کشمیری قوم کو دبا دیا ۔کشمیریوں نے حصولِ حق کے لئے بعض
علامات کو اپنا کر اس قبضے کے خلاف اپنے غم و غصے کا بھر پور اظہار کیا ،جن
میں ہڑتال ،پتھراؤ اور آخر میں بندوق بھی ایک آپشن کے طور پر سامنے آیا
بدقسمتی سے ہم نے بحیثیت قوم ان کی حقیقت سمجھنے کی غلطی کی اور اب تک ہم
اسی غلطی اور غلط تعبیر میں غلطاں ہیں ۔
بھارت ،چین اور پاکستان کی آبادی ،فوجی قوت ،ٹیکنالوجی اور معیشت کے مقابلے
میں ہماری حیثیت ایک ذرہ کی ہے۔پاکستان اور چین مسئلہ کشمیر کو مسئلہ مانتے
ہیں جبکہ بھارت نا صرف مسئلے کا منکر ہے بلکہ وہ کشمیریوں کی آواز کو پوری
قوت سے دبانے ،قتل عام کرنے ،لاپتہ کرنے اور جیلوں میں بند رکھنے سے بھی
گریز نہیں کرتا ہے ۔اس جبر کے خلاف کشمیریوں نے جو ہتھیار استعمال کئے ان
میں ہڑتال اور پتھراؤ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور بندوق بھی اب گذشتہ تیس
برس سے ایک اہم ترین عامل کے طور پر اس میں شامل ہوا ہے ۔مگر افسوس یہ ہے
کہ ہم نے انہیں ’’علامات‘‘سمجھنے کے بجائے کبھی خود تحریک کا درجہ دیدیا
اور کبھی حالات کے تقاضوں کے تحت انہیں بدلنے کو کفر قرار دیدیا ۔بھارت کی
آبادی سوا سو ارب ہے اور فوج پندرہ لاکھ جن میں چھہ یا سات لاکھ صرف جموں و
کشمیر میں مقیم ہیں ۔اس کے برعکس ہماری آبادی آزاد کشمیر ملا کر بھی ڈیڑھ
کروڑ نہیں بنتی ہے ۔ہمارے’’ مجاہدین‘‘ کی تعداد انٹیلی جنس ایجنسیوں کے
مطابق کل دو یا تین سو ہے ۔اب آ پ پندرہ لاکھ کے بجائے انہیں چھ لاکھ فوجوں
کے مقابلے میں کھڑا کر دیں تو ایک مجاہد کے مقابلے میں دوہزار فوجی تیار بہ
تیارلیس کھڑے ہیں جن کے اسلحے اور تربیت کے مقابلے ہمارے ’’معصومین ‘‘کے
پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔اس کے باوجود گذشتہ تیس برس میں ہمارے نہتے بچوں نے
بے جگری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہو ئے ’’بے بسی اور بے کسی ‘‘کے عالم میں
شہادت کا جام نوش کیا اور ہم لاشیں اٹھاتے اور دفناتے گئے ۔نا ہی ہمارے
لیڈروں نے اور نا ہی ہماری عسکری قیادت نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت
گوارا کی کہ جب تمام راستے مسدود ہو جائیں گے اور شہادتوں اور گرفتاریوں کے
طوفان میں جو پیچھے رہ جائیں گے انہیں کیسے اور کس طرح ہینڈل کرنا ہے اور
المیہ یہ کہ اس صورتحال سے ہم گذشتہ تیس برس سے دوچار ہیں ۔
عسکریت ایک ایسا شجر ممنوعہ بن چکا ہے کہ بھارت کی ٹیلی ویژن چینلز تو اس
پر رات دن بحث کرتی رہتی ہیں مگر ان بچوں کا جس قوم سے تعلق ہے وہ ناموافق
حالات دیکھ کر ان سے لا تعلق ہو چکی ہے ۔لیڈران اور عسکری کمانڈران کی یہ
ذمہ داری تھی کہ وہ یہ احساس کرتے کہ ایک بندوق دو ہزار بندوقوں کا مقابلہ
نہیں کر سکتی ہے اور نا ہی اس آپشن کو ہمیشہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے
اس لئے کہ کشمیر نا ہی افغانستان ہے اور نا ہی غزہ ،عراق یا شام ہے ۔اس
’’خوفناک علامت ‘‘کو جس محدود طریقہ کار کے تحت استعمال کرنا تھا اس پر
غوربھی نہیں کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ’’پاک ٹرینڈ یا مقامی تربیت
