جو لوگ آزادحیثیت سے زندگی گزارنے کے خواہشمند ہیں
تو انہیں چاہیے کہ پاکستان آزاد پارٹی کے پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اس
پارٹی کا منشور بنیادی انسا نی حقوق پر مبنی ہے یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے اس
میں ایسی کیا خاص بات ہے جو پاکستان کی تما م جماعتوں میں نہیں دراصل بات
یہ ہے کہ انسانی حقوق کا نعرہ تو سب ہی لگا تے ہیں مگر اس کی گہرائی میں
جائیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے-
ہم کچھ ماہ قبل ایک تحریر کے ذریعے یہ کہہ چکے ہیں کہ عوام نے وال پیپر بدل
دیا ہے یہ( مرکزی خیال )تھا لیکن موجودہ حالات کی نسبت ثابت ہورہا ہے وہ اس
لیے کہ عوام ان تمام پارٹی (جو جو اپنے اپنے نعرے ) کی صدائیں دیتے ہیں جن
کی گونج سے لوگ اب تک بیوقوف بنتے چلے آرہے ہیں اس لحاظ سے انہوں نے یہ عہد
کرلیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان آزاد پارٹی کے منشور سے بھر پور
انداز میں حصہ لیں گے ایک عرصے سے جمہوریت کا راگ الا پنے کا سلسلہ جارہی
ہے کبھی آمریت کی بات کی جاتی ہے کبھی جمہوریت کی لیکن سوچنے کی بات ہے
جمہور کے معنی ہے عوام تو ہے کیا اس جمہوریت کے دعویداروں نے عوام کو آزادی
کی زندگی گزارنے کے مواقع دیے-
آج جن حالات سے یہ جمہوریت کے جھانسے میں آنے والے لوگ گزر رہے ہیں کیا
ایسی جمہوریت ہوتی ہے جنہیں آج تک آزاد حیثیت سے نہ سانس لینے دیا جاتا ہے
اور نہ ہی آزاد ی سے پانی کی گھونٹ پینے دی جاتی ہے یہ اس وقت صورحال اس
جمہوریت کے دعویداروں کی مرہونت ہیں جو ماضی میں بھی اس کا لبادہ اوڑھ کر
چلے گئے اب پھر اسی راگ الاپنے کے درپے ہیں جب قوم آزادی سے اپنی روز مرہ
زندگی نہیں گزار سکتی اور ہمیشہ سے اس پر پابندیاں ڈر خوف کا سایہ ان پر
تلوار کی طرح لٹکتا رہا ہے اور اب تک قوم اس کا سامنا کررہی ہے اور کہیں سے
بہتری کوئی اُمید نظر نہیں آرہی ہے تو پھر عوام کہاں جائے کس سے فریاد کرے
کس کے در پر دستک دے جو لوگ اس عوام سے ووٹ حاصل کرکے اپنا اقتدارمنصب
سنبھا لتے ہیں ان سے ملنا تو دور کی بات ہے ان کا چہرہ دیکھنے کو ترستے ہیں
اس لئے کہ اقتدار کی کرسی پر براجمان شیشے کے محل میں رہنے والے بھلا وہ
مظلوم عوم سے کیوں ملیں اور کیا ضرورت پڑی ہے ان کو اپنا چہرہ دکھائیں
کیونکہ ان کا مفاد صرف ایک وقت پرہوتا ہے جو پھر آنے والا ہے اس میں دیکھنا
ان کی ڈرامے بازیاں ان کے پر فریب نعرے۔
ایک چھوٹی سی مثال لے لیں بلکہ حقیقت ہے جمہور کا بچہ یعنی دنیا میں آنے
والا بچہ قرض کے بوجھ تلے دبنے کے ساتھ ساتھ اس کے دنیا میں آنے کے لیے بھی
اس قدر حائل رکاوٹیں اور پابندیاں لگا دی گئیں ہیں کہ وہ جب کہ ماں کے پیٹ
میں موجود ہی قرض تلے دبا ہوا ہے مگر آزادانہ طریقے سے وہ دنیا میں آنکھ
نہیں کھول سکتا اس بات کا ذکر یوں کیا جارہا ہے کہ ملک کے ہسپتالوں کی
صورتحال کا جائزہ لیں تو بات واضح ہوجائیگی کہ دنیا میں آنے والے بچے کی
پیدائش میں تیس سے پچاس ہزار کا خرچ عوام کو درپیش آتا ہے وہ عوام جو بھوک
پیاس سے بِلک رہی ہے یعنی اس حال میں تو زچہ بچہ دونوں ہی اپنی زندگی کی
بازی ہار جاتے ہیں ظاہر ہے ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے
آنے والا بچہ جسے جمہور بننا تھا وہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی چل بستا ہے
کیا یہ جمہوریت کے دعوے ہیں اس کے ساتھ ساتھ عوام کی موجودہ حالات پر روشنی
ڈالی جائے تو ہم نے کبھی یہ نہیں سنا اور نہ ہی دیکھا کہ ان کے چہروں پر
مسکراہٹ نظر آئی ہو یا خوشحالی عوام کی بدحالی کے ذمہ دار جمہوریت کے
ٹھکیدار ہیں انہی نے عوام کی خوشیاں یعنی یہ سب کچھ جمہوریت کے علبرداروں
نے چھین لی آئے دن مہنگائی کا طوفان عوام کے سروں پر منڈلاتا ہے کسی بھی
شعبے میں چلیں جائیں ان کے جائز مسائل جوں کے توں پڑے رہتے ہیں کوئی دستور
نہیں اور نہ کوئی اصول بس گاڑی کو دھکا دینے کا عمل چل رہا ہے یقین جانیے
اس فرسودہ نظام سے عوام بالکل مایوس ہوچکے ہیں -
چلے آ یئے دیکھتے ہیں ان کی چالاکیاں اور ڈرامے بازی اور وہ بھی نا اہل
وزیر اعظم جن کی مایوس کن صورتحال کے نتیجے میں ان کے منہ سے نکلے ہوئے
الفاظ ملاحظہ ہو مسلم لیگ (ن ) مرکزی مجلس عاملہ کی جانب سے بنائے گئے
تاحیات قائد نواز شریف نے کہا کہ پی سی او حلف سب سے بڑا جرم ہے سیاستدان
آسان ہدف ہیں انہیں ہتھکڑیاں لگا دیں ملک بدر کردیں اب یہ سکھا شاہی نہیں
چلے گی اگر یہی نظام ہے تو اسے قبول کرنے کو تیار نہیں70 سال میں جو نہیں
مل سکا وہ دلائیں گے۔ عوام بتائیں کیا آپ ماننے کو تیار ہیں ستر سال کو
آدھا کردیں جو یہ لوگ کسی بھی بہانے اقتدار پر قابض رہے کیا عوام کو حقوق
دلاسکے چلو حقوق کو ایک طرف رکھیں یہ لوگ نہ توخود اور نہ ہی لوگوں کو اعلی
شعور دے سکے اگر ان عرصے میں قوموں کی تربیت ہوجاتی تو پتہ چل جاتا کہ مجھے
کیوں نکالا -
ایک چھوٹی سی کہاوت ہے کہ رسی جل گئی پر بَل نہیں گیا یہی ماجرا رہا ہونے
والے نااہل سینیٹر نہال ہاشمی جنہوں نے وہی عمل اپنایا خیر اس عمل کے نتیجے
میں خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست پر ضمنی الیکشن ہوا مگر مزے کی بات یہ ہے
کہ وہ اس میں حصہ نہیں لے سکے کیونکہ وہ نااہل ہوچکے ہیں اس سے بڑی ذلت کیا
ہوگی-
مختصر یہ کہ ہر دلعزیز حسین نقی صاحب لکھتے ہیں کہ میڈیا کی آزادی جھوٹ
بولنے کیلئے نہیں ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات تحقیقات کے بعد غلط ثابت
ہوئے انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکڑ شاہد مسعود نے بڑے
پیمانے پر عوام کو گمراہ کیا حسین نقی کہتے ہیں اس قسم کے جو واقعات ہورہے
ہیں ان پر بعض اوقات سخت شرم محسوس ہوتی ہے اور اسی قسم کی باتوں سے میڈیا
کی ساکھ پر بہت برا اثر پڑتا ہے اس لئے تادیبی کاروائی کرنی چاہیے-
ادھر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ایک سماعت کے دوران اپنے
ریمارکس میں کہا کہ خدا کی قسم میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہماری نیت
بالکل صاف ہے صرف چاہتے ہیں کہ عوام کو دو وقت کی روٹی اور صاف پانی مل
جائے ثاقب نثار صاحب کے بقول کوئی کچھ بھی کہے ہم آئین اور قانون کے مطابق
کام انجام دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے تو ہمارا اس کی ذات پر کامل یقین ہے
اور انشاء اﷲ ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا (آمین)
اس تحریر کا سلسلہ جاری ہے جس میں آئندہ پاکستان آزاد پارٹی کے منشور کو
مکمل عوام کے سامنے رکھا جائے گا- |