کرپشن سے ملک پاک ہو گا تو تبدیلی آٰئیئگی
ـــــــــــــــــ۔ میٹرو اور انفراسٹرکچر کے معیار سے ملک میں تبدیلی
آٰیئگی ـــــــــــ۔روٹی ، کپڑا اور مکان ــــــــــــــــــــــ غربت کی
جھلک کو سنوارنے سے تبدیلی آۓ گی۔ تبدیلی کو سب نے اپنے مطابق اور لفظ
"تبدیلی" کو مختلف طرح سے طرتیب “Defend” کرنےکے لیۓ بیان دیتے نظر آتے
ہیں۔ مگر کیا ھمارا ملک جس طرح کے مساںل سے دو چار ہے، کیا اس طرح کے مساںل
کے لیۓ ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
اس بات سے انکار نھیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی ملک کا انفرسٹرکچر ایک گرافک
پریزنٹیشن کی حیثیت رکھتا ہے جس میں پہلی نظر میں ہی ملک کی ترقی کا عکس
دکھائ دیتا ہے۔ اور بلا شبہ، کرپشن بھی عوام کو تباہ کر دیتی ہے۔ مگر، ان
سب مساںل کا حل اور ان کے حل کے لیۓ پیش کیا گیا لفظ "تبدیلی" کے لیے بھی
عوام کی "زہنیت کی تبدیلی " کی ضرورت ہے۔ بھٹکی ہوئ عوام کو صوبائیت کے
تصور اور "اتھنو سنٹرک" کے تصور سے زرا الگ کر کے قومیت کے تصور میں پرونے
کی ضرورت ھے۔ نظام تعلیم، اور " تصور تعلیم٭" کو بدلنے کی ضرورت ہے۔(٭ تصور
تعلیم سے مراد یہ کہ ہمارے ہاں ایک باقاعدہ ادارے میں جانا، کتابوں کو ،
نصاب کو رٹ لینا جس کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا ہوتا ھے کو تعلیم سمجھا
جاتا ہے، مگر تعلیم کا تصور بلکل الگ ہے)۔ مذہب اور "سیکولر سسٹم " کے
درمیان ھماری عوام ایک الجھن میں پھنسی ھے کہ ہمارا مستقبیل کس طرف ھے۔
درمیانی طبقہ ، اعلی طبقے تک رسائ کے لیے تعلیم کا سہارہ لیتے ہیں۔ اور صرف
اپنے طرز زندگی کی کشمکش میں ڈگری کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور اسی
حصول میں وہ اصل کامیابی کے اصول پڑھنا ، سیکھنا ترک کر کے ایک کاغذ (جسے
ڈگری کہتے ہیں ) کے حصول میں اندھے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف، ہمارا
“Recruitment system” قابلیت کے بجاۓ محظ "حوالے" اور "تجربے" کی بنیاد پہ
کیا جاتا ہے۔ کہی تو تربعیت کا معیار تبدیلی کے نفاذ میں ایک بڑی دیوار
بنتا ہے ۔ ہم نے اس capitalist دور میں کامیاب ہونا تو سیکھا مگرمحض
انفرادی اور ظاہری کامیابی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(کیا ایسا نہیں ہے؟)۔ بچوں کو بستہ تھماتے ہوۓ ماں ان لفظوں سے رخصت کرتی
یے کہ "خوب پڑھنا، بڑا افسر بننا ہے" ۔ لفظ "بڑا" اور"افسر" سے کیا مراد
ہے؟ یہ نا بتایا جاتا ھے، نا صحیح معنوں میں اسے (اولاد کو۔۔۔) بنایا جاتا
ہے (بڑا اور افسر)۔ بچہ، اپنے بڑھنے کی تمام عمروں میں بڑا ہونے کا مطلب
طبقوں کی درجہ بندی (جو کہ ہم نے خود بنا رکھے ہیں) میں تلاش کرتا ھے۔ اور
دوسری طرف، جو صحیح معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کرنا چایتے ھیں، انہں آگے
آنے کے لیۓ ایک ایسے عمل سے گزرنا پڑھتا ہے جو اس نے شاید سیکھا ہی نا ہو۔
والدین ہونے کے تمام فرائض ہم محض تعلیمی اداروں میں بھیج کر ادا کر دیتے
ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر استاد سبق پڑھاتا یے، مگر ھر پڑھانے والوں کو
استاد نہیں کہا جاتا۔
نیز یہ کہ ھمارے ہاں جمہوریت کا مطلب صرف ، اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔ (اپنا
کام بنتا، بھاڑ میں جاۓ جنتا کا اصول اپنایا جاتا ھے۔) اپنے خلاف ہونے والی
زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا اور حق کے لۓ آواز اٹھانا بلا شبہ ایک جمہوری
حق ہے۔ مگر ایک حق کی خاطر سو لوگوں کی زندگیوں کا (داکٹرز کا مریضوں کو
مرتا چھوڑ کر اپنی تنخواہ کے لیۓ احتجاج کرنا) سودا کرنا اور لوگوں کٰی
زندگیوں کے مستبقل ( اساتذہ کا آدھا سال اپنی تنخواہوں کے لیۓ احتجاج کر کے
آدھے سال کا ادھورا نصاب پڑھانا) کا سودا کرنا کہاں کا جائز استعمال کرنا
یے جمہوریت کا؟ دوسری طرف، ہمارہ معاشی نظام اس قدر عدم توازن ہے کہ پیسوں
کا دیا کتنا بھی پروان چڑھے ، مہنگائ کے لاوے کے سامنے محض ایک دیا ہی ہے۔
یوں یہ اخذ کرنا غلط نھیں ھو گا کہ معاشی نظام اور سماجی کردار آپس میں
باہم ہیں۔
نوٹ: ہر فرد کی آزادانہ راۓ ہے۔ ہر ایک اپنے علم کے مطابق نظریہ رکھتا ہے۔
یہ محظ وہ جائزہ ھے ، جسے اپنی نظر سے دیکھا ،محسوس کیا اور بیان کر دیا
گیا۔ اس بارے میں سب کی راۓ اور تنقید دونوں قابل احترام ھو گی- |