میں کئی برسوں سے یہی سنتااورپڑھتاآرہاہوں کہ وطن عزیز
حالت جنگ میں ہے اورپھریہ فقرہ اتنا عام اورتواترسے استعمال ہوا کہ
بسااوقات اس کووہ مطلوب سنجیدگی نہ مل سکی جواس اندیشے کاتقاضہ ہوناچاہئے
لیکن آج واقعی یوں لگ رہاہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہی نہیں بلکہ اس حوالہ
سے ایک فیصلہ کن مقام پرکھڑاہے۔ فیصلہ کن اس لحاظ سے کہ کچھ فیصلے ہمیں
کرنے ہیں جن کااس جنگ کے حتمی نتیجہ سے گہرا تعلق ہے لیکن پہلے چندباتوں کی
وضاحت ضروری ہے۔اس تناظر کے باوجود آپ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس بات
کوایک مرتبہ پھر کہہ سکوں کہ پاکستان واقعی حالتِ جنگ میں ہے۔ یہی نہیں،
پاکستان اس حوالہ سے ایک فیصلہ کن مقام پرکھڑاہے۔ فیصلہ کن اس لحاظ سے کہ
کچھ فیصلے ہمیں کرنے ہیں جن کااس جنگ کے حتمی نتیجہ سے گہراتعلق ہے لیکن
پہلے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
ہمارے ہاں حالتِ جنگ کامطلب دہشتگردی کے خلاف امریکاکی سربراہی میں لڑی
جانے والی وہ عسکری مہم لیاجاتا ہے،جو۲۰۰۱ء سے مسلسل جاری ہے۔ اس کادائرہ
کار صرف ہمارے خطے تک محدود نہیں،البتہ یہ ضرورہے کہ ہمارے خطے میں جوکچھ
ہورہاہے خاص کرافغانستان میں اس نے ہمیں براہ راست متاثر بھی کیا ہے
اورہمیں اس میں عملی طورپرشامل بھی کررکھاہے تاہم یہ جنگ اس بڑے معرکہ
کاصرف ایک حصہ ہے جس کاہمیں اصل میں سامنا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعددنیادوبڑے متحارب بلاکس میں تقسیم ہوگئی۔اشتراکی
بلاک کی قیادت سوویت یونین کے ہاتھ میں تھی اور مغربی یا سرمایہ دارانہ
نظام کی قیادت امریکاکے پاس۔ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اورہلاکت خیزی نے
دونوں سپرطاقتوں کے مابین روایتی جنگ کے امکانات کوبہت کم کر دیالیکن اس نے
باہمی کشمکش کی ایک نئی جہت کوجنم دیاجسے ہم’’سردجنگ‘‘کے نام سے یادکرتے
ہیں۔اس جنگ کی دوخصوصیات تھیں۔بین الاقوامی جاسوسی نظام میں عدیم
النظیروسعت اوردوسرے کے ملک یامفادات کے خلاف خفیہ کارروائیوں پر
بڑھتاہواانحصار۔اس مقصد کیلئے حریف کے ملک میں اسی کے باشندوں میں اپنے
حلیف تلاش کرنابنیادی عمل تھا۔ایساحلیف جوپالیسی سازی،اس پرعمل درآمد
یاپھرکسی بھی تخریبی کارروائی میں ممدومعاون ثابت ہوسکے۔
پہلے ویتنام اورپھرافغانستان میں اس حکمت عملی میں ایک نیاعنصرسامنے
آیا،جوپہلے بھی کسی ناکسی حدتک موجودتوتھاجیساکہ ہم مشرق وسطیٰ،لاطینی
امریکا،افریقا کے چندممالک اورایران میں بھی مختلف اوقات میں دیکھ چکے تھے
لیکن ان دوجنگوں نے اسے ایک باقاعدہ شکل دے دی۔ یہ بظاہرباقاعدہ جنگ جیسی
ہی صورت تھی لیکن اس میں ایک کلیدی فرق تھا۔ اس جنگ میں ایک فریق تواپنی
فوج کی مدد سے لڑائی میں حصہ لیتاتھا جبکہ دوسرا فریق، خود سامنے آئے
بغیر،بظاہرغیرمنظم گروہوں کی مددسے اس جنگ میں شامل رہتاتھا۔ان گروہوں
کوکسی نظریاتی نعرہ پریکجاکیاجاتااورپھراس کواسلحہ، تربیت اور آپریشنل
پلاننگ کی سطح پربھرپورلیکن خفیہ مدد فراہم کی جاتی رہی۔ ہدف یہ تھا کہ اسے
براہ راست دوطرفہ ٹکراؤسے بچاتے ہوئے مخالف کوہزیمت سے دوچار کیاجائے۔
اسے’’فورتھ جنریشن وارفئیر‘‘کانام دیاگیا۔اس کاعمومی پلان کچھ یوں ہوتاہے
کہ موجوداتھارٹی کے خلاف باغی نمودارہو جاتے ہیں اورمسلح کاروائیوں کے
