یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم اور مشاہدہ زندہ انسانوں کی
فکری استبداد میں تبدیلی کے لیے فیول کا کام کرتا ہے ، ہم جب بھی محب
الوطنی کی بات کرتے ہیں تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اُس خطے سے، جس میں ہم
پیدا ہوئے، جہاں پھلے پھولے اور جس زمین کے وسائل کی مرہون منت نشونما پا
کر کہنے ، سننے، لکھنے اور کرنے کے قابل ہوئے، محبت ایک فطری عمل اور رویہ
ہے، یہاں پر کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد
پر کسی دوسرے کی محب الوطنی پر سوال اٹھائے یا کسی دوسرے کے جذبات کی تحقیر
کرے ، ہم تو شروع سے اسی نظریے کے قائل ہیں کہ ہر طرح کے حالات میں لوگ صرف
اور صرف نفع بخش پروگرام بناتے ہیں، ہر طرح کی سچوئیشن میں صرف مثبت حکمت
عملی تشکیل دیتے ہیں ، وہ الگ بات ہے کہ انڈرسٹینڈنگ میں تضاد جیسے فطری
امر کی وجہ سے نتیجتا کُچھ لوگ درست جبکہ کُچھ غلط ثابت ہو جاتے ہیں لیکن
اسکا مطلب یہ نہیں کہ صحیح ثابت ہونے والے غلط ثابت ہونے والوں کو طنز و
تشنیع کا نشانہ بنائیں ، بلکہ یہ وقت ہوتا ہےانسان بن کر دکھانے کا اور
انسان در حقیقت خطا کا پُتلا ہے ، آج جو غلطی کوئی اور کرتا ہے وہی کل کو
آپ سے بھی سر زد ہو سکتی ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ سمجھنے والوں کی حوصلہ
افزائی کی جائے اور نا سمجھنے والوں کو صرف مُدعا سمجھایا جائے۔
تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہر گُزرتے دن کے ساتھ اپنے رویے ، حکمت عملی،
اندازِ سیاست اور غیر جمہوری طور طریقوں کی بدولت اپنے حامیوں اور خاص طور
پر با شعور حامیوں کو متنفر کر رہی ہے اور یہ حقیقت کسی بہت بڑے دھچکے سے
کم نہیں ہے کہ جمہوری طرزِ حکومت میں طاقتور اپوزیشن درحقیقت عوام کے لیے
زیادہ معنی رکھتی ہے بجائے اقتدار کی مسند پر متمکن حکومت کے، کیونکہ اسکی
جنگ در اصل عوامی حقوق کی جنگ ہوتی ہے اور اسکا مقصد اپنے لوگوں کے ممکنہ
استحصال کو قبل از وقت بریک کرنے یا ختم کر دینے کا ہوتا ہے۔
تحریک انصاف بطور اپوزیشن ایک آئیڈیل گروپ تھا, 2013 سے 2018 کے درمیان جو
قابل تعریف حصہ بطور جماعت تحریک انصاف نے تمام مثبت اور عوامی مفاد پر
مبنی پالیسیوں میں ڈالا کہ اُس وقت موجودہ حکومت کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت
ایک یہ خوف طاری رہا کہ اگر زیادتیاں کیں تو لوگ نعم البدل کی طرف دیکھیں
گے اب وہی تحریک انصاف 2018 سے 2023 کے دورانیے میں حُکمران جماعت کی من
پسند پالیسیوں کی وجہ بنے گی کہ اپنے قائد کی غیر ذمہ دار قیادت, غیر
جمہوری طرز عمل اور غیر سنجیدہ اندازِ سیاست کی وجہ سے یہ پاکستان کی دیگر
سیاسی جماعتوں کو باور کروا چُکی ہے کہ لوگ اسے حُکمران جماعت کے طور پر
کبھی تسلیم نہیں کریں گے, کم از کم جب تک یہ شوقینِ شبِ زُفاف کے چُنگل سے
آزاد نہیں ہوتی۔
موجودہ سیاسی منظر نامہ اور اس پر مبنی عام عوام کی رائے اس بات کی غماز ہے
کہ جب وطنِ عزیز میں جمہوریت کے سوا ہمارے پاس دُوسری کوئی بھی آپشن فی
الوقت موجود نہیں ہےتو پھر اسے بالکل صحیح انداز میں پنپنے کے لیے ہمیں
پہلے سے اخذ کردہ اصولوں کی مکمل پیروی کرنا ہوگی ، اگر ان اصولوں سے
انحراف ہی برتنا ہے تو پھر دنیا والوں نے دیگر کئی سیاسی ماڈل تشکیل دیے
ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان ماڈلز کی تخریب کاریاں ہی انکا استعمال ترک
کرنے کا موجب بنیں ، اگر تحریک انصاف بہرحال ایک امید بننا چاہتی ہے توان
علامات سے کچھ سیکھے اور غور کرے کہ وہ کیا وجوہات جو اسے کسی طور بھی
حکمران جماعت کے طور پر متعارف نہیں ہونے دے رہیں؟
ان وجوہات کی شناخت کے بعد انکا خاتمہ بے حد ضروری ہے ورنہ یاد رکھیے گا،
ایک حامی کا اظہار عدم اعتماد ہزار نئے آنے والوں کو بدظن کرنے کے لیے کافی
ہے ۔ |