ذوالفقار علی بھٹو پاکستان اور اولف پالمے سویڈن کے
وزیراعظم رہے ہیں۔ دونوں نہ صرف ہم عصر تھے بلکہ دونوں میں بہت سی مشترکہ
اقدار اور اتفاقات بھی موجود تھے۔وہ نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے ایک جیسے
خیالات کے حامل تھے۔ مشرق و مغرب میں رہنے کے باوجود دونوں سوشل ڈیموکریسی
یعنی سماجی جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔ ایک پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی و
قائد تھے تو دوسرے سویڈن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹ کے سربراہ
تھے۔ دونوں کی پیدائش ماہ جنوری میں ہوئی، اگرچہ اولف پالمے ، بھٹو سے ایک
سال بڑے تھے اور پھردونوں کی موت بھی غیر فطری ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور
اولف پالمے، دونوں کرشماتی شخصیت کے حامل تھے اور جب جلسہ عام میں اظہار
خیال کرتے تھے تو عوام پر ایک سحر طاری ہوجاتا تھا۔ دونوں راہنما آج بھی
اپنے اپنے ملک کے عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور لوگ انہیںبھلا نہیں سکے۔
تیسری دنیا کے عوام کے مسائل ، جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت ہو یا ویت
نام میں امریکہ کی مداخلت، ان سب معاملات پر دونوں کا نقطہ نظر ایک جیسا
تھا۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ بھٹو اور اولف پالمے ایک امیر کبیر خاندان میں
پیدا ہوئے اور نازونعمت میں پلے بڑھے لیکن غریبوں اور نچلے طبقے کا درد
اپنے پہلو میں رکھتے تھے۔ جناب بھٹو نے 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی
بنیاد رکھی جبکہ اولف پالمے 1969 میں سوشل ڈیموکریٹ کے سربراہ بنے۔ دونوں
وزارت عظمی کے عہدہ پر پہنچنے سے قبل وزیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد مسند اقتدار پر فائیز ہوئے
اور 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد انہوں نے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم
کا عہدہ سنبھالا جبکہ اولف پالمے 1969 میں سویڈن کے وزیراعظم منتخب ہوئے
اور تقریبا سات سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کا دوسرا دوراقتدار اکتوبر
1982 سے 28 فروری 1986 تک تقریبا تین سال کا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سویڈش
وزیراعظم اولف پالمے اور ان کے ملک کی ترقی و خوشحالی سے بہت متاثر تھے۔ وہ
پاکستان میں بھی سویڈن جیسی سماجی بہبود کا نظام لانا چاہتے تھے۔ اس غرض سے
انہوں نے ایک بھاری بھرکم وفد کے ساتھ سویڈن کا دورہ کیا۔ یہ 20 فروری 1976
کا ایک انتہائی سرد دن تھا جب اولف پالمے نے اسٹاک ہوم کے ہوائی اڈہ پر
بھٹو اور ان کے وفد کا سرخ گلاب کے پھولوں کے ساتھ استقبال کیا۔ان کے اس
دورہ پر سویڈش میڈیا میں بہت تبصرے اور تنقیدبھی ہوئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو
اپنے سویڈن کے اس دورہ کے بعد اگلے برس مارشل لا کے باعث اقتدار سے محروم
کردیئے گئے اور پھر 4 اپریل 1979 کو انہیں تختہ دار پر جھومنا پڑا۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے اس المناک انجام پر اولف پالمے بھی دکھی ہوئے۔ 1982
میں پالمے نے دوسری مرتبہ سویڈن کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اسی دور
اقتدار میں 28 فروری کی ایک رات کو وہ اپنی بیوی کے ساتھ اسٹاک ہوم شہر کے
ایک سینما میں فلم دیکھنے کے بعد پیدل اپنی رہائشگاہ کی طرف جارہے تھے کہ
کسی نامعلوم قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ سفاک قاتل کی گولی نے انہیں
سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور یوں سویڈش عوام کا محبوب قائد ان سے جدا ہو گیا۔
1986 میں ہونے والے اس قتل کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جاسکا اور نہ قاتل
گرفتار ہو سکا ۔ سترہ سال بعد سویڈش وزیرخارجہ آنالند کو بھی قتل کیا گیا
لیکن اس بارپولیس نے قاتل کو گرفتار کرلیا اور اسے عدالت سے سزا بھی سنائی
گئی۔ کسی سویڈش وزیراعظم کا یہ پہلا قتل تھا اس سے تقریبا دو سو سال قبل
سویڈش بادشاہ گستاف III بھی قتل کیے گئے تھے ۔ آج 2018 میں بتیس سال بعد
بھی اولف پالمے سویڈش عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہر سال وہ ان کی قبر
پر پھولوں کی صورت میں نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن نہ اس روز چھٹی ہوتی ہے
اور نہ ہی کوئی جلسہ عام منعقد کیا جاتا ہے حالانکہ ان کی اپنی جماعت مسند
اقتدار پر فائز ہے۔ اولف پالمے کی قبر پر نہ ہی کوئی مقبرہ تعمیر کیا گیا
اور جہاں وہ قتل ہوئے وہاں ایک سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک چھوٹی سی دہاتی
پلیٹ نصب ہے جس پر یہ لکھا ہے کہ یہاں سویڈش وزیراعظم اولف پالمے کا 28
فروری 1986 میں قتل ہوا تھا۔ وہاں سے گذرتے ہوئے اس نشاندہی کا احساس تک
نہیں ہوتا اور ہر روز ہزاروں روز اس کے اوپر سے گذرتے چلے جاتے ہیں۔ قومی
راہنما اپنے نظریات اور کردار کی وجہ سے تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔ بڑی بڑی
یادگاریں اور کروڑوں روپے کے مقبرے انہیں وہ مقام نہیں دلاتے۔ ایک جیسے
نظریات رکھنے والے دو عصر راہنماوں میں بہت سی مشترکہ خصوصیات کے باوجود
بڑے واضح فرق بھی موجود ہیں۔اولف پالمے ایک عام سی قبر میں مدفون ہیں جبکہ
ذوالفقار علی بھٹوکے مزار پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اولف پالمے نے
جمہوری اقدار کو یقینی بنایا اور ان کے قتل کے بعد ان کی بیوی نے جماعت کی
قیادت نہیں سنبھالی جبکہ پیپلز پارٹی کے اندر بھی کبھی جمہوریت نہیں رہی
اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی اہلیہ اور پھر بیٹی بے نظیر بھٹوجماعت
کی وارث ٹھہریں۔ اولف پالمے کی شخصیت کا ایک ہی رخ تھا جبکہ ذوالفقار علی
بھٹو ایسی نہیں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بہت قریبی ساتھی ڈاکٹر غلام حسین
جو پی پی پی کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیربھی رہے ہیں ، ان کے بقول بھٹو
کی شخصیت کے دو رخ تھے۔ ان کے باپ جاگیردار اوربہت امیر طبقہ سے تھے جبکہ
والدہ اس طبقہ سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ اپنی ماں کی نسبت سے ایک بھٹو غریب
عوام کے لئے اپنے دل میں درد رکھتا تھا تو دوسرا بھٹو اپنے باپ کے اثرات کی
وجہ سے جاگیردارانہ نظریات کا حامل تھا۔ جناب آصف جیلانی نے شاید اسی لئے
ذولفقار علی بھٹو کو ’’تضادات سے بھرا انسان‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے عروج و
زوال کو اپنی ایک شاندار تحریر میں سمو دیا جس میں بہت دلچسپ باتیں اور اہم
حقائق شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو اور اولف پالمے کا نام پاکستان
اور سویڈن ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ رہے گا۔ |