ذریعہ ریاست کانظم اورنظام چیلنج کرتے ہیں۔ان کی کچھ’’جائز‘‘شکایات ہو سکتی
ہیں،احساس محرومی کوبنیادبنایاجاسکتا ہےیاپھریہ کسی انقلاب کے سنہرے خوابوں
سے عبارت معاملہ ہوتا ہے۔ پہلی افغان جنگ کے بعد جب سوویت یونین کاانہدام
ہوگیاتو’’القاعدہ‘‘کی صورت ایک ایساعنصرعالمی افق پرنمایاں ہواجس نے مسلم
نشاۃ ثانیہ کے نام پرمختلف ممالک میں مسلح جدوجہد کی داغ بیل ڈالی۔ اس
کااگلامرحلہ’’داعش‘‘کی شکل میں سامنے آیا،جوالقاعدہ سے کہیں زیادہ شدت
پسند اورتباہ کن تھا۔
معاملہ یہاں رُکانہیں اورفورتھ جنریشن وارفئیر کے ساتھ ہی اس سے بھی زیادہ
ہمہ گیر’’ففتھ جنریشن وارفئیر‘‘کاتخیل بھی عملی صورت میں سامنے آتاگیا۔ اس
جنگ میں باقاعدہ فوج کاعنصر پیچھے چلاجاتاہے اورسوشل میڈیااس کی جگہ فرنٹ
سیٹ سنبھال لیتاہے۔اس جنگ کاہدف بھی ریاست ہوتاہے لیکن اس کا دارو مداراسی
ریاست کے عوام پرہوتاہے جن پر’’پروپیگنڈہ کی یلغار‘‘کے ذریعہ اثر اندازہونے
کی کوشش ہوتی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہوتاہے کہ عوام کوباور کروایا جائے کہ ان
کی تمام ترمشکلات بس کسی ایک عنصرکی وجہ سے ہیں اوروہ راہ سے ہٹ جائے توسب
ٹھیک ہو جائے گا۔پھراس تناؤکواس قدرہوادی جائے کہ وہ اس کے خلاف اٹھ ہی
کھڑے ہوں،یاکم ازکم بھی اس سے خودکوعلیحدہ کرلیں۔اس مرحلہ پران کے ساتھ وہ
گروہ بھی آن ملیں جن کاذکرفورتھ جنریشن کے ضمن میں ہواتاکہ ان کوایک
بازوئے شمشیرزن بھی میسرآجائے اوریوں ایک ایسی تباہی کاراستہ کھلے،جو ملک
اوراس کی اتھارٹی کومفلوج کرکے رکھ دے۔ امریکا میں خودامریکاکے متعلق ففتھ
جنریشن وارفئیر کی اسٹڈیزمیں’’فوج‘‘کووہ عنصر تسلیم کیاگیاہے،جس کی اگرعوام
کی مددسے کمر توڑدی جائے توریاست منہدم ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
امریکاہی نہیں، یہ بات سب ممالک کیلئے درست ہے۔ ریاست کولاحق خطرات کی صورت
میں فوج سب سے قابل بھروسہ دفاعی لائن ہوتی ہے۔اسے ہی اگرپہلے ہلّے میں
ناکام کردیاجائے توباقی اہداف کاحصول نہایت سہل ہوجاتاہے۔
امریکامیں صدرٹرمپ کی آمداوران کی پالیسیوں سے یہ اندازہ لگاناقطعی مشکل
نہیں کہ دنیامیں جغرافیائی، سیاسی اورجیواسٹریٹجک تبدیلیوں کاایک ہنگامہ
خیز سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے خطے میں ان تبدیلیوں کا ہدف چین اور بھارت
ہیں، لیکن اس کے تمام تر منفی اثرات کا سامنا پاکستان کو کرنا ہو گا۔
پاکستان کی ہندوستان کے ساتھ مخاصمت اورچین کے ساتھ قرابت اس کی بنیادی وجہ
ہے۔اس پرمستزادپاکستان کا جوہری پروگرام جومسلم دنیاکاواحد بچ رہنے
والاجوہری پروگرام ہے کیونکہ یہ سوفیصدپاکستانی سائنس دانوں کی شب وروزمحنت
کانتیجہ ہے،اس لئے امریکااورمغرب کیلئے یہ ممکن نہیں رہاکہ وہ ان تمام
پاکستانی ہنرمندوں کوغائب کرسکیں جس طرح وہ دوسرے ملکوں میں یہ کارہائے بد
انجام دیتے رہے ہیں۔
پاکستان نے ماضی میں بیرونی دباؤ کے سامنے خاصی برداشت کامظاہرہ
کیاہے۔غالباًاسی لیے اس وقت پاکستان پرمتعددجہات سے دباؤڈالاجارہاہے، خاص
طورپرداخلی محاذپر۔ فوج اس کااوّلین ہدف ہے اوراس کے بعدخود حکومت
اوردیگرریاستی ادارے بھی،جیساکہ سوشل میڈیا پرجاری پروپیگنڈہ مہم جس کا ہدف
فوج،حکومتی شخصیات اورعدلیہ ہیں۔ نیزحکومت کو مفلوج کرنے والے
