وہ شخص جو بات بات پر جھوٹ بولتا ہے ٗجو الزام لگا کر
قانونی نوٹس بھی وصول نہیں کرتا ٗ جو اشتہاری قرار پانے کے باوجود بھی دو
سال تک عدالت میں پیش نہیں ہوتا ۔جو اپنی ہی زبان سے نکلی ہوئی بات سے مکر
جاتاہے ۔جو شہباز شریف پر پانامہ کیس واپس لینے کے لیے دس ارب روپے رشوت
دینے کاالزام لگا کر بھاگ جاتا ہے ٗ جو اٹھتے بیٹھتے نواز شریف سے حساب
مانگتاہے جو نو ہزار ارب روپے کی کرپشن کا حساب وزیر اعلی پنجاب سے مانگتا
ہے لیکن جب اس کو عدالت میں آکر اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے کہاجاتاہے
تو اس کو سانپ سونگھ جاتاہے وہ دم دبا کر ایسے بھاگتا ہے جیسے اس نے یہ
الزام لگایا ہی نہ ہو ۔ اس شخص کو عمران خان کے نام سے جانا اور پہچانا
جاتاہے ۔تحریک انصاف کے ترجمان بھی ان کے جھوٹوں پر قسمیں کھا کھا کر تھک
چکے ہیں ۔ایسے جھوٹے اور دوغلے پن کے مالک شخص کی( جسے سپریم کورٹ صادق اور
امین قرار دے چکی ہے) امانت ٗ دیانت اور سچائی کا بھانڈا بھی سپریم کورٹ
میں اس وقت پھوٹا جب عدالت کے روبرو متعلقہ یونین کونسل کی جانب سے بنی
گالہ کے 300 کنال اراضی پر مشتمل عالیشان محل کی تعمیر غیرقانونی بتائی گئی
۔بھارہ کہو کے سابق سیکرٹری نے تحریری طور پر عدالت عظمی کو بنی گالہ کے
حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی۔ محمد عمر نے اپنے بیان میں کہا کہ میں 2003ء
میں یو سی بھارہ کہو میں سیکرٹری تعینات تھا اور بنی گالہ میں عمران خان کی
رہائش گاہ کی تعمیر کے حوالے سے بنی گالہ کا نقشہ طلب کیاگیا ۔عمران خان کی
جانب سے کوئی نقشہ فراہم نہیں کیا گیا جس پر مزید کوئی کاروائی عمل میں
نہیں لائی جاسکی ۔رپورٹ میں مزید بتایاگیا کہ اس وقت یونین کونسل کے دفتر
میں کمپیوٹر کی سہولت موجود نہیں تھی تمام دفتری امور ہاتھ سے ہی نمٹائے
جاتے تھے ۔بنی گالہ کے گھر کا کوئی این او سی جاری نہیں کیا گیا اور جو
تحریر عدالت میں پیش کی گئی ہے وہ جعلی اور جھوٹ کا پلندہ ہے ۔(گویا سپریم
کورٹ کو جعلی کاغذات پیش کرنا بھی توہین عدالت کے مترادف ہے )۔یاد رہے کہ
اسلام آباد کیپٹل ڈوریلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے مئی 2017ء کو سپریم کورٹ
میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بنی گالہ کی 122 عمارتوں کو غیر قانونی قرار
دیا گیاتھا ۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ کے مطابق بنی گالہ کی تین سو
کنال اراضی 2002ء میں جمائما کے نام پر خریدی گئی تاہم اس وقت نہ تو جمائما
خان کا شناختی کارڈ محکمے مال میں جمع ہوا اورنہ ہی جمائما خان خود پیش
ہوئیں اور نہ ہی ان کا کوئی نمائندہ حاضر ہوا ۔سپریم کورٹ میں بنی گالہ کی
غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے جو کیس زیر سماعت ہے یہ اس کی کاروائی کے
مختصررپورٹنگ ہے ۔ان رپورٹوں کو پیش نظر رکھ کر ایک عام انسان بھی اس نتیجے
پر پہنچتا ہے کہ عمران خان نے نہ صرف سپریم کورٹ میں اپنے گھر کی تعمیر کے
حوالے سے جھوٹ بولا بلکہ وہ ابتداء ہی سے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے
چلے آرہے ہیں ۔ جس کا ایک اہم ثبوت اسلام آباد میں موجود ہونے کے باوجود
بار بار نوٹس ملنے پر دہشت گردی کی عدالت میں پیش نہ ہونا ہے اور پولیس کے
جو اہلکار بنی گالہ سمن پر دستخط کروانے کے لیے جاتے انہیں ڈرا دھمکا کر
واپس کردیاجاتا ۔ یہ عمران خان کی ریاستی قانون سے بغاوت ہی تو ہے جس نے
2014ء کے دھرنے میں پارلیمنٹ سمیت سرکاری املاک پر نہ صرف حملہ کیا بلکہ
