پروفیسر حافظ سجاد قمر
اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ مسلم لیگ نواز شریف کا دوسرا نام ہے یہ
دونوں لازم و ملزوم ہیں․ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد مسلم لیگ طاقت
کی غلام بن کر رہ گئی راتوں رات قائد ایوان کی تبدیلیاں اور ایک لیگ سے
دوسری لیگ میں جانا گویا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔مہار مکمل طور پر
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں تھی۔ بقول شاعر۔۔۔
وہ نگاہ ان کی مجاز تھی کبھی جھک گئی کبھی اٹھ گئی
ہم سے یہی ہو سکا میت کبھی جی اٹھے کبھی مرگئے۔
قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ حقیقی معنوں میں ایک سیاسی جماعت نواز شریف
کی قیادت میں بنی۔ اور قومی سطح کی نمائندہ اور مضبوط جماعت بن کر ابھری۔
پرویز مشرف کی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود مسلم لیگ کو ختم نہیں
کیا جا سکا۔ دس سال کا طویل ترین عرصہ نواز شریف اور مسلم لیگ نے نہایت
ابتلاء اور آزمائش میں گزارا لیکن ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ میاں محمدنواز شریف کی ذات سے کسی کو اختلاف ہو لیکن ملک
کی ترقی اور نیک نامی کی اگر کوئی مثال ہے تو وہ میاں نواز شریف کے دور سے
ہی لی جا سکتی ہے۔
2013ء میں جب پاکستان کے عوام نے نواز شریف کو اقتدار کیلئے مینڈیٹ دیا
توکچھ نادیدہ قوتوں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ چنانچہ اول روز سے ہی سازشوں کا
زبردست جال بنا گیا۔ دھرنوں اور احتجاج کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ جو ختم
ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بھلا ہو جاوید ہاشمی کا جس نے سچ بولا کہ یہ دھرنے
کس نے کروائے۔ اور آئندہ کیا ہوگا۔ دھرنوں کے بعدپاکستان کی سب سے بڑی
عدالت سے جو فیصلے آنے لگے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ منصف اعلی کو خدا کی قسم
کھانے کی ضرورت کیو ں پیش آئی۔ اپنے فیصلوں کی تقسیم اور تشریح کا کیا
مطلب؟ بہر حال یہ پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد دوسرا موقع تھا جب ہم ہر
روز ایک نئی افواہ سنتے کہ آج مسلم لیگ (ن) کے اتنے ارکان اُدھر جارہے ہیں
اور آج اتنے ارکان ادھر جار رہے ہیں۔ شطرنج کی چال چلنے والوں نے کہہ دیا
تھا کہ مسلم لیگ اب ختم ہو گئی ہے آج گئی یا کل، اور صرف کہا ہی نہیں اسکے
لئے اپنا پورا زوربھی لگایا۔ ایسے میں اگر کوئی حادثہ بھی ہوا تو اس کا
تمام تر الزام نواز شریف پر ہی لگا دیا گیا۔
نواز شریف وزارتِ عظمی سے فارغ، صدارت سے فارغ، پوری پارلیمان کے فیصلے کو
بیک جنبش قلم مسترد کر کے نواز شریف کو دوبارہ صدارت سے فارغ کر دیاگیا۔
لیکن ان سب کوششوں کے باوجود نواز شریف کی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جا
سکااورعوا م یہ نعرہ لگانے پر مجبور ہوئے کہ ’’ تمہارا فیصلہ کچھ بھی ہو ۔
ہمارا فیصلہ میاں نواز شریف ہے ۔ اگر غور کریں تو پاکستان کی تاریخ میں یہ
بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعدنواز شریف وہ دوسرے
لیڈر ہیں جو عوام میں اپنی بے پناہ مقبولیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کو طیب
اردگان سے ملایا جاتا ہے تو یہ کوئی جھوٹ نہیں۔ لیکن ترکی اور پاکستان کے
معروضی حالات میں تھوڑا سا فرق ہے۔ نواز شریف اور طیب اردگان کی سوچ ایک ہی
ہے۔ کہ اپنے ملک کو صحیح معنوں میں جمہوری اور فلاحی مملکت بنایاجائے ،
لیکن ٹائمنگ میں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہے ۔ ہمارے ہاں ٹانگیں کھینچنے والے
اور پس پردہ عناصر بہت فعال ہیں۔ اردگان نے مسلسل دو دفعہ وزیراعظم اور پھر
صدر بننے کے بعد جو اقدامات کئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ترکی کے عوام ان کیلئے
نکلے ہیں تو جائز نکلے ہیں۔ لیکن نواز شریف نے بھی 2013ء سے جو کام کئے
ہمارے خیال میں میڈیا میں نہ ان کاموں کو مناسب کوریج ملی اور نہ ہی ان کی
مناسب تشہیر ہوسکی۔ میاں نواز شریف صاحب نے گزشتہ سال جناب حافظ عبد الکریم
صاحب کو وزارت ِ مواصلات کا قلمدان سونپا تو ملک گیر جائزوں کے بعد ہمیں
پتہ چلا کہ کیاکیا انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔2013ء میں موٹر وے کی لمبائی
پانچ سو کچھ کیلومیٹر تھی جبکہ 2018ء میں یہ 2200تک پہنچ جائے گی۔ ایک طرف
66برس کا کام اور دوسری طرف 5برس کا کام۔ کیپٹن (ر) محمد صفدر کہہ رہے تھے
کہ این ایچ اے کے قریب سے بھی کوئی گزرتا تھا تو نوٹوں کی بوری لیکر جاتا
تھا لیکن میاں صاحب کے آنے کے بعد سارا رخ تبدیل ہوگیا۔ اور اتنے صاف اور
شفاف کام ہوئے کہ ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
میاں صاحب کا آپریشن بھی ہوا اس کے بعد اہلیہ بیمار ہوئی۔ میاں صاحب نا اہل
ہوئے۔ این اے 120میں ضمنی الیکشن ہوا، اس سارے دور میں کون تھا جس نے میاں
صاحب کو ڈگمگانے نہیں دیا۔ اور ان کا حوصلہ صرف باتوں سے نہیں اپنے کام سے
بندھائے رکھا یہ مریم نواز تھیں ۔ کسی نے کہا کہ مریم نواز بے نظیر نہیں ہو
سکتی۔ کہ بے نظیر نے ابتلاء کا دور گزار کے قیادت کی۔ لیکن یہ تو اپنی اپنی
قسمت کی بات ہے۔
لیڈر بننے کیلئے کوئی ایک موقع ہی کافی ہوتا ہے۔ میاں صاحب کی دوسری اولاد
بھی ہے۔ ان کا خاندان بھی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ انہوں نے کسی کو روکا ہو،
یا کسی کو اپنا جانشین نامزد کر دیا ہو سب کو موقع ملا لیکن جو اپنے آپ کو
منوالے۔ اس کو کون روک سکتا ہے۔
﴾ جو بڑھ کے تھام لے مینا اسی کی ہے۔
اپنے ہی دور حکومت میں اس طرح کی آزمائش اور پھر جے آئی ٹی بننا اور جے آئی
ٹی کے فیصلے اور ان کا بوجھ سہہ لیناکوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن میں
دیکھتا ہوں کہ ایک دن بھی مریم نواز کا کوئی ٹویٹ پریشان کن نہیں تھا۔ یہ
جو اعتراضات اٹھ رہے ہیں اور جو باتیں ہو رہی ہیں یہ کوئی نئی نہیں ہیں۔
طرز کہیں پر اڑنا اور آئین نو سے ڈرنا پرانا مسئلہ ہے جب دور تبدیل ہوتا ہے
تو بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ مجھے اگر یہ زعم ہے کہ میں بہت زیادہ سینئر
