مسلم لیگ (ن)کے نئے صدر

مسلم لیگ (ن) کے بانی قائدنوازشریف کی پارٹی صدارت کیلئے نااہلی کے بعدانکے چھوٹے بھائی اوروزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کوپارٹی کی صدارت سونپ دی گئی ہے حالیہ عرصے میں عدلیہ کی جانب سے کئے گئے کچھ فیصلوں کے بعدخیال کیاجارہاتھاکہ اگلے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کاشیرازہ بکھرجائیگااوراسکے اہم اراکین دوسری پارٹیاں جوائن کرنے میں دیرنہیں لگائینگے آئے روزنون لیگ کی حکومت ختم ہونے کے دعوے سامنے آتے رہے حکومت توگرتے پڑتے اپنی مدت پوری کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے اس دوران سپریم کورٹ کے ایک سخت فیصلے کے تحت پارٹی سینیٹ الیکشن سے بھی بطورپارٹی باہرہوئی مسلم لیگ نون اس وقت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی بڑی اوراکثریتی پارٹی ہے قومی اسمبلی میں اسے واضح اکثریت حاصل ہے جبکہ سینیٹ میں بھی اسکی پوزیشن کوئی ایسی گئی گزری نہیں وفاق ، ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب، آزادکشمیر،گلگت بلتستان میں حکومت ہے بلوچستان میں پارٹی کی حکومت پراسراراندازمیں ختم ہوئی جبکہ خیبرپختونخوااسمبلی میں بھی حکومت کے بعددوسری بڑی پارٹی ہے اسطرح مسلم لیگ نون بلاشبہ ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہے یہ پارلیمانی پوزیشن گزشتہ عام انتخابات کے بعدسامنے آئی ہے ان انتخابات کومنعقدہوئے پونے پانچ سال کاعرصہ گزرچکاہے اوراب یہ پوزیشن صرف تین مہینے بعدختم ہونے جارہی ہے اگرالیکشن کاانعقادبروقت ہوجاتاہے (جس میں بظاہرکوئی رکاوٹ نظرنہیں آرہی)تواگست کے پہلے ہفتے میں ہم نئی منتخب حکومت پانے میں کامیاب ہوجائینگے فی الحال ملک کی سب سے بڑی پارٹی نون لیگ ہی ہے نون لیگ کی اندرونی صورتحال میں بھی اگرچہ ارتعاش موجودہے چوہدری نثار کی نیم دروں نیم بروں والی حالت برقرارہے ،ریاض حسین پیرزادہ مخالف بیانات دیتے رہتے ہیں ، پیرحمیدالدین سیالوی کے معاملے نے بھی شہرت پائی اورتحریک انصاف سمیت شیخ رشیدکادعویٰ ہے کہ بہت جلد مسلم لیگ (ن) کے اہم ارکان پارٹی کوخیربادکہہ دیں گے ایسی ناگفتہ بہہ صورتحال میں سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف کوناصرف وزارت عظمیٰ کیلئے نااہل کیاگیابلکہ پارٹی صدارت کاتاج بھی چھین لیاگیانوازشریف کے منظرسے ہٹنے کے بعدلامحالہ پارٹی کارکنوں کی نظریں انکے چھوٹے بھائی شہبازشریف پرلگی ہوئی ہیں انہیں پارٹی کاعبوری صدربھی نامزدکیاگیااس عبوری صدارت کودائمی صدارت میں تبدیل کرناپارٹی کیلئے چنداں مشکل نہیں ہوگااب قانونی طورپرمسلم لیگ (ن) کے صدرشہبازشریف رہیں گے جبکہ تمام معاملات حسب معمول نوازشریف ہی چلائیں گے سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف کی تمام نااہلیوں کاپارٹی کونقصان ہوایافائدہ یہ جاننے کاموقع ہمیں اگلے الیکشن کے بعدہی ملے گااب تک کے تمام سرویزاورجائزے اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ نوازشریف نے جوبیانیہ اپنایاہے عوام میں اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے اسی بیانئے کی وجہ سے ہی جہانگیرترین کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست مسلم لیگ نون نے حاصل کی جس سے نوازلیگ کے حوصلے بلندہوئے انہی بلندحوصلوں سے شہہ پاکرنوازشریف نے عدلیہ اوردیگراداروں کوآڑے ہاتھوں لیااوروہ اپنی ہرتقریرمیں عدلیہ پرتنقیدکاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے انہی کے بیانئے کوآگے بڑھانے کے جرم میں انکے ایک سینیٹراپنی کرسی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اوردواہم و سرگرم وزراء کے سرپرتوہینِ عدالت کی تلوارلٹکتی ہوئی نظرآرہی ہے شہبازشریف کوآگے لانے کاایک مقصدیہ بھی تھاکہ وہ مقتدرقوتوں کیلئے نوازشریف کی نسبت زیادہ قابل قبول ہیں اورانکے ساتھ مفاہمانہ روئیے کی بناء پروہ زیادہ بہتراندازمیں معاملات