شدید نقصان بھی پہنچایااورایک باوردی ایس پی پولیس کو زودکوب بھی کیا ۔
عمران تو وزیر اعظم سیکرٹریٹ بھی قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن کسی کے
اشارے پر ایسا نہیں کیاجاسکا ۔اب وہی عمران خان جو خود بھی پارلیمنٹ کا حصہ
ہیں اور غیر حاضری کی تنخواہیں بھی لینا جائز تصور کرتے ہیں ٗ اپنے جلسوں
میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہیں لیکن وزیراعظم بننے کے خواب تسلسل سے دیکھ
رہے ہیں۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ عدالت کے خلاف اگر ایسی زبان سے بات کی
جائے تو وہ توہین عدالت بنتی ہے لیکن پارلیمنٹ ٗ عدلیہ سے سپریم ادارہ ہے
اس کی توہین پر عمران خان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی
جاسکی۔ اس کا توصاف مطلب یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے عمران خان
کی زہرآلود اور باغیانہ گفتگو سے خائف ہیں ۔ نواز شریف اور مریم نواز عوامی
جلسوں جو اپنے خلاف عدالتی فیصلوں پر چیخ و پکار کررہے ہیں وہ حق بجانب ہیں
۔ بات بات پر جھوٹ بولنے اور ریاستی اداروں سے بغاوت کرنے والے عمران خان
صادق اورامین قرار پائے جبکہ وہ شخص جس نے پاکستان کو عالمی سطح پر تیزی سے
ترقی کرنے والا ملک متعارف کروایاٗ جس نے سی پیک جیسے کثیر الامقاصد منصوبے
کا آغاز کیاجس سے دنیا کے ساٹھ ممالک وابستہ ہونے کے لیے بے تاب ہیں اسے
ایک معمولی سی بات پر وزارت عظمی سے نااہل کرکے نیب عدالتوں میں دھکے کھانے
پر مجبور کردیاگیا ہے ۔ اس سے زیادہ ظلم اورکیا ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی
صدارت سے نااہل کرتے ہوئے سینٹ کے نامزد امیدواروں کو پارٹی کے ٹکٹ اور
نشان پر بھی سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیاگیا ۔ یہی وہ حقائق ہیں
جس پر مریم نواز نے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمرا ن خان کو صادق اور
امین قراردینے والوں کو میں سیلوٹ کرتی ہوں ۔ نواز شریف کے جلسوں میں عوام
کی بڑھتی ہوئی تعداد یہ ثابت کرتی ہے کہ عوامی سطح پر عدالتی فیصلوں کو
پذیرائی حاصل نہیں ہوپائی ۔ عدالت کا ترازو عمران خان کی جانب زیادہ
جھکادکھائی دیتا ہے جس کو ہر جگہ چھوٹ مل جاتی ہے اور نواز شریف ہر مقام پر
زیر عتاب آجاتاہے ۔ اب شہبازشریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے تو توپوں کا
رخ ان کی جانب کردیاگیا ہے ۔ عمران خان ملک بھر سے کرپشن کے خاتمے کی جو
بات کرتے ہیں ان کی باتیں سن کر ہنسی آتی ہے کہ جس شخص نے خیبر پختونخواہ
میں پہلے اپنے قریبی دوست کو ڈائریکٹر جنرل نیب مقرر کیا ٗ جب اس کا ہاتھ
تحریک انصاف کے اپنے ہی کرپٹ لوگوں پر پڑا تو اسے معطل کردیا۔ڈی جی نیب کے
عہدے کو خالی ہوئے اڑھائی کا عرصہ گزر چکا ہے ابھی تک نئی تقرری کرنے کی
توفیق نہیں ہوئی ۔ اسے کہتے ہیں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور
۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز ترین جج صاحبان ٗ بنی گالہ میں
غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ٗ ان تعمیرات کے مالکان کے خلاف اور عمران خان
کے جھوٹ اور فراڈ کے خلاف کیا ایکشن لیتے ہیں ۔مریم نواز کے بقول کیا عمران
خان اب بھی صادق اورامین ہیں یا سپریم کورٹ نواز شریف اور عمران خان کے
بارے میں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے گا ۔ قوم بنی گالہ کی غیر قانونی
تعمیرات اور عمران خان کے جھوٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے منتظر ہے ۔ |