یافتہ نوجوان‘‘جن کی کل تعداد 1990ء سے لیکر1996ء تک تیس یاچالیس ہزار کے
قریب تھی سمٹ کر دوسو تک پہنچ گئی ہے اورایک محدود اور چھوٹی قوم تیس چالیس
ہزار افراد سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔کیا دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا ہواہے کہ
اتنے نوجوانوں سے متعلق کوئی باضابط پالیسی نہیں اپنائی گئی ہو ؟آخر عسکریت
کے ذمہ داران کے ہاں کو ن سی پلاننگ ہے جس کو اختیار کرتے ہو ئے وہ اٹھائیس
برس کے بعد وہی کام دوسو سے کراسکتے ہیں جو وہ لوگ پچاس ہزار سے نہیں کر
پائے ؟کیا کبھی اس سوال کا جواب اُس قوم کو مل سکتا ہے جس قوم کے یہ بچے
ہیں ؟اس موضوع کا مقصد کسی کی نا ہی حوصلہ شکنی کرنا نا ہی ذلیل کرنا ہے
بلکہ یہ سمجھنے کی شدید ضرورت ہے کہ ہم نے عسکریت کے طویل ترین عرصے میں
’’عسکری جہاد‘‘سے کیا حاصل کیا؟ میں سمجھتا ہوں اورمیری یہ سوچ غلط بھی ہو
سکتی ہے کہ دراصل بھارت جیسی بڑی فوجی قوت کو یہ تنگ کرنے کا ایک ذریعہ
ہوسکتاتھا شکست سے دوچار کرنے کاسبب نہیں بن سکتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جب جہاد کی بات کرتے ہیں تو قرآن و حدیث کے بجائے
شاعروں کے ’’بکواس و ہفوات‘‘سے استدلال کرتے ہیں ۔جب ہم عسکریت کا تجزیہ
کرتے ہیں تو عالمی سطح کے ماہرین عسکریت اور فوجی جرنیلوں کے برعکس مجھ
جیسے ’’کم علم ‘‘قلمکاروں کا حوالہ پیش کرتے ہو ئے جہاد پر لکھی گئی ناولوں
کو بطورِ جواز پیش کرتے ہیں ۔اتنے بڑے انسانی المیے کا تجزیہ نا کرنے کے
بجائے جب ہم اپنی نئی نسلوں کو ’’مجاہدین کی کراماتی واقعات ‘‘سنا کر ماحول
گرما دیتے ہیں تو بے اختیاررونے اور مرثیہ کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ہم
روزلاشوں کو دفناتے ہو ئے غور کرنا بھی گوارانہیں کرتے ہیں کہ ہم کہاں تھے
کہاں پہنچے ؟حریت لیڈران جو ایک دور میں عسکریت کی سرپرستی کرتے ہو ئے
پھولے نہیں سماتے تھے اب عسکری نوجوانوں کی شہادت پر ایک عدد بیان تک
معاملات محدود کر چکے ہیں ۔وہ لوگ بے شک درد رکھتے ہوں گے مگروہ اپنے
اعتبار سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا نہ میدان ہے نہ موضوع ۔شدید افسوس اس
بات کا ہے جب ’’حزب المجاہدین ‘‘جیسی سب سے بڑی جہادی تنظیم نے حکمت عملی
کا بھرپور استعمال کرتے ہو ئے ’’واجپائی حکومت‘‘ میں جنگ بندی کا فیصلہ کر
لیا تو انہی سیاست کاروں نے پورے برصغیر میں پاکستان سے لیکر ہندوستان تک
آسمان سر پر اٹھا کر حزب المجاہدین کی قیادت کو ذلیل کرنے میں کوئی کمی
نہیں چھوڑی !پھر حیرت یہ کہ اس جنگ بندی کو ناکام کرنے کے بعد ’’حریت
سورماؤں‘‘نے خود جنگ بندی کی اپیل کی !؟آخر اگر یہ معاملات عسکری میدان کے
تھے اور حریت کو اسے کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا تو پھر حریت کانفرنس جیسی
خالص سیاسی پلیٹ فارم پر جمع منتشرالخیال لوگ کیسے جنگ بندی کراسکتے ہیں
؟عسکری لیڈران کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ’’پاکستان اور ہندوستان کے مسائل
‘‘سے ذرا اوپر اٹھ کر آپ اپنا محاسبہ کرتے ہو ئے غور کریں کہ کس طرح اپنی
کمزوریوں اور دوسروں کی ’’رام کہانیوں ‘‘سے متاثر ہو کر انھوں نے ایک اہم