اقدامات،بشمول یکے بعددیگرے دھرنے اوراحتجاج۔عوامی سطح پرکنفیوژن کو فروغ
دینے کیلئے علاقائی،مذہبی اورنظریاتی مباحث اور تعصبات کوہوادی جا رہی
ہے۔فوج کامعاملہ یہ ہے کہ دہشتگردی کامعاملہ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا
،ساتھ ہی فوج کومشرقی اورمغربی سرحدوں سے بیک وقت ایک مسلسل جنگ کا
سامناہے،جس میں جانی نقصان کے علاوہ مختلف حوالوں سے ساکھ کو نقصان پہنچانا
بھی مطلوب ہے اورفوج کے ردِّ عمل کی صلاحیت کوکمزورکرنابھی یعنی فوج کو
مسلسل مصروف کر کے تھکادیاجائے، کنفیوز رکھا جائے۔ یہی نہیں، اندرونی
سیکورٹی میں فوج کی موجودگی اور پھر مبینہ طورپرسیاسی معاملات میں اس کی
مداخلت نے بھی فوج مخالف پروپیگنڈے کوبہت جگہ فراہم کی ہے۔ نوبت یہاں تک آ
گئی ہے کہ ملک میں ہونے والے کسی بھی واقعہ کاالزام فوج پردھردیجیے اورعوام
کاایک طبقہ بغیرکوئی سوال یا تحقیقات کامطالبہ کیے اسے من وعن قبول کرلے
گا۔ یہ نہایت خطرناک علامت ہے۔ اس کاسب سے بڑانقصان یہ ہے کہ فوج کی جانب
سے ملک میں دہشت گردی ختم کرنے کیلئے دی گئی لازوال قربانیاں پس منظرمیں
چلی جاتی ہیں اورمتنازع باتیں ہروقت میڈیاپرگردش کرتی رہتی ہیں۔
یہی وہ فیصلہ کن موڑہےجس کاتذکرہ اس مضمون کے آغازمیں ہوا۔ ہمارے لیے سب
سے اہم ترجیح فوج کومنفی پروپیگنڈہ سے محفوظ رکھناہوناچاہیے۔ اس ہدف کے
حصول کیلئے داخلی سیکورٹی سے فوج کی واپسی اورسیاسی معاملات، بشمول خارجہ
پالیسی اورپالیسی بیانات میں فوج کااس قدراعلانیہ’’فٹ پرنٹ‘‘کم کرناوقت کی
اہم ترین ضرورت ہے تاکہ فوج کوایک فوری ہدف بننے سے محفوظ رکھاجاسکے۔ فوج
کی ساکھ محفوظ رہے گی تواس کامورال اور عوام کے دلوں میں اس کی محبت بھی
برقراررہے گی۔ ففتھ جنریشن وارفئیرکاطریق ایساہے کہ بظاہرشکاری نظرآنے
والادرحقیقت خودشکارہوتاہے۔آپ دیکھ لیجیے،ماضی میں اگرسول حکومت کوفوج
ہٹاتی رہی ہے توفوجی حکمرانون کوکون ہٹاتارہا؟ وہی شکاری اورشکاروالی بات۔
پہلے کیس میں بظاہرشکاری دوسرے میں خودشکار ہوجاتاہے۔ یہی کچھ صدام کے ساتھ
کویت والے قصے میں ہوا۔اس لیے پہلے قدم سے گریزلازم ہے کیونکہ یہ دراصل
خوداسی کا ہانکا لگانے کی ابتداہوتی ہے۔
ہمارے کیس میں معاملہ صرف فوج کاہی نہیں۔حکومت پربھی گھیراتنگ کیاجارہا ہے۔
ففتھ جنریشن وارکے متعلق ایک کہاوت بہت مشہورہے۔یہ وہ جنگ ہے جسے جیتنے
کیلئے ضروری ہے کہ اسے لڑاہی نہ جائےیعنی ان عناصرکا تدارک پہلے ہی
کرلیاجائے جن کوبنیادبناکرعوام میں نفرت اوربے چینی پیدا کی جاتی ہے۔ معاشی
ترقی اورحکومتی بندوبست میں عوامی شمولیت اس میں تریاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سی پیک کی اس قدرشدیدمخالفت بھی اسی وجہ سے ہے کہ پاکستان اس پھندے سے نکل
نہ جائے لیکن یہ بات صرف ایک سی پیک کی نہیں،پاکستان کے سیاست دانوں،اداروں
اورعوام کوبہت بالغ نظری سے اس صورتحال کیلئے سیاسی،معاشی،معاشرتی اوردفاعی
پلاننگ کرناہوگی۔ سیاسی کشمکش ہویاادارہ جاتی،ایک دوسرے کوزیرکرنے کی
پالیسی پاکستان کو اس دلدل میں مزیداندر دھنسادے گی۔ یادرہے،اس جنگ میں
خودکوشکاری سمجھنے والے دراصل خود کسی اورکاشکارہوتے ہیں۔ بردبارانہ فیصلے
ہی اس جنگ میں پاکستان کوفتح یاب کرسکتے ہیں۔اس اہم موقع پرہمارے قدم
اکھڑنے نہ پائیں۔ |