ہوں تو یہ ایک حد تک ہے۔ جب میں اپنی حد کراس کرونگا تو بھرم ختم ہو
جائیگا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک پنیری لگائے ، پانی دے ، موسموں کی
شدت سے پودے کو محفوظ رکھے۔ گرمی سردی میں اس کا خیال رکھے اور جب پودا پھل
دار درخت بن جائے تو پھر کوئی اور اس کا دعوے دار بن جائے۔ مسلم لیگ نواز
شریف کا ہی دوسرا نام ہے۔ باقی پورا خاندان اپنی جگہ قابل اور لائق فائق
ہے۔ لیکن اگر نواز شریف مائنس ہو جائے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ مریم نواز
شریف ہی وہ شخصیت ہے جو اپنے باپ کے ورثہ کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ مانسہرہ
جیسے علاقہ میں وفاقی وزیر مذہبی امور اور سردار محمد یوسف اور کیپٹن (ر)
محمد صفدر نے سوشل میڈیا کنونشن منعقد کیا جو کنونشن سے بڑھ کر ایک بہت بڑے
جلسے کی شکل اختیار کر گیا۔ اقتدار کے دنوں میں لوگ حکومتی پارٹی کے جلسے
میں نہیں آتے۔ ہماری عوام ھلاّ گلّا زیادہ پسند کرتی ہے۔ لیکن جس طرح لوگ
نواز شریف کے جلسوں میں آ رہے ہیں وہ بھی قابل غور ہے۔ اور مریم نواز کا ہر
کنونشن پچھلے کنونشن سے زیادہ جاندار ہوتا ہے کوئی وجہ تو ہے۔
اور پھر لوگ جس طرح نوازشریف کو دوبارہ صدارت سے فارغ کرنے پر نکلے ۔ وہ
بھی سب کے سامنے ہے ۔ ڈی جی خان میں اسامہ عبدالکریم نے بہت بڑی ریلی نکالی
اور اُن کا کہنا تھا کہ میں نے عزم کیا تھاکہ ہر صورت ریلی ہو گی کیوں کہ
ایک مقبول ترین قیادت کو اس طرح باربار ہٹا یا جارہاہے۔ جو چیز لوگوں کے
دلوں میں ہے اس سے کون کسی کو نکال سکتا ہے ۔ کاشف شفیق رندھاوا کہہ رہے
تھے کہ عوام کے اندر ایک لاوہ پک رہا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ یہ لاوا پھٹ ہی
نہ جائے ۔ مریم نواز شریف خوش قسمت ہیں ان کو اپنی عوام کی بے پناہ محبتو ں
کے درمیان اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ملا ہے ۔ میاں نوازشریف کی ٹیم
صحیح ہے اور حالات کے مطابق اپنا کردار کر رہی ہے ۔
نوازشریف یا مریم نواز کو معاونت کی ضرورت ہے سر پرستی کی نہیں ۔ احسن
اقبال ، خواجہ سعدرفیق، انوشہ رحمان ، حافظ عبدالکریم ، کیپٹن (ر) محمد
صفدر سمیت ہر ایک کی صلاحیت اپنی جگہ مسلم ہے۔سینٹ الیکشن کے لیے انوشہ
رحمان کو آرڈی نیشن کر رہی تھیں اس موقع پرمیں نے خود مشاھدہ کیا کہ وہ
پارٹی کے ہر امیدوار کے مسئلے کو اپنا مسلہ سمجھ کر دلچسپی لے رہی
تھیں۔باتیں اور تبصرے باہر بیٹھ کر ہوتے ہیں۔ کام کو اپنا کام سمجھنا اور
ذمہ داری سے کام کرنا ،اصل کام ھوتا ہے۔
نواز شریف کی ٹیم یہی کام کر رہی ہے۔ رہ گےٗ میر ظفر اﷲ خان جمالی تو وہ اس
دن کے بعد اب تک اسمبلی نہیں آئے جب وہ الیکشن بل والے دن دوسری طرف کے
پنچوں پر نظر آئے ۔قبر میں لاتیں لیکن ان کے جھانسے میں آئے جنھوں نے ان کو
وزارت عظمی کی کرسی سے الگ کیا تھا۔ایک وہ قیادت ہے جو مسلم لیگ کے اندر سے
نوشتہ دیوار نہیں پڑھ رہی ہے۔ان کی عزت یہی ہے کہ وہ اس وقت کھل کر ساتھ