علامت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ۔
اب جہاں تک پتھراؤ کا تعلق ہے یہ کشمیر میں ہی نہیں پوری دنیا میں مظاہرین
مشتعل ہو کر کرتے ہیں ۔مگر 2010ء اور2016ء کے بعد یہ موضوع شدت پکڑتا جا
رہا ہے کہ ہمارے نوجوان قلم کے بجائے پتھر کیوں اٹھاتے ہیں ؟سچائی یہی ہے
کہ بھارت کا ریاستی جبر اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ نئی نسلوں کو ان کے
مستقبل سے مایوس کرتے ہو ئے انہیں جان بوجھ کر ’’پرتشدد راستوں‘‘پر ڈال
دیتا ہے ۔کہنے کو نریندر مودی نے گلے لگانے کی باتیں ضرور کیں اور پی ڈی پی
’’ہیلنگ ٹچ‘‘کہتی رہی مگر عملاََ گلے بھی کاٹے گئے اور زخموں پر زخم بھی یہ
لوگ دیتے گئے ۔پورے کشمیر میں کہیں بھی پر امن احتجاج کی اجازت نہیں دی
جاتی ہے ۔روزانہ کی بنیاد پرایم ،ایل،اے انجینئر رشید کو احتجاج کرنے پر ہی
گرفتار کیا جاتا ہے ۔سید علی شاہ گیلانی جیسا بہت بڑا سیاسی لیڈر گذشتہ آٹھ
برس سے گھر کے جیل میں بند ہیں ۔میر واعظ کشمیر کا معاملہ بھی مختلف نہیں
ہے اور یاسین ملک کو ہر تیسرے دن سینٹرل جیل گرفتارکر کے بھیجا جاتا ہے
۔آزادی کے لئے درکنار عوام اگر اپنی بنیادی ضروریات کے لئے بھی سڑکوں پر
آتی ہے تو پولیس ان کی ہڈی پسلی ایک کر دیتی ہے ۔ کتنے نوجوان جیلوں میں
ہیں ؟کتنے ناخیز ہو چکے ہیں ؟اور کتنے اندھے کئے جا چکے ہیں یہ اس بات کا
ثبوت ہے کہ کشمیر میں پر امن احتجاج کی بھی اجازت نہیں ہے ۔یہاں روزانہ کی
بنیاد پر آئین کی دھجیاں خود آئین ہی کے محافظ اڑاتے ہیں ۔ہاں جب ریاست میں
حالات خراب ہو کر 2010ء یا 2016ء کی طرح قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو نئی
دہلی میں حکمران ٹولہ ٹیلی ویژن چینلز پر آکر ’’پر امن احتجاج ‘‘کرنے کے
لیکچر دینے لگتے ہیں ۔یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے جیسی 1990ء میں پیدا
ہوئی تھی جب کشمیر میں بندوق کا راج قائم ہواتو بھارت کے لیڈران ،سیاستدان
،حکمران اور دانشور کشمیر آکر ’’بندوق کے برعکس پرامن جدوجہد ‘‘پر کشمیری
نوجوانوں کو لیکچر دیتے تھے ۔دہلی کے وجود میں جھوٹ اور دغا کا کینسر داخل
ہو چکا ہے ۔جس کا آج وعدہ کریں گے کل اسی سے منہ پھیر لیں گے ۔پتھراؤ گر چہ
ردعمل اور غصے میں ہوتاہے مگر ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ غم و غصے کی
ایک علامت ہو سکتی ہے خود تحریک نہیں ۔ہمارے لیڈران کی یہ ذمہ داری ہے کہ
وہ اس علامت کو بھی غلط رخ پر جانے سے روکیں اس لئے کہ ہمارے نوجوانوں کی
زندگی کی قیمت ایک پتھر نہیں ہو سکتی ہے ۔2008ء سے لیکر2018ء تک ہم چار سو
کے قریب نوجوان کھو چکے ہیں جنہیں پر امن احتجاجوں کے دوران گولی مار کر
قتل کردیا گیا ۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پتھر اپنی ذات میں تحریک نہیں ہے کہ
اگر کوئی اس کے استعمال پر (درست یانا درست)بات کرتا ہے تواس کی زبان نا
کاٹی جائے ۔ہمارے نوجوانوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ لیڈران جب پرامن
احتجاج کی کال دیتے ہیں اس کا ہرگز مطلب پر تشدد نہیں ہوتا ہے ۔لیڈروں کی
اطاعت کے برعکس ہر گاؤں اور گلی میں ہر ایک کا گیلانی کا روپ دھارنا مناسب