طے کرسکتے ہیں وہ اداروں اورحکومت کے درمیان ٹکراؤاورتصادم سے گریزکاراستہ اپناتے ہیں ،وہ تصادم اورمحاذآرائی کے خلاف ہیں اورانکے سٹیبلشمنٹ سمیت تمام مقتدرقوتوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں مگریہ بیانیہ اس وقت غلط ثابت ہواجب نیب نے شہبازشریف کوبلایاوہ پیش ہوئے مگرپیشی کے بعدجوپریس کانفرنس کی یاپھرپنجاب کے ایک اعلیٰ افسراحدچیمہ کی گرفتاری پرپنجاب حکومت اورصوبائی اسمبلی کی جانب سے جوردعمل سامنے آیااس سے توصاف نظرآرہاہے کہ شہبازشریف بھی نوازشریف کے بیانئے کے حامی بن چکے ہیں ویسے بھی نوازشریف کوسپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کے بعدیہ انوکھاموقع فراہم کیاگیاکہ وہ بیک وقت حکومت اوراپوزیشن دونوں کے امورسنبھال چکے ہیں اگلے عام انتخابات کے نتائج سے اس بات کاعلم ہوگاکہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی نے نوازشریف کوفائدہ پہنچایایانقصان فی الحال تویہ فیصلہ نوازشریف کے حق میں جاتاہوانظرآرہاہے جہاں تک شہبازشریف کاتعلق ہے اگراگلے عام انتخابات میں نوازشریف کی عدلیہ پرتنقیداورمحاذآرائی کی سیاست کوپذیرائی ملتی ہے اوردوسری جانب شہبازشریف کی مفاہمانہ پالیسی کوشرف قبولیت حاصل ہوتی ہے تواگلے وزیراعظم یقیناً شہبازشریف ہی ہونگے انکے سامنے علاقائی اورعالمی چیلنچزہونگیں جن سے عہدہ برآں ہونے کیلئے انہیں مزیدتندہی سے کام کرناہوگااگرمسلم لیگ (ن)انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے توشائدپاکستانی تاریخ میں پہلی بارملک کوایک ایسے وزیراعظم دستیاب ہونگے جوصبح کے چھ بجے اٹھتے ہیں اورقائداعظم کے اصول کام کام اورصرف کام پریقین رکھتے ہیں انکے سامنے پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف ہے جن کے پاس شہبازشریف کے مقابلے کاآدمی موجودنہیں پیپلزپارٹی کاتوویسے ہی پنجاب سے صفایاہوچکاہے اورنہیں لگ رہاکہ آئندہ عام انتخابات میں ذوالفقارعلی بھٹوکی پارٹی اپنی موجودہ پوزیشن بھی برقراررکھنے میں کامیاب ہوگی جبکہ تحریک انصاف کے اب تک جلسے بہت بڑے بڑے ہوئے ہیں مگرسوائے لودھراں کے 2015والے الیکشن کے( جس میں جہانگیرترین کامیاب ہوئے تھے) پنجاب کے کسی ضمنی الیکشن میں پارٹی کوئی خاطرخواہ پوزیشن حاصل نہ کرسکی البتہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں یہ دوسرے نمبرکی پارٹی ضروربن کرابھری آئندہ عام انتخابات کے نتائج اس بات کاثبوت ہونگے کہ عوام میں عمران کے مؤقف کوشرف قبولیت حاصل ہوتی ہے یانوازشریف کی پالیسی کوووٹ ملتاہے عمران خان نے بھی حالات کوبھانپتے ہوئے اپنی توپوں کارخ شہبازشریف کی جانب کرلیاہے احدچیمہ کوانہوں نے شہبازشریف کافرنٹ مین قراردیاجبکہ انہیں چھوٹے ڈان کہہ کربھی بلایاگیاانکی بطورقائمقام صدرپیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کی جانب سے خیرمقدم سامنے نہیں آیابلاول اورانکے والدآصف زرداری کوپہلے ہی وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے اوپرسے انہوں نے سرے محل اورسویٹزرلینڈکے اکاؤنٹس کی بات ایک مرتبہ پھرچھیڑی ہے جبکہ عمران خان کی جانب سے بھی اب انہیں نشانے پررکھ لیاگیاہے پارٹی صدربننے کے بعداب مخالفین کی توپوں کارخ نوازشریف کی بجائے شہبازشریف کی جانب ہورہاہے عمران خان کے لگائے گئے الزامات پرشہبازشریف نے سپریم کورٹ سے فل بینچ بنانے کی اپیل کی ہے بہرحال مسلم لیگ (ن) کے نئے صدرکے کاندھوں پراب بھاری ذمے داریاں عائدہوچکی ہیں انکے سابقہ ریکارڈکومدنظررکھتے ہوئے یہ بات بلامبالغہ کی جاسکتی ہے کہ وہ تمام درپیش چیلینچزکاخوش اسلوبی سے سامناکرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں اورمسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کی امیدبھری نظریں اپنے نئے صدرکاطواف کررہی ہیں۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 57956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.