دیں۔ اپنے اختلافات کو اپنے اندر رکھیں۔ جس کی وجہ سے ان کو عزت ملی اس کی
عزت کریں۔ یہی ان کی عزت ہے۔لیکن کچھ تبدیلیاں لازمی ہوتی ہیں۔ ذوالفقار
علی بھٹو کے ساتھی اور تھے بے نظیر کے اور، آصف علی زرداری کے اور تھے۔ اگر
کل بلاول کسی منصب پر پہنچا تو آصف علی زرداری کے ہمراہی اس کے ہمراہی نہیں
ہونگے۔ یہ قانون فطرت ہے ۔ بڑوں کے دوستوں اور مشکل وقت میں ساتھ دینے
والوں کو ضرور ساتھ رکھنا چاہے لیکن ہیڈ ماسٹر بنا کر نہیں بلکہ ایک شفیق
اور مہربان بزرگ کی طرح۔
مریم نواز نے اب تک اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایاہے لیکن ابھی انہیں کئی
دریاؤں کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا کیلئے زبردست منصوبہ سازی، نوجوانوں کی
بہترین ٹیم، ان کیلئے اسٹڈی سرکلز، تربیتی مراحل اور بہت ساری چیزوں کی
ضرورت ہے۔ یہ سب ہوجائیگا اس کیلئے مسلسل جدوجہد، مستقل مزاجی اور استقامت
کی ضرورت ہے اور یہ سب خوبیاں بدرجہ اتم مریم نواز میں نمایاں ہیں ۔وہ
اسٹیج پر کھڑے ہو کر مشرقی روایات کے مطابق عمدہ اور اخلاقی دائروں میں
گفتگو کرتی ہیں ۔عوام کے سامنے عوامی باتیں رکھ کر،عوامی مسائل اُٹھا کر
اور اُن کا حل بتا کر اور عوام میں بے حد مقبولیت حاصل کررہی ہیں ۔وہ ایک
منتظم ،پارٹی کی متحرک ،فعال اور ذمہ دار لیڈر ہیں ،اگر چہ وہ عملی سیاسی
میدان میں اتنی پرانی نہیں لیکن جتنی مقبول ہیں وہ ان کی صلاحیتوں کا منہ
بولتا ثبوت ہے ۔اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب کے دائرہ کار میں
رہ کر گفتگو ،سلیقہ اور طریقہ کے ساتھ ان کا خاصہ ہے اور تو اور اُن کا
انتخاب انفارمیشن جیسی منسٹری کیلئے مریم اورنگزیب بھی آج تک دھوپ اور
چھاؤں میں عام اور مشکل حالات ہر امتحان میں نہ صرف کامیاب ٹھری بلکہ انہوں
نے ثابت کیا کہ مریم نواز کا انتخاب غلط نہ تھا ۔
یہ بات تو طے ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی ،دختر مشرق مریم نواز
جس عزم ،ہمت اور حوصلے سے میدان میں ہیں ان کی جہدمسلسل کے سامنے کوئی طاقت
بھی کھڑی نہیں ہوسکتی اور عوام میں موجود ان کی پزیرائی اور والہانہ عوامی
عقیدت پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت سے اور عوام سے انہیں دور نہیں رکھ سکتا
جبکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے مریم نواز کی قیادت میاں محمد
نوازشریف کی سرپرستی میں ملک و ملت کیلئے تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا وہ
پیغام ہے جس کا اہلیان پاکستان عرصہ دراز سے انتظار کرتے چلے آرہے ہیں ۔اور
یہ سب کچھ ثابت ماضی کے چند کامیاب تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہوچکا ہے وہ
الگ بات ہے کہ کوئی نہ مانے تو اس بات کا کوئی حل نہیں اور مستقبل مسلم لیگ
ن کا ہے کیونکہ عوامی عقیدتوں کا محور مسلم لیگ ن ہے اور مسلم لیگ ن کی اس
کامیابی کے پیچھے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی محنتیں اور مخلصانہ
کاوشیں شامل ہیں جو اس پارٹی کی کامیابی کا راز ہے ۔ |