نہیں ہے ۔
اس طرح ہڑتال بھی تحریک کشمیر کی ایک عارضی علامت ہے جس کو دنیا نے مزدور
تحریکوں اور کیمونسٹ تنظیموں سے اخذ کر کے اپنا یا گیاہے ۔افسوس اس بات کا
ہے کہ ہم درست انداز میں سوچنے سے گریز کرتے ہو ئے ہر اشو کو جذبات کی عینک
سے دیکھتے ہیں ۔ہڑتال سے خالص ہمارا نقصان ہوتاہے۔ اورنئی دہلی کو ہمارے
نقصان سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ پھر ہم
ہڑتال کر کے اپنا ہی نقصان کیوں کرتے ہیں ؟یہ ایک قسم کی قربانی ہے جو کوئی
بھی قوم اپنے مقصد کے حصول کے لئے دیتی ہے تاکہ دنیا کو اس کی ناراضگی یا
بیزاری کا علم ہو جائے ۔آسیہ اندرابی نے چند روز قبل بالکل درست کہا کہ
ہڑتالوں سے ہمیں آزادی نہیں ملے گی ۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری قوم
مہینوں پر مشتمل ہڑتالوں کی باربار متحمل نہیں ہو سکتی ہے ۔ہم نے اپنی
ناراضگی کے اظہار کے لئے بھی اس ہتھیار کو اس قدر استعمال نہیں کرنا چاہیے
کہ یہ ہمیں ہی الٹا ذبح کردے ۔ہم نے نوجوانوں کو گذشتہ تیس برس میں ہڑتالوں
کا اس قدر عادی بنادیا ہے کہ جب ’’جہادِ کشمیر‘‘ کے اہم ترین رہنماسید صلاح
الدین احمد نے 2010ء میں بعض عیاں وجوہ کی بنیاد پر ہڑتال میں وقفہ کرنے کی
تجویز پیش کی تو سری نگر میں نوجوانوں نے ان کے پتلے جلا دئے اور اسی طرح
گیلانی صاحب کے خلاف ایک محاذ کھولا گیا ۔لیڈروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ
اگرچہ وہ پولیس حراست یا نظر بندی کی وجہ سے قوم سے الگ کر دئے جاتے ہیں،
تو وہ سوشل میڈیا پر آکر نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہو ئے انہیں تحریک اور
علاماتِ تحریک کا فرق سمجھا دیں تاکہ قوم کسی علامت کے غلط استعمال سے بھی
بچیں اورجب لیڈران کسی علامت کو عوامی سوچ کے برعکس بصیرت پر مبنی
دانشورانہ سوچ کے تحت استعمال کرنا چاہے تو نوجوان اس پر اعتراض نا اٹھائیں
۔ذہن سازی کے یہ کام پر امن ایام میں ہی کئے جاتے ہیں۔جب حالات بگڑ جاتے
ہیں تب اپنی سوچ کے مطابق عوام سے کام لینا اسی لئے ناممکن ہو جاتا ہے جب
لیڈران کرام نے وقت کی قدر نہ کرتے ہو ئے قوم کی ذہن سازی نا کی ہو ۔لیڈران
کرام بالخصوص سید علی شاہ گیلانی صاحب کو میں اس لئے اس کام کے لئے اہل
ترین سمجھتا ہوں کیونکہ نوجوان ابھی تک ان کی باتیں انتہائی توجہ اور غور
کے ساتھ سنتے ہیں اور ان کا اثر قبول کرتے ہیں ۔مختصر ’’وی ڈیوز‘ ‘کے ذریعے
یہ کام پیرانہ سالی کے باوجود اوہی کر سکتے ہیں ۔2010ء اور2016ء میں سید
علی شاہ گیلانی صاحب کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ بپھرے نوجوانوں کو قابو کرنا
پھر ایک طرح سے ناممکن ہو جاتا ہے لہذا یہ ان کی منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ
براہ راست خطاب کے ذریعہ مؤثر ترین سوشل میڈیا کو استعمال میں لاتے ہو ئے
یا اپنی تحریر کے ذریعے نوجوان پود تک یہ بات پہنچا دے کہ وہ مشتعل ہو کر
یا جذبات میں مغضوب الغضب ہو کر اطاعت اور سنجیدگی کا دامن چھوڑنے کا رویہ
ترک کردیں ۔ہند بیزاری میں انسانی قدروں کو پامال نا کریں اور نا ہی
مجبوروں کی مجبوریوں سے آنکھیں چرا لیں ۔ |